سانحۂ ٹنڈو بہاول: مائی جندو کے خاندان کے نو افراد کا قتل جس نے سندھ میں آپریشن کلین اپ کا رخ ہی موڑ دیا

جعفر رضوی - صحافی، لندن


 

سندھ آپریشن

’انسانی گوشت کے جلنے کی بُو تو شاید کمرۂ عدالت تک نہیں پہنچ رہی تھی مگر آگ کے شعلوں سے جھلس جانے والی دونوں بہنوں کی چیخیں نظامِ انصاف کے کانوں میں صور پھُونک رہی تھیں۔‘

شیکسپیئر کے مکالمے یا غالب کے شعر کی طرح، اُن بزرگ کی بات بھی سُنے بغیر نظر انداز نہیں کی جا سکتی تھی۔ فرق صرف یہ تھا کہ ان کا کہا ہوا نہ تو تخیلاتی شعر تھا اور نہ المیے پر مبنی ڈرامہ۔

وہ ’سانحۂ ٹنڈو بہاول‘ کے دردناک اور دل سوز حقائق بیان کر رہے تھے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اسی سانحے نے مُلک کے جنوبی صوبے سندھ میں جاری اُس فوجی کارروائی کا رُخ بھی موڑ کر رکھ دیا تھا جسے ’سندھ آپریشن کلین اپ‘ کہا جاتا ہے۔

وہ پانچ جون 1992 کی رات تھی۔ سندھ میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن شروع ہوئے ابھی محض ایک ہی ہفتہ گزرا تھا کہ اندرون سندھ تعینات میجر ارشد جمیل اعوان کی سربراہی میں فوج کے ایک دستے نے دعویٰ کیا کہ فوج سے مقابلے میں نو ڈاکو مارے گئے۔

فوج نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ہلاک ہونے والے ’جرائم پیشہ‘ افراد انڈین خفیہ ادارے ’را‘ سے بھی روابط رکھتے تھے اور اُن سے بھاری مقدار میں جدید اسلحہ برآمد کیا گیا ہے۔

فوجی افسر کے دعوے پر مبنی خبر شہری علاقوں سے شائع ہونے والے اخبارات میں چھپنے کے بعد وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل آصف نواز دونوں ہی دریائے سندھ کے کنارے اس مقام پر پہنچے جہاں فوج نے مقابلے کا دعویٰ کیا تھا۔

آئی ایس پی آر کے اس وقت سندھ میں نگران بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) صولت رضا بھی وزیراعظم اور آرمی چیف کے ہمراہ ٹنڈو بہاول گئے تھے۔

وہ بتاتے ہیں ’میں نے ہی کور کیا تھا۔ وہاں ڈاکوؤں سے برآمد ہونے والا اسلحہ بھی دکھایا گیا جس کی ہم نے تصاویر بھی پریس کو جاری کیں اور وزیراعظم نے کارروائی میں شریک افسر اور ان کے دستے کے لیے انعامی رقم کا اعلان بھی کیا۔‘

صحافی ناز سہتو اُسی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں اور اس وقت انگریزی اخبار سندھ آبزرور اور سندھی اخبار خادمِ وطن دونوں ہی کے نیوز ایڈیٹر تھے۔

ناز سہتو کے مطابق تین چار روز تک تو شہری علاقوں کے بڑے اخبارات میں بھی اس مقابلے کی خوب پذیرائی ہوئی مگر پھر مقامی صحافیوں نے بالآخر اس کے اصل حقائق کا پردہ فاش کر دیا۔

ناز سہتو نے بتایا ’اور تب چانڈیو قبیلے سے تعلق رکھنے والی مائی جندو کے خاندان پر ٹوٹنے والی قیامت کا پتا چلا۔‘

اُس زمانے کے انگریزی اور اردو اخبارات اور اب انٹرنیٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق میجر ارشد جمیل اعوان کے بعض قرابت دار دراصل مائی جندو کے خاندان کی ملکیتی زمین پر قبضہ کرنا چاہتے تھے اور انھوں نے اس سلسلے میں میجر ارشد جمیل سے ’مدد‘ مانگی۔

تحقیقات کے مطابق پانچ جون کی رات میجر ارشد اپنے 15 رکنی دستے کے ہمراہ مائی جندو کے گھر میں جا گھسے اور وہاں موجود نو افراد کو بندوق کی نوک پر اغوا کر لیا۔ اِن افراد میں مائی جندو کے دو بیٹے بہادر اور منٹھار جبکہ ایک داماد حاجی اکرم بھی شامل تھے۔

پھر میجر ارشد اور اُن کا دستہ تمام مغویوں کو لے کر دریائے سندھ کے کنارے پہنچا جہاں ان تمام افراد کو قطار میں کھڑا کر کے گولیاں مار دی گئیں اور مرنے والے نو افراد کو ڈاکو قرار دے دیا گیا۔

ناز سہتو کے مطابق ’ہمارے ایک نمائندے نے پانچ جون کی رات محض اتنی خبر دی کہ ٹنڈو بہاول سے کچھ افراد کو قانون نافذ کرنے والے ادارے کہیں لے گئے ہیں۔ دوسرے دن قریبی دریائی علاقے کوٹھڑی سے خبر آئی کہ کچھ لاشیں ہسپتال لائی گئی ہیں۔‘

لاشوں کی صرف تصاویر دستیاب تھیں جبکہ حراست کی خبر کی کوئی تفصیل نہیں تھی اور ناز سہتو سمیت کئی صحافی بھی دونوں خبروں کے تعلق سے بےخبر تھے۔

بہرحال مقامی اخبارات میں لاشوں کی تصاویر بغیر تفصیل کے شائع ہوئی اور حراست کی خبر کے لیے ناز سہتو سمیت کئی صحافی ٹنڈو بہاول پہنچے۔

ناز سہتو کے مطابق ’ٹنڈو بہاول کے سہمے ہوئے خوفزدہ لوگ جنھیں اپنے لوگوں کے فوجی افسر اور دستے کے ہاتھوں قتل کی کوئی اطلاع ہی نہیں تھی اتنے ڈرے ہوئے تھے کہ حراست کی خبر پر بات کرنے کو بھی تیار نہیں تھے مگر جب انھیں دریا کنارے سے ملنے والی لاشوں کی تصاویر دکھائی گئیں تو اُنھیں پہچان کر یہ لوگ رونے اور بین کرنے لگے۔‘

سندھ آپریشن

’پھر پتہ چلا کہ اصل میں ہوا کیا ہے اور مائی جندو کے خاندان پر کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہے یعنی فوجی دستے نے مائی جندو کے خاندان کے ارکان کو ڈاکو قرار دے کر جعلی مقابلے میں قتل کر دیا۔‘

یہ حقائق پہلے مقامی پھر اردو اور انگریزی کے قومی اور بالآخر عالمی ذرائع ابلاغ میں شائع ہوئے تو ’سانحۂ ٹنڈو بہاول‘ ایسی قومی شرمندگی کا باعث بنا جس کا اعتراف اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل آصف نواز کو اعلانیہ طور پر کرنا پڑا۔

اسی شرمندگی میں فوج کی صوبائی قیادت تک اعلیٰ افسران کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی۔ بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) صولت رضا کے مطابق ’جی او سی حیدرآباد میجر جنرل سلیم الحق اور اُن کے نائب بریگیڈیئر کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔‘

اخبارات کے مطابق میجر ارشد جمیل اعوان کو فوج سے برطرف کر کے اور اُن کے دستے کے ارکان سمیت گرفتار کر لیا گیا اور ان کا فیلڈ جنرل کورٹ مارشل شروع ہوا۔

ناز سہتو کے مطابق مائی جندو اور اُن کے خاندان کو سمجھوتے کے بدلے بڑی زرعی زمین کی بھی پیشکش ہوئی مگر انھوں نے حصول انصاف کو ترجیح دی۔

ماورائے عدالت و قانون نو افراد کو قتل کرنے کا جرم ثابت ہونے پر میجر ارشد جمیل کو پھانسی کی سزا تو سنا دی گئی مگر مائی جندو اور اُن کے خاندان کے لیے اس کے باوجود بھی انصاف کا حصول ہرگز آسان نہیں تھا۔

تقریباً چار برس تک مقدمہ فوجی اور دیگر ملکی عدالتوں میں روایتی تاخیر کا شکار ہوا اور مائی جندو کا خاندان انصاف کا منتظر رہا۔

اب اسے عدل کی فراہمی کی سست رفتار کہہ لیں یا نظام انصاف کی طویل محکمہ جاتی خامیاں مگر مائی جندو کے خاندان کو اپنے بے گناہ بیٹوں اور داماد سمیت نو افراد کے قاتلوں کو سزا دلوانے اور صرف ایک کو تختۂ دار تک پہنچانے کے لیے دو اور جانوں کا نذرانہ دینا پڑا۔

ستمبر 1996 میں مائی جندو کی دو صاحبزادیوں حاکم زادی اور زیب النِسا نے اعلان کیا کہ اگر اُن کے بھائیوں اور شوہر کے قاتلوں کی پھانسی کی سزا پر عملدرآمد نہ ہوا اور مزید تاخیر کی گئی تو وہ حیدرآباد میں عدالت کی عمارت کے سامنے خود سوزی کر لیں گی۔

سندھ آپریشن

اسے بھی بدقسمتی کہا جائے یا نظام انصاف کی کمزوری کے مائی جندو کی بیٹیوں کو آخرِ کار 11 ستمبر 1996 کو اپنی دھمکی پر عملدرآمد کرنا ہی پڑا۔

جھلس کے شدید زخمی ہو جانے کے بعد انتہائی نازک حالت میں دونوں بہنوں کو بیسیوں میل دُور کراچی کے سول ہسپتال منتقل کیا گیا کیونکہ پورے صوبے میں اس وقت کسی دوسرے ہسپتال میں برن وارڈ ہی نہیں تھا۔ اسی برن وارڈ میں دونوں بہنیں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے بالآخر جان کی بازی ہار گئیں۔

دونوں بہنوں کے یوں زندگی ہار جانے کے ٹھیک ایک ہفتے بعد 19 ستمبر 1996 کو مجھے وہ بزرگ کراچی میں ایک عدالت ہی کے باہر ملے۔ اُن بزرگ سے اپنی ملاقات میں کبھی فراموش نہیں کر پاؤں گا۔ وہ بدھ کی عجیب وحشت انگیز سی صبح تھی۔

تب میں انگریزی اخبار ’دی نیوز‘ کا کرائم رپورٹر تھا اور کسی خبر کے سلسلے میں کراچی میں ایم اے جناح روڈ پر واقع سٹی کورٹ پہنچا تھا جہاں ایک راہداری میں وہ بزرگ بھی بیٹھے تھے۔

وہ جامشورو سے آئے تھے۔ ایک ہفتے پہلے مائی جندو کی بیٹیوں کی خود سوزی کی خبر کم از کم کراچی کے ایک رپورٹر اور جامشورو کے ایک بزرگ مکین کے لیے تو تب بھی تازہ ہی تھی۔

اچانک اُن سے تعارف ہوا اور تعارف ہوتے ہی انھوں نے اُس خبر کا تذکرہ کیا۔

اُن کی نیلی مائل چھوٹی آنکھیں، پتلا مگر جھریوں بھرا چہرہ، روایتی سندھی مونچھیں، خشخشی ڈاڑھی ، کاندھے پر پڑی اجرک اور ملگجا عام سا مگر صاف ستھرا لباس میں کبھی کچھ نہیں بھول پایا، بس نہیں یاد رہا تو اُن کا نام لیکن ان کے الفاظ زندگی بھر یاد رہیں گے۔

انھوں نے کہا تھا ’پُٹھ(بیٹے) انسانی گوشت کے جلنے کی بُو تو شاید کمرۂ عدالت تک بھی نہیں پہنچ رہی تھی مگر آگ کے شعلوں سے جھلس جانے والی دونوں بہنوں کی چیخیں نظامِ انصاف کے کانوں میں وہ صُور پھُونک رہی تھیں کہ یوں لگا کہ پتّھر کی بنی ہوئی قانون کی دیوی بھی اپنی آنکھوں پر بندھی ہوئی سیاہ پَٹّی نوچ کر پھینک دے گی۔‘

مائی جندو کی بیٹیوں کی ہلاکت کے باوجود سزا پر عملدرآمد اس وقت تک نہیں ہو سکا جب تک سپریم کورٹ نے میجر ارشد کی سزائے موت کے خلاف اپیل اور پھر صدرِ پاکستان نے رحم کی اپیل مسترد نہیں کر دی۔

آخرِکار 28 اکتوبر 1996 کو میجر ارشد کو حیدرآباد کی سنیٹرل جیل میں پھانسی دے دی گئی مگر واقعے کے دیگر ملزمان کو موت کی سزا نہ دی گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp