مرد طوائف اور ملالہ والی پارٹنرشپ


مردانہ جسم فروشی شاید ہمارے کچھ لوگوں کے لئے نیا تصور ہو لیکن یہ عفریت 2000 ء کے بعد ہمارے نام نہاد اسلامی معاشرے میں سرایت کر چکا ہے اور فروغ پذیر ہے۔ لاہور، کراچی، اسلام آباد وغیرہ کے بعد اب یہ دیگر بڑے شہروں میں بھی موجود ہے تاہم پوشیدہ اور انڈر گراؤنڈ ہے۔

اس مسئلے سے متعلق اعداد و شمار سے قطع نظر میں اس کے معاشرتی پہلوؤں پر بات کروں گی۔ مجھے اس موضوع پر لکھنے کا خیال اس لئے آیا کہ چند دن پہلے ایک شناسا نے اپنے دوست کے بارے میں بتایا کہ لاہور میں ایلیٹ کلاس کی ایک خاتون نے اسے ’ہائر‘ کر رکھا ہے۔ اس ہائر کردہ دوست کا نام ’الف‘ اور خاتون کا نام ہم ’ب‘ فرض کر لیتے ہیں۔ ب راولپنڈی کی رہائشی ہیں اور لاہور میں ایک پوش علاقے میں کرائے کے /ذاتی فلیٹ میں مقیم ہیں جہاں بیرونی مداخلت کا کوئی امکان نہیں۔ ایسے علاقوں میں لوگوں کو عموماً نہ تو ہمسایوں کے بارے میں کچھ معلوم ہوتا ہے، نہ ہی اس کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے بلکہ اسے پرائیویسی کی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے۔ ب صاحبہ کی کہیں شاپنگ کرتے ہوئے اتفاقاً الف سے ملاقات ہوئی۔ الف چونکہ خوش شکل تھا سو وہ ب کو پسند آ گیا۔ ب صاحبہ مالی طور پر خودمختار، اور گاڑی کے علاوہ ہر طرح کی سہولت و آسائش سے بہرہ ور ہیں۔ ب نے الف کو ملنے کے لئے گھر پر بلایا۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں کے مصداق جب ایک امیر، خود مختار، اور حسین خاتون یا لڑکی خود کسی لڑکے کو اپنے گھر پر ملاقات کی دعوت دے تو بھلا انکار کا سوال پیدا ہوتا ہے؟ ہرگز نہیں۔
جب الف پہنچا تو دیکھا کہ ب خاصے بے باک لباس میں تھیں۔ چونکہ گھر ان کا ذاتی یا کرائے پر تھا تو ہر طرح کی آزادی میسر تھی۔ بات بے تکلفانہ ماحول میں سگریٹ نوشی سے شروع ہوئی۔ اور تین چار ہی ملاقاتوں میں جنسی و جسمانی قربتوں تک جا پہنچی۔ ب نے الف کے لئے باقاعدہ تنخواہ یا جیب خرچ مقرر کر دیا، گاڑی استعمال کرنے کی اجازت دے دی اور باقی خواہشات اور فرمائشیں پوری کرنے کی بھی ذمہ داری لے لی۔ اس کے عوض الف کو پابند کیا گیا کہ جب ب صاحبہ بلائیں تو ہر صورت ملاقات کے لئے آنا ہو گا۔ یعنی انکار کی کوئی گنجائش نہیں۔ یوں پیسے، گاڑی، اور ہر طرح کی آسائش نے ایک دکان پر سیلز مین کی معمولی ملازمت کرنے اور چند ہزار تنخواہ پانے والے الف کی شکل و صورت ہی بدل دی۔
الف نے گھر والوں سے جھوٹ بول کر اور دوسری نوکری یا اوور ٹائم کا بہانہ کر کے رات کو تادیر گھر سے باہر رہنا شروع کر دیا۔ ب کے گھر ہر طرح کی پرائیویسی و رازداری، اے سی کی خنکی اور ہیٹر کی حرارت، کھانے پینے حتیٰ کہ ناؤ نوش کے تمام لوازمات، اس پر ایک قاتل حسینہ کی ہوش ربا اور توبہ شکن جنسی و جسمانی قربت جس کی جوانی کے کئی برس ابھی باقی ہیں، ایسے میں کوئی عام آدمی یا کافر تو کیا کوئی پارسا و متقی بھی دام ہوس میں گرفتار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہ معاملات کچھ عرصے تک درست طور پر جاری رہے۔ لیکن جسم فروشی کی مصیبت یہ ہے کہ مرد ہو یا عورت، اسے بعض یا اکثر اوقات اپنے گاہک کی کراہت انگیز فرمائشیں بھی پوری کرنا پڑتی ہیں۔ ایک رات الف کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہوا جب ب نے اس سے وہ فرمائش کی۔ الف پریشان ہوا، پہلے تو کچھ ٹال مٹول کیا مگر آخرکار بات ماننا پڑی۔ انکار کی صورت میں وہ ان تمام آسائشوں اور پیسے سے محروم نہیں ہونا چاہتا تھا جو اس کی عادت یا علت بن چکے تھے۔ اس مسئلے کا ذکر اس نے میرے ان شناسا سے کیا جن کے توسط سے یہ کہانی مجھ تک پہنچی ہے۔ تادم تحریر الف، ب کی ملازمت میں ہی ہے اور پیسے کی خاطر مرضی کے خلاف بھی جنسی عمل کرتا ہے۔

میرا موضوع مردانہ جسم فروشی کا معاشرتی پہلو ہے یعنی معاشرہ اس عفریت سے کیسے متاثر ہوتا ہے۔ مردانہ اور زنانہ جسم فروشی میں فرق یہ ہے کہ عورت طوائفیں عموماً کسی دلال، کوٹھی/کوٹھے، بازار حسن، آنٹی/میڈم وغیرہ کی سرپرستی میں کام کرتی ہیں۔ یہ سرپرستی انہیں قانونی اور ذاتی تحفظ فراہم کرتی ہے۔ کسی طوائف کے ساتھ وقت گزاری اور اسے اپنی ملازمت میں لینے کے لئے اس کے سرپرست سے معاوضہ او ر معاملات طے کیے جاتے ہیں۔ ایسا بہت کم کیسز میں ہوتا ہے کہ کوئی عورت یا لڑکی خودمختار طریقے سے جسم فروشی کا پیشہ شروع کر دے۔ اگرچہ اب یہ بھی ہونے لگا ہے لیکن بہت کم کیونکہ سرپرستی اور پولیس کے تعاون کے بغیر کسی عورت کا یہ کام ازخود کرنا نہایت مشکل ہے۔ اس میں اسے کئی طرح کی پیچیدگیوں اور خطرات مثلاً اغواء، بلیک میلنگ، زبردستی اور جنسی زیادتی، اور معاوضے کی عدم ادائیگی وغیرہ کا سامنا ہو سکتا ہے۔ دلال، کوٹھی/کوٹھے، بازار حسن، آنٹی/میڈم وغیرہ کی سرپرستی خواتین طوائفوں کو ایسے مسائل سے بچاتی ہے۔ یہ خواتین مخصوص علاقوں میں رہتی ہیں۔ بعض کیسز میں یہ بھی ممکن ہے کہ عورت اپنے خاندان یا شوہر کے ساتھ رہتے ہوئے ان کے دباؤ پر یہ کام زبردستی کر رہی ہو۔

اس کے علاوہ چند سالوں سے بڑے شہروں میں ایک اور معاشرتی مسئلے نے بھی شدت سے سر اٹھایا ہے۔ جاب کرنے اور اچھی تنخواہ حاصل کرنے وا لی لڑکیوں کے والدین ان کی شادی نہیں کرتے۔ وہ شادی کی یا فطری جنسی خواہشات سے مجبور ہو کر کسی کو بوائے فرینڈ یا پارٹنر بنا کر رکھنے کی طرف مائل ہو جاتی ہیں۔ اس میں متوسط یا بالائی متوسط طبقے کی خواتین بھی ہو سکتی ہیں۔

لیکن میری بیان کردہ کہانی کے دونوں کرداروں الف اور ب نے باہم معاملات طے کیے اور کسی سرپرستی کے بغیر اپنے اپنے کام میں مشغول ہو گئے۔ جسم فروشی کے ایسے کیسز بھی کم ہوتے ہیں جہاں مرد و عورت خود شرائط طے کر کے تعلق قائم کر لیں۔ زیادہ تر مرد طوائف بھی کسی نیٹ ورک یا سرپرست کے ماتحت کام کرتے ہیں۔ کئی سالوں سے بدقسمتی سے ہمارے ہاں مردانہ قحبہ خانے کام کرنے لگے ہیں۔ فیس بک، ٹک ٹاک، اور انسٹاگرام جیسی سوشل سائٹس بھی ان لوگوں کو گاہک فراہم کرنے کا ذریعہ ہیں جہاں یہ اپنی تصاویر اور وڈیوز کے ذریعے مطلوبہ لوگوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ آن لائن معاملات میں تو کسی حد تک رازداری ہوتی ہے مثلاً گھر والوں کو نہیں معلوم کہ ان کا بیٹا یا بھائی انٹرنیٹ پر کسی سوشل سائٹ یا نیٹ ورک کے ذریعے جسم فروشی کر رہا ہے۔ البتہ لاہور، کراچی، اسلام آباد کے جن مقامات پر یہ معاملات طے کیے اور لڑکے یا مرد فراہم کیے جاتے ہیں، وہاں رازداری رکھنا بہت مشکل ہے۔
لاہور میں جوہر ٹاؤن، ڈیفنس، کینٹ، لبرٹی مارکیٹ چوک، فردوس مارکیٹ، اور حسین چوک کے علاقے اس کام کے لئے مشہور ہیں۔ وہاں لڑکوں کو لینے کے لئے خواتین اور ہم جنس پرست مرد بھی آتے ہیں۔ کئی ہیجڑے بھی جسم فروشی میں ملوث ہوتے ہیں لیکن وہ زیادہ تر مجبوری کے عالم میں یہ کام کرتے ہیں کیونکہ نہ ان کے پاس تعلیم ہوتی ہے اور نہ کوئی ذریعہ روزگار۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سیلز مین کی جاب سے حلال روزی کمانے والا ایک شخص جب صرف پیسے اور عورت کے ساتھ عیاشی کی خاطر یہ کام کرنے لگے تو معاشرے کو کیا کیا نقصان نہ پہنچے گا؟

جواب میں یقیناً لوگ یہ کہیں گے کہ عورت کی جسم فروشی معاشرے کو کون سا فائدہ پہنچا رہی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ زنانہ جسم فروشی باقاعدہ قحبہ خانوں اور مخصوص نیٹ ورک کے ذریعے ہوتی ہے جس میں معزز اور شریف پردہ نشینوں کے نام بھی شامل ہیں۔ یہاں سے طوائف کے لئے کوئی جائے فرار نہیں سوائے موت کے، کیونکہ معاشرہ طوائف کے ساتھ منہ کالا کرنے والے مردوں کو تو قبول کر لیتا ہے لیکن طوائف کو نہیں۔ دوسرے، کسی بھی طبقے کی کوئی عزت دار عورت یہ کام کرنے سے مر جانے کو بہتر سمجھے گی۔ زیادہ تر کم عمر بچیوں اور لڑکیوں کو اغوا اور فروخت کر کے اس پیشے میں زبردستی دھکیل دیا جاتا ہے۔ جبکہ میری بیان کردہ کہانی کا مرکزی کردار الف یہ کام مرضی سے اور خودمختار طور پر کر رہا ہے۔ اسے اغواء، بلیک میلنگ، جنسی زیادتی، اور زبردستی جیسے کسی مسئلے کا سامنا نہیں۔ اس کے برعکس پیسہ اور عیاشی الگ میسر ہے۔ گھر والوں کو بھی اس کی حقیقت کا علم نہیں۔ ہمارے معاشرے کا کوئی معزز اس مرد طوائف کو اپنی بیٹی یا بہن کا رشتہ دینے پر بھی تیار ہو جائے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا خاندان اور بیوی حقیقت حال جان لینے کے باوجود اس کے جسم کی کمائی کھانے پر رضامند ہو جائیں کیونکہ ہمارے ہاں خاندان کی عزت اور نیک نامی صرف عورت کی ذات سے وابستہ ہے اور عورت کی غیرت تو ہوتی ہی نہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارے ہاں عورت خود جسم ٖفروشی (مجبوری کی حالت میں ہی) کرے یا مرد کو کرائے پر رکھے، ہر صورت عورت کو ہی قصوروار اور ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔ تو پھر مرد کی کیا ذمہ داری ہے اور کن معاملات میں؟

کیا مجھے بھی الف کو رنڈا، فاحشہ، اور جسم فروش کہہ کر گالی نہیں دینی چاہیے اور اسے ٹھکرانا نہیں چاہیے؟ جس معاشرے میں عورت طوائف کے لئے کوئی جگہ اور کوئی عزت نہیں، وہاں مرد طوائف کے لئے کسی جگہ اور عزت کا کیا سوال؟ یا اسے بھی مرد ہونے کی بنا پر معاف کر کے قبول کر لینا چاہیے؟ اگر اسے قبول کر لیا جائے تو معاشرے پر کیا کیا نقصان دہ اثرات مرتب نہ ہوں گے اور پہلے ہی ہو نہیں رہے؟ جنسی فعل کی کثرت مرد کی جنسی و تولیدی صحت کے لئے کافی نقصان دہ ہے۔ ہماری خواتین بھی اس طرح جنسی بے راہ روی کی طرف مائل ہو رہی ہیں۔ پہلے تو یہ عیاشی صرف مرد کا استحقاق تھی، اب مرد جسم فروشوں کی دستیابی نے اسے عورت کے لئے بھی قابل حصول بنا دیا ہے۔ یہاں ملالہ یوسف زئی کا حالیہ سوال بالکل برمحل ہے کہ مرد اور عورت کو شادی کی کیوں ضرورت ہے، وہ پارٹنر بن کر کیوں نہیں رہ سکتے۔ ملالہ کے اس سوال پر انتہائی ہنگامہ ہر طرح کے میڈیا پر جاری ہے۔ جبکہ پوشیدہ طور پر یہ سب ہمارے معاشرے میں ہو رہا ہے۔
اگر مرد و عورت کا پارٹنر بن کر اور شادی کے بغیر باہمی رضامندی سے رہنا غیر شرعی اور غیر قانونی ہے تو پھر انڈر گراؤنڈ ہونے والی یہ قباحتیں کیوں موجود ہیں؟ جو چیز حقیقت میں ہمارے معاشرے کا حصہ ہے، اس کے بارے میں ملالہ کے سوال پر اتنی زیادہ ہنگامہ آرائی کیوں ہے؟ (یہاں میں یہ ضرور واضح کر دوں کہ میں جائز اور قانونی تعلق کے حق میں ہوں۔) یہ سوال تو کسی بھی شخص کے ذہن میں آ سکتا ہے۔ یہی اگر کسی مرد نے پوچھا ہوتا تو ہمارا کیا رد عمل ہوتا؟ تو کیا اس مخالفت اور لعن طعن کا یہ مطلب نہیں کہ پوشیدہ طور پر اور خاموشی سب کچھ کرتے رہیں؟ جیسا کہ عفت نوید صاحبہ نے اپنی تحریر میں لکھا: اچھے گھروں کی بہو بیٹیاں زبان نہیں کھولتیں، بس کر گزرتی ہیں۔ کیا مجھے یہ نہیں کہنا چاہیے کہ کہانی کے کردار ’ب‘ نے خاموشی اور رازداری سے پارٹنرشپ قائم کر کے درست کیا جبکہ ملالہ نے اس کے بارے میں سوال پوچھ کر غلطی کی؟

یہ سوالات میں آپ کے سامنے رکھتی ہوں۔ بطور فرد ہمیں اس بات کا فیصلہ کر نا ہے کہ جب ایک برائی ہمارے ہاں حقیقت میں موجود ہے تو اس پر بات کرنا یا سوال پوچھنا کیوں برا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments