فرق بہت ہے تمہاری اور ہماری تعلیم میں


ملالہ یوسفزئی، نوبل انعام یافتہ، پاکستانی کارکن برائے تعلیم نسواں ہیں جن کا تعلق پاکستان کے شمالی علاقہ سے ہے۔ پاکستان میں ملالہ یوسفزئی پر حملہ، انہیں نوبل انعام ملنا اور ان کی کئی سماجی سرگرمیوں کے بارے میں مخلتف لوگوں کی مختلف آراء ہیں۔

حالیہ دنوں میں ملالہ یوسفزئی کی جانب سے برٹش ووگ میگزین کو انٹرویو دیا گیا جو حیران کن حد تک ہماری اقدار اور روایات کے خلاف ہے۔ انہوں نے اس انٹرویو میں نہ جانے کس مذہب اور کس سوچ کی عکاسی کی ہے لیکن ان کا بیان چونکا دینے والا ہے۔ انہوں نے نکاح جیسے مقدس رشتے کا متبادل حل پیش کر دیا۔ اب نہ جانے کون سا سا مذہب یا کون سا ملک اس بے حیائی کی اجازت دیتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا نوبل انعام یافتہ لڑکی کو شادی اور حصہ داری میں فرق واضح نہیں۔ کیا مغرب میں جانے کے بعد اسے کبھی بھی اپنے ملک اور مذہب کے قوانین نہیں سکھائے گئے یا یہ کہ اس بیان کو ہمارے سامنے کوئی الگ رخ دے کر پیش کیا گیا اور سب سے اہم بات یہ کہ کیا اب بھی ملالہ کوئی وہی عزت اور مقام ملے گا؟

نکاح دو لوگوں کے درمیان ایک مقدس رشتہ ہے جس کا تعلق جذبات اور احساسات سے ہوتا ہے۔ جس رشتے میں اگر ایک کمزور ہے تو دوسرا طاقت بنتا ہے۔ اس کے برعکس حصہ داری تو ایک کاروباری اصطلاح ہے۔ دو ایک ہی جیسی طاقت رکھنے والے لوگ مل کر کسی مفاد کے لئے کام کرتے ہیں اور پھر حاصل کردہ نفع بانٹ لیا جاتا ہے۔ پھر ان دونوں کا موازنہ کیوں کر ممکن ہے۔

ہر عاقل و بالغ شخص آزادی رائے کا حق رکھتا ہے اور جو کام اسے اپنی ذات کے لئے بہتر لگے اسے منع کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ لیکن اس بیان پر جو بات قابل تشویش ہے وہ یہ ہے کہ ہر شخص کی سوچ دوسروں سے مختلف ہے اب ایک ایسے معاشرے میں جہاں لوگ اپنی روایات سے باہر نکلنے کو تیار ہی نہیں اس معاشرے پر اس بیان کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

اب ایسی صورتحال میں اگر کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی روایات کو پس پشت ڈال کر اس طرح کا بیان دے تو وہاں کی لوگوں کا تعلیم نسواں پر پابندی کو مزید تقویت ملتی ہے۔

یہ ایک معاشرتی رویہ ہے کہ ہم سے پہلے کسی انسان نے کسی شعبہ میں جو تجربہ حاصل کیا ہو دوسرے اس سے سیکھ کر اس شعبہ زندگی کے بارے میں رائے قائم کر لیتے ہیں۔ اب ایک ایسی لڑکی جو تعلیم عام کرنے کے لئے جدوجہد کر رہی ہے، اس کی سوچ اور اس کے طور طریقے اس کے بعد آنے والوں کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔

چونکہ ہم معاملے کو از خود جانچنے کی کوشش نہیں کرتے اور سنی سنائی باتوں کو من و عن قبول کر لیتے ہیں۔ لہذا اب وہ والدین جو پہلے ہے تعلیم نسواں کے خلاف ہیں، تعلیم یافتہ لڑکی کے روایات و اقدار کے خلاف بیان سن کر کیا بیٹیوں کو تعلیم دلوائیں گے؟

ملالہ کی سوچ جو بھی تھی اس کا تو علم نہیں لیکن ایک بات واضح ہے کہ کسی سماجی کارکن کا محض چند روپے خرچ کر کے نام کما لینے یا پھر کتابیں لکھ دینے سے حالات یا سوچ نہیں بدل سکتی۔ اگر ایسا کرنے سے سب مسائل ختم ہوتے تو کتنے لوگ روزانہ لاکھوں روپے فلاحی کاموں کے لئے صرف کرتے ہیں، کئی کتابیں لکھی جا چکی ہیں لیکن مسائل وہیں کے وہیں ہیں۔ لوگوں میں بہتری لینے کے لئے آپ کو ہر قدم بہت سوچ سمجھ کر اٹھانا ہوتا ہے آپ کا ہر لفظ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ لہذا جس معاشرے کے لئے کام کر رہیں ہیں اس کی سوچ اور روایات کی عکاسی کیجئیے۔

بلاشبہ ہمارے دوردراز علاقوں میں ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے پاس بڑی بڑی ڈگریاں نہیں ہے لیکن وہ اپنی روایات، اور اپنے مذاہب کی پاسدار ہیں۔ آپ کی رائے جو بھی ہے لیکن ہمیں اس تعلیم کی کوئی ضرورت نہیں جو انسانیت ہی کی قاتل بن جائے۔ جو روایات و اقدار کے منافی ہو، اور جو انسان میں حلال اور حرام کا فرق ختم کر دے۔

اس بیان سے پہلے عوام کی جو بھی رائے تھی اپنی جگہ، لیکن قابل تعریف بات یہ ہے کہ ہم میں سے اکثریت نے مغرب کی اس بیہودگی کے منہ پہ طمانچہ مارا جہاں رشتوں کی کوئی پہچان نہیں۔ خیر ملالہ ایک عاقل و بالغ اور ہم سے کئی زیادہ شہرت یافتہ ہیں۔ لیکن ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ آپ کے رویے آپ کے پیچھے چلنے والوں کو متاثر کرتے ہیں۔

لہذا نہ صرف ملالہ بلکہ کوئی بھی شخصیت جو قومی ترقی کی خواہش مند ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی ذات کو ایسا بنائے کہ اسے عوام میں اپنی بات پہنچانے کے لئے کتابیں نہ لکھنی پڑیں بلکہ لوگ آپ کو دیکھ کر آپ جیسا بننے کی خواہش کریں۔ اور یہی اصل کامیابی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments