چند مثبت خبروں کا تذکرہ


درویش کی ناقص رائے میں اخباری سطور کی اہمیت ہے اور انہیں قارئین کی امانت سمجھتا ہوں، لہذا یہاں ذاتی معاملات جسم و جان اور ذہن و قلب پر گزری واردات کا بہت کم ذکر کرتا ہوں۔ قارئین اور ان کی رائے چاہے مثبت ہو یا منفی لکھنے والے کے لیے بہرحال اثاثہ ہیں۔ تحریر خواہ کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو پڑھنے والے میسر نہ ہوں تو ایسے لکھے کا کچھ حاصل نہیں۔ سب سے خوش نصیب لکھاری میری نظر میں وہ ہیں جنہیں پڑھنے والے نہ صرف ان سے محبت کرتے ہیں بلکہ ان کی غیر حاضری پر انہیں مس بھی۔

مجھے اعتراف میں باک نہیں کہ ”نہ تو دانا ہوں نہ ہی کسی ہنر میں یکتا ہوں“ ۔ میری تحریر وقت گزاری سے زیادہ اہمیت کی حامل نہیں مگر الحمدللہ کچھ قارئین کی رائے ہر تحریر کے بعد بلا ناغہ بذریعہ ای میل یا واٹس ایپ پہنچتی ہے۔ کچھ محبت کرنے والے احباب نے پچھلے عرصہ سے میری کم حاضری کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ رابطہ کر کے اس کی وجہ جاننے کی کوشش بھی کی۔ چند قارئین نے پی ڈی ایم پر نہ لکھنے کی وجہ بھی پوچھی۔ کام میں تاخیر ہو تو کچھ باعث تاخیر ضرور ہوتا ہے۔

قارئین کے روبرو حاضری میں بے قاعدگی کی ایک نہیں بلکہ بہت سی وجوہات ہیں۔ پی ڈی ایم کا معاملہ تو یہ ہے کہ جب دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا۔ دوسرا آزادی اظہار کی محدودات بہت بڑھ چکی ہیں اور احتیاط کے باوجود ممنوعہ حدود میں پاؤں پڑ ہی جاتا ہے اور اس کے جو نتائج ہو سکتے ہیں اس بارے سوچ کر ہی دل دہل جاتا ہے۔ مجھ بے ہنر کے پاس اتنا سلیقہ تو ہے نہیں کہ تشبیہ یا اشاروں کنایوں سے کام چلا لوں۔ ایک اور بات یہ کہ کالم نگاری میرا ذریعہ آمدن نہیں۔ پیشے کے لحاظ سے مزدور آدمی ہوں اور مہنگائی جس سطح تک پہنچ چکی ہے خرچ پورا کرنے کے لیے اب مزدوری کا دورانیہ بڑھانا ناگزیر ہو چکا تھا لہذا لکھنے کو میسر وقت کم ہو گیا ہے۔

اکثر ایسے بھی ہوتا ہے کہ الفاظ، خیالات اور موضوعات کا اک سیل رواں اس شدت سے پیش ہوتا ہے کہ اس کے آگے بند باندھنے کی کوئی سبیل کارگر ثابت نہیں ہوتی اور ذہن یہ فیصلہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا کہ کس موضوع پر قلم اٹھایا جائے اور کسے پینڈنگ میں ڈالا جائے۔ ہمیشہ مگر ایسا نہیں ہوتا اور یہ خبر نہیں کہ صرف مجھ نالائق طالب علم کے ساتھ ہی یہ واردات ہے یا دیگر لکھاریوں اور دانشوروں کے ساتھ بھی یہ معاملہ پیش آتا ہے۔

اب بھی بظاہر بہت موضوع اور بہت سی کہانیاں ذہن کے پردے پر تیز رفتار فلم کی مانند رقصاں ہیں مگر ان کو الفاظ کی صورت کاغذ پر منتقل کرنے کی تمام کاوش ناکام ثابت ہو رہی ہے۔ یہ صورت احوال صرف لکھنے تک محدود نہیں بلکہ کچھ پڑھتے بھی من و عن یہی کیفیت ہوتی ہے، کوئی بہترین سے بہترین اور اپنے پسندیدہ لکھاری کی تحریر بھی سامنے ہو تب بھی نظریں ٹکائے رکھنے اور منتشر خیالات کو یکجا کرنے کی کوشش اور چند سطری مضامین بھی پلے پڑنے سے انکاری ہو جاتے ہیں۔ ان بے کیف ساعتوں میں کوئی عزیز از جان لنگوٹیا بھی مل جائے تو باوجود اپنی زندہ دل طبیعت اور مہمان نواز فطرت کے کسی قسم کی کمپنی دینا تو کجا، اس کی باتوں پر صرف ہوں ہاں تک محدود رہتا ہوں، اور چاہ کر بھی اس کے لیے مسکرانے میں کامیابی نہیں ہوتی۔

پچھلے ایک ماہ سے قارئین کی خدمت میں کالم پہنچنے میں تاخیر کا سبب مگر ان میں وجوہات میں سے کچھ نہیں بلکہ طبیعت کی خرابی ہے۔ عمر عزیز کی اب تک محض تین دہائیاں مکمل کی ہیں لیکن اس عرصے میں ہی شوگر اور بلڈ پریشر جیسے موذی امراض سے واسطہ پڑ چکا ہے۔ گزشتہ تین سال سے ان امراض میں مبتلا ہوں اور ہر ممکن احتیاط و مستقل ادویات استعمال کر رہا ہوں۔ اس کے باوجود کبھی کبھار طبیعت بہت نڈھال ہو جاتی ہے۔ رواں سال رمضان المبارک کے مہینے میں طبیعت زیادہ بگڑی لیکن اب تو پچھلے ایک ہفتے سے مستقل غنودگی کی سی کیفیت طاری ہے۔

میرے معالج جو اتفاق سے میرے مستقل قاری بھی ہیں ان کی ہدایت ہے کہ طبیعت میں بہتری لانے کے لیے ہمہ وقت تنقیدی نشتر چلانے کی بجائے کچھ مثبت لکھنے کی کوشش کروں۔ اس سے نہ صرف خود میری طبیعت بہتر ہوگی بلکہ پڑھنے والوں کو بھی کچھ مثبت مل جائے گا۔ میری سہولت کے لیے انہوں نے چند خبریں بھی شیئر کیں۔ جیسے کہ جی ڈی پی گروتھ کی شرح چار فیصد تک پہنچ چکی جس کے بارے میں چند ماہ قبل تک خود حکومت اور عالمی ادارے دو سے تین فیصد تک رہنے کی توقع ظاہر کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ معاشی میدان میں ہی ایک اور خوشی کی خبر کہ ایف بی آر نے چار ہزار ارب روپے ٹیکس اکٹھا کر کے نئی تاریخ رقم کرلی ہے۔

میرے معالج موجودہ حکومت کے پرجوش حامی ہیں ان کے خیال میں گزشتہ ایک ماہ میں حکومت کی حاصل کردہ کامیابیوں کی داد ضرور بنتی ہے۔ ریکوڈیک کیس میں پی آئی اے کے اثاثوں کی بحالی، اور ملکی برآمدات میں ریکارڈ اضافہ ان کے نزدیک حکومت کا واضح کارنامہ ہے۔ میرے علم میں انہوں نے یہ بھی اضافہ فرمایا کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج ایشیاء کی سب سے تیز ترین مارکیٹ قرار پائی ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستان نے 36 جے ایف سترہ طیاروں کی فروخت کا معاہدہ کیا ہے۔

ملکی زر مبادلہ کے ذخائر 26 ارب ڈالرز کو پہنچ چکے ہیں اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہو رہا ہے۔ ایک اور کامیابی یہ ہے کہ کورونا ویکسین مقامی سطح پر تیار کرلی گئی ہے۔ سعودی عرب اور یو اے ای سے حکومت کی سفارتی کوششوں کی وجہ سے سرد مہری کا خاتمہ ہو گیا ہے اور کویت نے دس سال کے بعد پاکستانی شہریوں کے لیے ویزوں کے اجرا پر عائد پابندی ختم کر دی ہے۔ آج کے لیے ان اچھی خبروں کا تذکرہ ہی بہت ہے قارئین سے درخواست ہے کہ دعا کریں میری طبیعت بہتر ہو پھر ان ماشاءاللہ آئندہ کالموں میں ان خبروں پر الگ الگ تفصیل سے گفتگو کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments