شادی، ملال اور ملالہ

آمنہ مفتی - مصنفہ و کالم نگار


انٹرویو لینے کی ایک تکنیک یہ بھی ہوتی ہے کہ اس میں کوئی ایسا سوال پوچھ لیا جاتا ہے جس پہ ایک بحث اُٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ جس قدر بحث میں تندی آتی ہے اتنا ہی وہ شخص اور ادارہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوتا ہے۔ یہ مقصد سوا اس کے کیا ہو سکتا ہے کہ مذکورہ شخص اور ادارے کی خوب تشہیر ہو۔

اس انٹرویو سے بھی یہی ہوا۔ ملالہ کے بیان سے پاکستانی سوشل میڈیا پر شادی اور پارٹنرشپ سے متعلق نئی بحث اُٹھ کھڑی ہوئی۔

کچھ روز قبل ووگ میگزین کو دیے گئے انٹرویو میں نوبیل انعام یافتہ پاکستانی ملالہ یوسفزئی نے کہا تھا کہ ‘مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ لوگ شادی کیوں کرتے ہیں۔ اگر آپ کو اپنی زندگی کا ساتھی چاہیے تو آپ شادی کے کاغذات پر دستخط کیوں کرتے ہیں، یہ ایک پارٹنرشپ کیوں نہیں ہو سکتی؟’

جن افراد کو کارٹون وغیرہ دیکھنے کا شوق ہے انھیں ایک منظر یاد ہو گا۔ ٹام اینڈ جیری کارٹون میں، سپائیک نامی خوفناک بُلڈاگ، جب ٹام کی پھینکی لکڑی کو پکڑنے دوڑتا ہے تو لکڑی اٹھاتے ہی اسے احساس ہو جاتا ہے کہ وہ اس وقت بُلڈاگ نہیں جیک ایس یعنی گدھا لگ رہا ہے۔

کسی محفل میں سلیمانی ٹوپی اوڑھ کے بیٹھ جائیں اور مردانہ زنانہ گفتگو الگ الگ سنیں تو معلوم ہو گا کہ شادی سے جڑے رومانوی تصورات پہ یقین صرف وہی کرتے ہیں جن کی شادی نہیں ہوئی ہوتی۔ شادی شدہ زندگی پہ رونا، ملال کرنا اور بیویوں پہ لطیفے بنانا ہمارا دوسرا قومی مشغلہ ہے۔

پہلا مشغلہ ہر عورت کو ’دو نمبر‘ عورت کہنا ہے۔

ان دو مشاغل سے فراغت کے بعد ہمیں ہر کامیاب آدمی کے پیچھے اس لابی کی تلاش ہوتی ہے جس نے ہم جیسے زمانے بھر کے کاہل، بد زبان، بد گمان، کو چھوڑ کے کسی اور کو کامیاب کرا دیا۔

لابی کی اس تلاش کے دوران ہم پہ یہ بھی کھلتا ہے کہ اس لابی سے تعلق رکھنے والے لوگ اگر تو کسی عورت کی کامیابی کا باعث بنے ہیں تو یقیناً عیاش ہوں گے اور اگر کامیاب ہونے والا کوئی آدمی ہے تو لابی میں یقیناً کچھ شوقین مزاج بھی شامل ہوں گے۔

جھنجھلاتے ہم تب ہیں جب کامیاب فرد ایک کم عمر سادہ شکل و صورت کا انسان ہو، جو ہمارے مروجہ فارمولوں پہ پورا نہ اتر پائے۔ جھلاہٹ کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ اب نئے سرے سے سوچنا پڑے گا کہ مذکورہ شخص کی کامیابی کی وجہ کیا ہے؟

اکثر ایسے مواقع پہ سازشی نظریات پیدا کرنے کے ماہر، حضرات و خواتین شمع محفل زبردستی اٹھا کر اپنے سامنے رکھ لیتے ہیں اور اپنے لاجواب سازشی نظریات کی مدد سے محفل لوٹ لیتے ہیں۔

یہ نظریات زبان زد عام ہوتے ہیں اور طوائف کے کوٹھے سے بادشاہ کے محل اور وہاں سے گلی کوچوں میں پھیل جاتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان سازشی نظریات اور تمام تر واویلے سے ہوتا یہ ہے کہ مذکورہ شخص مزید مشہور ہوتا چلا جاتا ہے اور یہ کرنے والے وہی ہوتے ہیں جو دل و جان سے چاہتے ہیں کہ فرد ہذا فوراً سے پیشتر گمنامی کی قبر میں اتر جائے۔

ان الگ الگ مناظر کو اکٹھا رکھ کے دیکھنے کے بعد، آپ اور ہم صرف اتنا کر سکتے ہیں کہ ٹام کی پھینکی لکڑی پہ لپکنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لیں کہ کہیں ہم جو پہلے ہی اس کارٹون میں ایک چار ٹانگوں والے جانور کا کردار ادا کر رہے ہیں، اب گدھا بننے تو نہیں جا رہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).