سندھ کی سیاسی جماعتوں، متاثرین کا بحریہ ٹاؤن کراچی کے باہر دھرنا، ’غیرقانونی قبضے‘ چھڑوانے کا مطالبہ

ریاض سہیل - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی


پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں تعمیراتی کمپنی بحریہ ٹاؤن کی جانب سے مبینہ طور پر مقامی گوٹھوں کو مسمار کرنے کے خلاف سندھ کی قوم پرست جماعتوں، مزدور و کسان تنظیموں اور متاثرین کی جانب سے ہاؤسنگ سوسائٹی کے خلاف ’غیرقانونی قبضے چھڑوانے کے لیے‘ احتجاج کیا جا رہا ہے۔

سندھ ایکشن کمیٹی نے سپر ہائی وے پر واقع بحریہ ٹاؤن کے مرکزی دروازے کے سامنے اتوار کو آٹھ گھنٹے کے لیے دھرنے کا اعلان کیا ہے جس میں دیگر سیاسی جماعتوں اور علاقائی تنظیموں نے شرکت کی حامی بھری۔

احتجاجی مظاہرے کو کنٹرول کرنے کے لیے پولیس نے جگہ جگہ چوکیاں لگائی ہوئی ہیں جبکہ تنظیموں کا الزام ہے کہ بعض مقامات پر قافلوں کو روکا بھی گیا ہے، جس کی صوبائی حکومت نے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے سکیورٹی کے انتظامات کیے ہیں۔

خیال رہے کہ گذشتہ ماہ بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں جس کے بعد کراچی پولیس نے بحریہ ٹاؤن کے سکیورٹی انچارج سمیت دیگر اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا جبکہ ایک ایس ایچ او کو معطل کیا گیا تھا۔

اس حوالے سے بحریہ ٹاؤن نے موقف دیا تھا کہ ’مقامی بااثر سیاسی افراد اور لینڈ مافیہ مل کر‘ انھیں ’سیاسی و مالی مفادات کی خاطر‘ بلیک میل کر رہے ہیں۔

دھرنے میں کون شامل اور اس کا مقصد کیا ہے؟

اس دھرنے میں جی ایم سید کے پوتے کی سندھ یونائیٹڈ پارٹی، قادر مگسی کی سندھ ترقی پسند پارٹی، ایاز لطیف پلیجو کی قومی عوامی تحریک، خالق جونیجو کی جئے سندھ محاذ سمیت عوامی ورکرز پارٹی، عوامی جمہوری پارٹی، سندھ مزاحمت تحریک، ہاری کمیٹی، انڈجنس رائٹس اور دیگر جماعتیں شامل ہیں۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کراچی میں بحریہ ٹاؤن کے قیام سے لے کر یہ سب سے بڑا احتجاج ہے، جس میں سندھ بھر سے سیاسی کارکنان کے علاوہ ادیب، شاعر و دانشوروں کی تنظیم سندھی ادبی سنگت شریک ہے۔

سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے سربراہ سید جلال محمود شاہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کراچی سمیت سندھ کے تمام اضلاع سے جلوس اس احتجاج میں شرکت کر رہے ہیں۔ ’نواب شاہ، میرپور خاص، بدین اور جام شورو میں پولیس نے ان کے قافلے روکے ہیں۔ کہیں کہیں پر گاڑیوں کی ہوا نکالی گئی لیکن لوگوں کا جم گفیر دیکھ کر انھیں مجبور ہو کر رکاوٹیں ہٹانا پڑیں۔‘

جلال شاہ کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ’بحریہ ٹاؤن انتظامیہ مقامی گوٹھوں اور آس پاس کی زمینوں پر قبضہ گیری بند کرے اور سپریم کورٹ نے اس کو جتنی زمین دی ہے اس پر اپنا منصوبہ محدود کرے۔ باقی اس کی تمام کارروائی غیر قانونی وغیر آئینی ہے جس میں پیپلز پارٹی کی حکومت ان کی مدد گار ہے۔‘

انھوں نے الزام لگایا کہ ’آصف زرداری دیکھ لیں ایک طرف سندھ کا قومی و سیاسی کارکن، ادیب و دانشور ہے دوسری جانب ملک ریاض ہیں۔ انھیں سوچنا چاہیے کہ وہ کس کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔‘

یہ بھی پڑھیے

بحریہ ٹاؤن سے ملنے والی رقم کہاں جائے گی

سستی ہاؤسنگ کے نام پر زمین کروڑوں کی کیسے بنی؟

ملتان میں آم کے درختوں کی کٹائی کی کہانی

سکیورٹی کے انتظامات کیے گئے ہیں

دوسری جانب ڈی آئی جی ایسٹ کی جانب سے ایک حکم نامہ جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انڈجنس رائٹس سمیت دیگر جماعتوں نے بحریہ کی جانب سے سندھی آبادیوں کو غیر قانونی طور پر مسمار کرنے کے داخلی راستے پر احتجاج کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس صورتحال اور گذشتہ دنوں بحریہ آئیکون میں دستی بم حملے کے پیش نظر پولیس الرٹ رہے۔‘

پولیس کے افسران کو اینٹی رائس فورس، گیس شیل اور واٹر کینن کے ساتھ مقامات پر موجود رہنے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔

ادھر سندھ کے صوبائی وزیر سید ناصر شاہ کا کہنا ہے کہ ’اگر حکومت رکاوٹیں پیدا کرتی تو یہ قوم پرست دوست یہاں تک کیسے پہنچتے۔

قوم پرست، جے یو آئی اور سول سوسائٹی کے لوگ پُرامن لوگ ہیں لیکن ایسا نہ ہو کہ کوئی شرپسند اس صورتحال کا فائدہ لے۔ اسی سکیورٹی کے انتظامات کیے گئے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جو مین سپر ہائی وے ہے وہ بلاک نہ ہو کیونکہ کووڈ کی وبا پھیلی ہوئی ہے، کسی کو میڈیکل ایمرجنسی نہ ہو اور لوگوں کو مشکلات نہ ہوں۔ صرف حکومت کی یہی کوشش ہے۔‘

یاد رہے کہ مئی 2021 میں بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ نے ہیوی مشینری کے ہمراہ گبول گوٹھ سمیت دیگر آبادیوں کو مسمار کرنے کی کوشش کی تھی جس کی مقامی لوگوں نے مزاحمت کی اور اس دوران فائرنگ کی ویڈیوز سوشل میڈیل پر وائرل ہوئیں

سندھ میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو سے ایک پریس کانفرنس میں اس صورتحال پر سوال کیا گیا جس پر ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے وزیراعلیٰ کو تحقیقات کے لیے کہا ہے۔

حکومت سندھ کے احکامات پر تحصیل دار عبدالحق چاوڑ، پٹواری انور حسین، پٹواری حبیب اللہ ہوت اور ایس ایچ او گڈاپ شعور احمد بنگش کو معطل کیا گیا تھا۔

اس سارے معاملے پر بحریہ ٹاؤن کی جانب سے گذشتہ ماہ کہا گیا تھا کہ انھوں نے کوئی بھی غیر قانونی اقدام نہیں اٹھایا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ’کچھ بلیک میلرز یہ معاملات پیدا کر رہے ہیں‘ جبکہ ’بحریہ ٹاؤن نے اپنے قریب کے گوٹھوں میں لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کیے ہیں۔‘

بحریہ ٹاؤن کے بیان مطابق انھوں نے ’سوشل میڈیا پر گمراہ ویڈیوز اور بے بنیاد الزامات کی مکمل تردید‘ کی تھی۔

صوبائی وزیر سید ناصر شاہ کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت کے ادارے اپنی تحقیقات کر رہے ہیں اور پیپلز پارٹی کے مقامی منتخب اراکین بھی لوگوں سے رابطے میں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ ’کیوں چاہیں گے کہ لوگ بے گھر ہوں۔‘

بحریہ ٹاؤن کراچی کے خلاف عدالتوں میں ماضی کے مقدمات

سنہ 2019 میں سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کی طرف سے زمین کی خریداری میں مبینہ بدعنوانی کا معاملہ سامنے آنے پر اس کی انتظامیہ کو 460 ارب روپے قسط وار سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔

اہم بعد میں بحریہ ٹاؤن نے عدالت سے درخواست کی کہ کورونا وائرس کی وبا کے باعث انھیں ادائیگی میں مہلت دی جائے لیکن عدالت نے ان کی درخواست مسترد کردی اور کہا کہ حکومت کا ماننا ہے کہ معشیت میں بہتری آ رہی ہے اور بحریہ ہاؤسنگ میں پلاٹوں اور مکانات کی پہلے سے بکنگ ہوچکی ہے۔

اسی طرح سندھ ہائی کورٹ میں بحریہ ٹاؤن کے خلاف ایک مدعی فیض محد گبول کے حق میں فیصلہ دیا گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp