ملالہ کے بیان پر اپنے ہم خیال دوستوں سے اختلاف


عوام کی حاکمیت پارلیمان کی بالادستی سول سپر میسی عدالتی نظام کی بہتری انصاف کی یکساں فراہمی اور اظہار رائے کی آزادی کے لئے ایک طویل عرصے سے بحیثیت ایک لکھاری یا صحافی جو کچھ لکھا، اس پر ہمیشہ سینہ تان کر فخر بھی کیا اور اپنے نظریات اور کمٹمنٹ سے لمحہ بھر کو پیچھے بھی نہیں ہٹا۔ یہی وہ حقیر سی جدوجہد تھی جس نے ہمیشہ عزت اور شہرت سے نوازا۔

اسی جدوجہد کے قافلے میں بہت سے نام ایسے ہیں جن کی جدوجہد عزت اور نام کے سامنے ہم جیسے لوگ حیرت فروشی ہی کرتے رہتے ہیں لیکن چونکہ ہم سب ایک ہی منزل کے مسافر اور ایک ہی قافلے کے رفیق ہیں اس لئے محبتوں اور ہمدردیوں کے سلسلے بھی یکجا ہیں لیکن ضروری یہ بھی نہیں کہ ہر حوالے سے ہمارا فکری سمت ایک ہی رخ میں ہو اور ہم اختلاف کی جرآت سے بھی محروم ہو جائیں۔

میں پہلے بھی کئی بار ڈنکے کی چوٹ پر اپنے اختلافی نوٹ کو واضح کر چکا ہوں خصوصا جب گلالئ اسماعیل نے خیبر پختونخواہ کے ضلع صوابی میں پردے کےلئے خواتین کی اوڑھنے والی روایتی چادر (جسے مقامی زبان میں چیل کہتے ہیں) کا مذاق اڑایا۔ یاد رہے کہ میرا اور گلالئ اسماعیل دونوں کا تعلق بھی صوابی سے ہے بلکہ اس کے والد پروفیسر اسماعیل اچھے دوست بھی ہیں ۔ چیل کا مذاق اڑانے کے بعد گلالئ اسماعیل نے مذھبی اور روایتی اقدار کو بھی اپنی تنقید کا نشانہ بنایا تو میرے تمام ہم قافلہ رفقا اور میں ایک دوسرے کے مقابل کھڑے تھے۔

اور اب تازہ معرکہ ملالہ یوسف زئی کے اس بیان کے حوالے سے درپیش ہے جو ملالہ نے ایک میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے دیا کہ “نکاح کی بجائے کسی مرد اور خاتون کے لئے پارٹنرشپ میں رہنا زیادہ اچھا ہے”۔

(ملالہ نے انگریزی لفظ marriage استعمال کیا۔ اس کا ترجمہ شادی ہونا چاہیے۔ نکاح کا لفظ تو ایک مخصوص مذہبی اصطلاح ہے۔ دوسرے یہ کہ ملالہ نے حتمی رائے نہیں دی بلکہ why not کے پیرائے میں سوال اٹھایا۔ یہ وضاحت اس لئے ضروری ہے کہ محترم حماد حسن ایک نازک موضوع پر رائے دے رہے ہیں چنانچہ ہمیں حوالہ دیتے ہوئے زیادہ محتاط رہنا چاہیے۔ مدیر)

چونکہ یہ بات ملالہ یوسف زئی نے کی اس لئے لازم ٹھہرا کہ جو کوئی بھی شخص اسٹبلشمنٹ کے جبر، آمریت پسندی اور غیر آئینی اقدامات کے خلاف اور جمہوریت سول بالادستی اور اظہار رائے کی آزادی کےلئے کسی جدوجہد کا حصہ ہے تو فوری طور پر ملالہ کے بیان کی تائید کرے اور اپنی جدوجہد پر مہر تصدیق ثبت کرے۔ اسی لئے بہت سے ایسے دوست بھی ملالہ یوسفزئی کی وکالت کرنے لگے جو ذہنی اور فکری طور پر ملالہ کے بیان کی تائید نہیں کرتے لیکن “مجبوری” ہے.

سوال یہ ہے کہ اس بیان کا ہماری سیاسی اور جمہوری جدوجہد سے کونسا تعلق ہے اور یہ کونسی کمک فراہم کر رہا ہے جس کی حمایت لازم ہے البتہ یہ ملالہ یوسفزئی کا ذاتی خیال ہے جسے بیان کرنے کا اسے یقینا حق بھی حاصل ہے لیکن اسے جمہوری جدوجہد سے وابستہ قافلے کا مشترکہ بیانیہ نہیں بنایا جا سکتا اور نہ ہی اس کی حمایت کی جائے گی کیونکہ ہر معاشرے کی اپنی اپنی مذہبی، سماجی اور فکری اقدار ہوتی ہیں جنہیں وہ معاشرہ اپنے ارتقائی عمل میں بھی ساتھ لے کر چلتا ہے۔

اسی لئے تو جمہوریت کی بنیادی نرسری برطانیہ نے جمہوریت سے ہم آہنگ ہونے کے باوجود بادشاہت یا چرچ کو مکمل طور پر اکھاڑنے کی بجائے اسے آئینی تحفظ اور بقا فراہم کیا کیونکہ وہ معاشرے اپنی اقدار کے حوالے سے حد درجہ حساس اور ذمہ دار ہیں۔ یہ صورتحال سویڈن اور ڈنمارک جیسے فلاحی اور انتہائی ترقی یافتہ ممالک میں بھی ہے۔ گویا جمہوریت اور ترقی ایک الگ چیز ہے جبکہ اپنی اقدار سے جڑے رہنا ایک الگ معاملہ !

بات یہ ہے کہ کیا ملالہ یوسفزئی جہاں مقیم ہے اس معاشرے کی بنیادی اقدار پر بھی اس طرح کا تنقید کر سکتی ہیں جس طرح کا تنقید یا یکسر مختلف نقطہ نظر ہمارے اقدار کے بارے میں پیش کر رہی ہیں؟ ذرا برطانوی بادشاہت کو بھی جمہوریت کے راستے کی دیوار کہہ کر تو دکھائے۔

لیکن اہم سوال یہ ہے کہ ملالہ یوسفزئی کے بیان کی تائید آخر کیوں کی جائے؟

کیا یہ بیان ہمارے معاشرے کے مطالبے پر دیا گیا ؟

کیا ملالہ کے نظریات کو یہ معاشرہ قبول کرنے پر آمادہ ہے؟

کیا ملالہ کو یہ استحقاق حاصل ہے کہ اس کی رائے سے اختلاف نہ کیا جائے؟

اگر ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے تو پھر ملالہ یوسفزئی بے شک برطانیہ جیسے کھلے ڈھلے معاشرے میں کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کرتی رہیں تاہم اس سے اتفاق اور اختلاف کرنے والے لوگ اپنی اپنی رائے بھی دیتے رہیں گے۔اور یہ حق بھی سب کو حاصل ہے۔

جاتے جاتے تلخی سے بچتے ہوئے کوئی سوال بھی اٹھاتے جائیں تو کیا برائی ہے

اس ملک (پاکستان ) میں ایک طویل عرصے سے سیاسی کارکن صحافی دانشور اور سیاسی لیڈرز جمہوریت اور آئین کی بالادستی کےلئے انتہائی مشکل جدوجہد کر رہے ہیں ۔ خورشید شاہ سے خواجہ آصف تک کئی سیاسی رہنما آج بھی زندانوں میں پڑے ہیں۔ کتنے صحافیوں کو بے روزگار کیا گیا۔ کتنے صحافیوں کو اٹھایا گیا۔ کتنوں پر حملے ہوئے اور کس کس کو خطرناک دھمکیوں کا سامنا ہے۔ جس سیاسی رہنما نے بولنے یا سر اٹھانے کی کوشش اسے نیب کے مقتل میں لایا گیا، عدالتوں میں گھسیٹا گیا اور مقدمات کی بھرمار کر دی گئی ۔ ووٹ کا حق آر ٹی ایس سسٹم نامی بلا نے ہڑپ کر لیا۔ آئین اور قانون وہ خنجر بن گئے ہیں جس سے صرف “دشمنوں” کا سر اڑایا جاتا ہے۔

سو ملالہ یوسفزئی سے گزارش ہے کہ اس وطن اور معاشرے کا مسئلہ نکاح اور پارٹنرشپ قطعاً نہیں کیونکہ ان معاملات کو وہ اپنی مذہبی سماجی اور معاشرتی حدود سے باہر نکل کر طے کرنے پر تیار ہی نہیں البتہ اس ملک اور معاشرے کا مسئلہ آئین اور قانون کی پامالی، ریاستی جبر، اظہار رائے کی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق سے محرومی ہی ہے .

جس کے لئے جمہوری سیاسی جماعتیں سول سوسائٹی دانشور اور صحافی ایک انتہائی مشکل جدوجہد سے گزر رہے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کو جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے اور صحافیوں پر حملے ہو رہے ہیں .

چونکہ ملالہ یوسفزئی کا تعلق بھی میری طرح یوسفزئی قبیلے سے ہے اور ملالہ بخوبی جانتی ہے کہ اس قبیلے کی دلیر حربی تاریخ بھی غضب کی ہے اس لئے وہ اپنے نام کا لاج رکھتے ہوئے اپنی پیش رو “ملالوں” ( ایک ملالہ نے بونیر اور دوسری ملالہ نے کابل کے نواح میں لڑتے ہوئے تاریخ رقم کی تھی) کی مانند رضاکارانہ طور پر اس میدان کارزار کا رخ کریں گی جہاں آئین و قانون، جمہوریت کی سربلندی اور آزادی اظہار رائے کےلئے ایک معرکہ برپا ہے.

ملالہ بہن دنیا دیکھ رہی ہے کہ ہم کمزور بھی ہیں اور گھیرے میں بھی ہیں لیکن ہم نے پھر بھی ہتھیار نہیں پھینکے، پھر بھی میدان نہیں چھوڑا کیونکہ ہماری تاریخ کا سبق یہی ہے کہ ایسے ہی کسی کڑے وقت میں پہاڑوں کی اوٹ سے کوئی ملالہ نمودار پوتی ہے اور پانسہ پلٹ دیتی ہے.

نکاح اور پارٹنرشپ سے فی الحال کیا لینا دینا؟ ہمیں تو اس مشکل گھڑی میں آپ کی کمک کی ضرورت ہے۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments