کیا آپ کو معلوم ہے کہ وھیل مچھلی کی قے کروڑوں روپے میں کیوں فروخت ہوتی ہے؟

جے دیپ وسنت - بی بی سی گجراتی


کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ کسی جانور کی الٹی یعنی قے سونے سے زیادہ قیمت ہو سکتی ہے؟ یہ ایک کروڑ روپے (انڈین) فی کلوگرام کی قیمت سے بھی فروخت ہو سکتی ہے؟

ہاں، یہ ہو سکتا ہے اگر یہ قے سپرم وھیل نامی مچھلی کی ہو۔ انڈین ریاست گجرات کے شہر احمد آباد کی پولیس نے حال ہی میں سپرم وھیل کی ساڑھے پانچ کلوگرام قے (عنبر یا ٹھوس سیاہی مائل چربیلے مادے) کے ساتھ تین افراد کو گرفتار کیا ہے۔ بین الاقوامی منڈی میں اس کی قیمت کا تخمینہ لگ بھگ سات کروڑ روپے ہے۔

پولیس اور محکمہ جنگلات کو امید ہے کہ گرفتار تینوں ملزموں کی معلومات کی بنیاد پر گجرات میں سمندری مخلوق اور ان کے اعضا کی غیر قانونی تجارت کے بارے میں مزید معلومات سامنے آئیں گی۔

گجرات میں اس معاملے کے منظر عام پر آنے سے قبل ممبئی (مہاراشٹر) اور چینئی (تمل ناڈو) میں بڑی مقدار میں عنبر برآمد کی گئی تھی۔ وہاں سے معلوم ہوا کہ گجرات کے کچھ لوگ بھی اس کاروبار میں شامل ہیں۔

چین میں عنبر کا استعمال جنسی قوت میں اضافہ کرنے والی دوائیں تیار کرنے میں کیا جاتا ہے، جبکہ عرب ممالک میں اس کا استعمال اعلیٰ درجے کی عطر یعنی خوشبو تیار کرنے میں ہوتا ہے۔

سپرم وھیل اور عنبر

جب سپرم وھیل کیٹل فش، آکٹپس اور یا ایسے کسی دوسرے سمندری جانور کو کھاتی ہے تو اس کا نظام ہاضمہ ایک خاص قسم کی رطوبت پیدا کرتا ہے تا کہ شکار کے نوکیلے کانٹے اور دانت اس کے جسم کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔

اس کے بعد سپرم وہیل اس ناپسندیدہ کیمیائی مادے کو قے کے ذریعہ اپنے جسم سے نکال دیتی ہے۔ کچھ محققین کے مطابق سپرم وھیل پاخانے کے ذریعے بھی عنبر نکالتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وھیل کے شکار کی نوکیلے حصے بھی اس کے فضلوں میں پائے جاتے ہیں۔ وھیل کے جسم سے نکلنے والا یہ مادہ سمندر کی سطح پر تیرتا رہتا ہے۔

سورج کی روشنی اور سمندر کے نمک کے ملنےکے بعد یہ عنبر تیار ہوتا۔ خوشبو دار چیزیں بنانے کے لیے عبنر بہت کارآمد ہے۔

عنبر سیاہ، سفید اور سرمئی رنگ کا چربی دار مادہ ہے۔ یہ بیضوی یا گول شکل میں ہوتا ہے۔ یہ سمندر میں تیرتے ہوئے ایسی شکل اختیار کرتا ہے۔ یہ ایک آتش گیر مادہ ہے اور اس کے لیے شراب یا ایتھر کی ضرورت ہوتی ہے۔

سپرم وھیل اس دنیا میں دانتوں والا سب سے بڑا جاندار ہے۔ واضح رہے کہ چھوٹی ‘پگمی سپرم وھیل’ اور بہت چھوٹی ‘بونی سپرم وھیل’ بھی ہوتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سپرم وھیل کے سر پر ایک عضو ہوتا ہے جسے سپرمیٹی کہا جاتا ہے اور یہ روغن سے بھرا ہوتا ہے۔

وھیل کی قے یعنی عببر

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ وھیل کا سپرم یا منی یا نطفہ ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اس وھیل کو ‘سپرم وھیل’ کہا جاتا ہے۔ یہ حصہ صوتی اشاروں پر توجہ مرکوز رکھتا ہے جو سمندر میں اچھال کے دوران وھیلوں کی مدد کرتا ہے۔

ماہرین کے مطابق وھیل کے جسم سے خارج ہوا مادہ یا عنبر ابتدا میں بدبو دار ہوتا ہے لیکن جیسے ہی اس کا ہوا سے رابطہ بڑھتا ہے اس کی بدبو ایک میٹھی خوشبو میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ عنبر خوشبو کو ہوا میں اڑنے سے روکتا ہے۔ ایک طرح سے یہ سٹیبلائزر کا کام بھی کرتا ہے تاکہ بو ہوا میں تحلیل نہ ہو جائے۔

عنبر نایاب ہے اور اسی وجہ سے اس کی قیمت بھی بہت زیادہ ہے۔ اسے سمندری سونا یا تیرتا ہوا سونا بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی قیمت سونے سے زیادہ ہے۔ بین الاقوامی منڈی میں اس کی قیمت ڈیڑھ کروڑ روپے فی کلو تک ہو سکتی ہے۔

جام نگر میرین نیشنل پارک کے چیف کنزرویشن آفیسر ڈی ٹی واسودا کا کہنا ہے کہ ‘سپرم وھیل وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ کی دفعات کے تحت محفوظ جانوروں کی فہرست میں آتی ہیں۔ لہذا، ان کا شکار کرنا یا تجارت کرنا ایک جرم ہے۔ اس کے قانونی کاروبار کے لیے لائسنس کی ضرورت ہے۔ عنبر کی حالیہ پکڑی گئی کھیپ کہاں سے آئی تھی، اس کا علم نہیں لیکن عرب ممالک میں اس کی بہت زیادہ مانگ ہے۔ عرب ممالک میں لوگ اس کی سب سے زیادہ قیمت ادا کرنے کو تیار رہتے ہیں۔‘

ہڈیوں، تیل اور عنبر کے لیے وھیل بڑے پیمانے پر شکار کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنہ 1970 کے بعد سے یورپ، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں اس کے کاروبار پر پابندی عائد ہے۔

گجرات میں ساحلی پٹی چھ ہزار کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ یہ ملک کا سب سے طویل ساحل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سمندر کنارے والے علاقوں میں سمندری مخلوق اور ان کے باقیات کی غیر قانونی تجارت اور سرگرمیاں نظر آتی ہیں۔ گجرات کے علاوہ، مشرقی ساحلی ریاست اوڑیسہ اور جنوبی ریاست کیرالہ کے ساحل پر بھی کبھی کبھار عنبر مل جاتے ہیں۔

جنگلات پروٹیکشن ایکٹ آف انڈیا کے تحت سنہ 1986 سے سپرم وھیل ایک محفوظ جانور ہے۔ لہذا، سپرم وھیل اور اس کے اعضا کا کاروبار غیر قانونی ہے۔

جنسی قوت بڑھانے والی دواؤں میں استعمال

عنبر صدیوں سے نہ صرف انڈیا میں بلکہ پوری دنیا میں عطریات اور دوائیوں کے طور پر استعمال کی جاتی رہی ہے۔ ابن بطوطہ اور مارکو پولو، جنھوں نے دنیا کے بہت سے ممالک کا سفر کیا انھوں نے بھی اپنے سفر ناموں میں عنبر کا ذکر کیا ہے۔ انڈیا میں دیسی علاج آیوروید کے علاوہ، یونانی ادویات میں بھی اس کا استعمال ہوتا ہے۔

لکھنؤ کی انٹیگرل یونیورسٹی میں شعبۂ طب میں ایسوسی ایٹ پروفیسر بدرالدین نے بی بی سی کو بتایا کہ ’عنبر صدیوں سے یونانی طب میں مستعمل ہے۔ اسے بہت سی جڑی بوٹیوں کے ساتھ ملا کر جسمانی، ذہنی، اعصابی اور جنسی بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے۔’

یہ بھی پڑھیے

پہاڑی غاروں سے ملنے والی سلاجیت میں ایسا خاص کیا ہے؟

کراچی: بوہڑ کا دودھ موجود مگر برگد کے درخت لاپتہ

شارک کے ساتھ اچانک ٹاکرا اور سیلفیاں

وہ کہتے ہیں: ‘عنبر کو شکر کی چاشنی اور دیگر جڑی بوٹیوں کے ساتھ ملا کر استعمال جاتا ہے۔ اس سے بنی دوائی کو ’معجون ممسک مقوی‘ کہا جاتا ہے۔ جب جنسی قوت کم ہو جاتی ہے تو اس کا پیسٹ بنا کر دوا کے طور پر دیا جاتا ہے۔ اس سے جنسی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ دوا ‘حب نشاط’ کے نام سے متعدد تسلیم شدہ فارمیسیوں کے ساتھ ساتھ آن لائن میڈیکل سٹوروں پر بھی دستیاب ہے۔

ڈی ٹی واسودا نے کہا: ‘کہا جاتا ہے کہ عنبر جنسی صلاحیت کو بڑھاتا ہے لیکن اس کے سائنسی یا ٹھوس شواہد نہیں ہیں۔‘

ڈاکٹر بدرالدین اور ان کے ساتھیوں نے اعصابی نظام پر اس کے اثرات کے بارے میں ایک تحقیقی مقالہ تیار کیا ہے۔ یہ جلد شائع کیا جائے گا۔

سپرم وھیل

احمد آباد میں عنبر کی کھیپ

احمد آباد زون سات کے ڈی سی پی پریم سکھ دیلو کے مطابق ’ایسی اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ کچھ لوگ عنبر کی کھیپ لے کر احمد آباد آ رہے ہیں۔ یہ جانتے ہی ہم نے اپنا جال پھیلایا اور یہ لوگ اس میں پھنس گئے۔ ہمیں یقینی طور پر معلوم نہیں تھا کہ جو افراد عنبر لے کر آرہے ہیں وہ دراصل اس کا کاروبار کر رہے ہیں یا اس کے نام پر فریب کر رہے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس معاملے میں تین افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ ضبط شدہ مواد کی ابتدائی تفتیش میں، فرانزک سائنس لیبارٹری نے تصدیق کی ہے کہ یہ عنبر ہی تھا۔ اسی بنا پر ملزموں کو سنہ 1972 کی جنگلی حیات کے تحفظ کے قانون کی مختلف شقوں کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔

دیلو کے مطابق چوتھے شخص کو ان تینوں ملزمان سے پوچھ گچھ کے دوران موصول اطلاع کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا تھا۔ پولیس کو اطلاع ملی تھی کہ ان لوگوں کے ساتھی گجرات میں بھی سرگرم ہیں۔ جمعہ کے روز یہ معاملہ محکمہ جنگلات کے حوالے کیا گیا۔ اب محکمہ جنگلات اور پولیس مل کر اس نیٹ ورک کو ختم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

دیلو نے بتایا کہ پکڑے گئے مال (عنبر) کا وزن پانچ کلو اور ساڑھے تین سو گرام تھا۔ بین الاقوامی منڈی میں اس کی متوقع قیمت سات کروڑ روپے ہو گی۔ فرانزک سائنس لیبارٹری ایک باضابطہ اور مفصل رپورٹ دے گی کہ ضبط شدہ مواد عنبر ہے۔ اس رپورٹ کو بطور ثبوت پیش کیا جائے گا۔

پولیس کو شبہ ہے کہ دس ہزار سے زیادہ افراد اس چوری کے کاروبار میں ملوث ہیں۔ اس سلسلے میں اس نے دو افراد کو جوناگڑھ سے اور ایک ایک کو بھاونگر اور ادے پور (راجستھان) سے گرفتار کیا ہے۔

سوراشٹرہ میں سمندری حیات کے تحفظ سے وابستہ افراد کے مطابق وھیل کی قے کو ساحل پر پہنچنے میں مہینوں یا برسوں کا عرصہ لگتا ہے۔

عنبر کی کھیپ

وہ کہتے ہیں: ‘اس دوران عنبر سینکڑوں اور ہزاروں کلومیٹر کا سفر طے کرتا ہے۔ یہاں تک کہ سمندر میں ایک طوفان بھی اسے ساحل کی طرف لے جاتا ہے۔ عنبر جتنا پرانا اور جتنا بڑا ہو گا اس کی قیمت بھی اتنی ہی زیادہ ہو گی۔ کتے عنبر کی خوشبو کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ لہذا گجرات کے ساحلی علاقوں میں اس کاروبار میں شامل افراد اس کام کے لیے خصوصی طور پر تربیت یافتہ کتے رکھتے ہیں۔’

یہاں سے ملنے والے عنبر کو احمد آباد یا ممبئی بھیج دیا جاتا ہے۔ پھر یہ بہت سے لوگوں کے ذریعہ خلیجی ممالک اور وہاں سے بین الاقوامی منڈیوں تک پہنچتا ہے۔ بعض اوقات سمندر میں ماہی گیروں کو بھی عنبر مل جاتے ہیں۔

سمندری مخلوقات کے تحفظ میں شامل افراد کا کہنا ہے کہ ’چونکہ عنبر کا استعمال خوشبو کے ساتھ جنسی طاقت میں اضافے کے لیے ہوتا ہے، لہذا خلیجی ممالک کے امیر لوگوں میں اس کی بہت زیادہ مانگ ہے۔ فرانس میں بھی اس کی بہت زیادہ مانگ ہے۔ چونکہ اس کے مصنوعی متبادلات اب عنبر اور امبرین کی شکل میں بھی دستیاب ہیں، عطریات کے لیے عنبر کا استعمال کم ہونا شروع ہو گیا ہے۔‘

چونکہ لوگ نہیں جانتے ہیں کہ عنبر کیسا ہوتا ہے، لہذا اس کے نام پر ایک دھوکہ دہی بھی جاری ہے۔ کچھ لوگ اس کے نام پر پیرافن موم یا کوئی روغن دار چیز فروخت کرتے ہیں۔ اور اس کے بارے میں شکایت نہیں کی جاتی ہے کیونکہ یہ کاروبار غیر قانونی ہے۔‘

سمندری حیات کے تحفظ سے وابستہ کارکنوں کا کہنا ہے کہ ‘پہلے اس کی کھیپ چینئی اور ممبئی میں پکڑی گئی۔ اس کے بعد پتا چلا کہ گجرات کے کچھ لوگ اس کے غیر قانونی کاروبار میں ملوث ہیں۔ کچھ نامعلوم وجوہات کی بنا پر پولیس اور محکمہ جنگلات اس نیٹ ورک کو بے نقاب کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اس بار وہ اس میں کامیاب ہوں گے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp