صحافت ایک مقدس پیشہ


صحافت خبروں اور معلومات کو جمع کرنے، ان کا تجزیہ کرنے، تصدیق کرنے اور بالآخر ناظرین، سامعین اور قارئین کے لئے پیش کرنے کا پیشہ ہے۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ جتنا کوئی معاشرہ جمہوری ہوتا ہے اتنی ہی زیادہ خبریں وہاں سننے، دیکھنے اور پڑھنے کے لئے میسر ہوتی ہیں اور عوام زندگی کے مختلف شعبہ جات کے بارے میں اتنی ہی با خبر ہوتی ہے۔

اگرچہ میڈیا پر موجود معلومات عامہ، تفریح کے پروگرام، ڈرامے، اشتہارات وغیرہ سب انسان کی طبع نازک کی ضروریات اور نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے بنائے جاتے ہیں مگر صحافت یا اس سے جڑے پروگرام جیسے خبریں یا کچھ ٹاک شوز کم وقت ملنے کے باوجود سب سے اہم سمجھے جاتے ہیں وہ اس لئے کہ صحافیوں کے ذریعے لوگوں تک پہنچنے والی معلومات ان کی زندگی میں کیے جانے والے مختلف فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ جیسے حکومت کا، کاروباری افراد کے لئے قرضوں کا اعلان، مشکل وقت سے گزرنے والے کاروباری حضرات کے لئے اچھے وقت کی نوید لا سکتا ہے۔ اسی طرح سے سمندر پار بسنے والے پاکستانیوں کو ٹیکس میں مراعات ملنے سے ان کی بچتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے جسے وہ اپنے مستقبل کو اور بہتر کرنے کی فکر کر سکتے ہیں۔ الغرض کوئی شعبہ ہائے زندگی ایسا نہیں کہ جس کی خبر عوام الناس کے لئے دلچسپی سے خالی ہو۔

جس صدی سے ہم گزر رہے ہیں وہاں زندگی اس قدر تیز ہے کہ معلومات کے وسیع سمندر میں آ کر جھوٹ کی کتنی ندیاں شامل ہوتی ہیں اور مبالغے کے کتنے دریا آ کر گرتے ہیں اس امر کا اندازہ محض اس حقیقت سے لگائیے کہ ویب سیکیورٹی کمپنی سیمنٹیک کے مطابق، تقریباً 70 فیصد ای میل ٹریفک اسپام پر مشتمل ہوتا ہے۔ آگے بڑھیں تو سوشل میڈیا پر موجود اکثر چیزیں بے معنی، مہمل اور جھوٹ ہوتی ہیں۔ تو ایسے حالات میں صحافی کا کردار پہلے سے زیادہ اور اہم ہو جاتا ہے۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ صحافی کو صرف حقائق ہی تلاش نہیں کرنے ہوتے بلکہ وہ سچ بھی تلاش کرنا ہوتا ہے جس پر حقائق مبنی ہوتے ہیں۔

ویسے تو اس سوال کو پوچھنا شاید موزوں نہیں کہ صحافی کون ہوتا ہے، چونکہ، سچ اور حقائق کی تلاش اور پیشکش کی بنیاد پر کوئی بھی صحافی کہلا سکتا ہے۔ مگر پھر بھی یہ پیمانہ ہر گز نہیں کہ کوئی شخص کسی جگہ کار اور بس کے درمیان ہوئے کسی حادثے کی تصویریں یا ویڈیوز بنا کر اسے اپنے فیس بک، ٹویٹر یا یو ٹیوب اکاؤنٹ پر سے پوسٹ کردے۔ اور بار بار اس سے ملتی جلتی کچھ اور چیزیں کرے تو صحافی کہلانے لگے گا۔ صحافت کا اصول ہر دم عوام کی اچھائی کی نیت ہے۔ خبر کو جب صحافی اس نیت سے ڈھونڈتا ہے تو حقائق بھی مل جاتے ہیں اور ان کے پیچھے وہ سچائی بھی جو خبر کی جان ہے۔ یہ اصول صرف خبر کی حد تک ہی نہیں بلکہ صحافی کے تجزیوں، آرا، اور گفتگو میں بھی نظر آنا صحافت کی شرط ہے۔

صحافی اور صحافت کے میدان کی پاکستان کے تناظر میں بات کی جائے تو اس وقت پاکستان میں چینلز کی بھر مار ہے اور ایک سے ایک صف اول کے مشہور صحافی یہاں موجود ہیں۔ کم مشہور چینلز پر کم معروف اور نو آموز چہرے ہیں۔ سو مقابلے کے لئے میدان کھلا ہے اور ہر صحافی کے لئے مواقع ہیں کہ وہ اپنا آپ ثابت کرے کہ وہ عوام کے لئے اور سچ کی علمبرداری میں مصروف ہے۔ اظہار رائے کی آزادی بھی کسی حد تک موجود ہے۔ ہو سکتا ہے اس قدر نہ ہو جیسی یورپ یا امریکہ جیسے معاشروں میں ہو۔ مگر پھر بھی اس زمانے سے حالات بہت بہتر ہیں جب ایک سرکاری ٹی وی ہی کل کائنات ہوتی تھی اور ہر بڑی خبر صرف اخبار کے طفیل آتی تھی۔

میڈیا نے گزشتہ دو عشروں میں کافی ترقی کی۔ لاتعداد چینلز کھل چکے۔ متعدد کے مالکان کاروباری حضرات ہیں۔ جن کو براہ راست اثر انداز کیا جانا آسان ہے۔ ایسے مالکان نے ایک ذمہ دار ترین شعبے کو بھی پیسوں سے جب تولنا شروع کیا تو نہ صرف تجربہ کار صحافیوں کے دن پھرے بلکہ نئے آنے والوں کے لئے بھی راستے کھلے۔ صحافیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ اور اب حال یہ ہے کہ اس سیلاب میں اخلاقیات، سچ، معیار اور تہذیب سب کچھ بہہ گیا۔

بڑے بڑے نامور صحافی جو کل تک معتبر گنے جاتے تھے۔ کبھی ان پر طرفداری کے الزام لگنے لگے تو کبھی بکنے کے۔ مخالف صحافیوں نے کسی کو پلاٹ لینے کا طعنہ دیا تو کسی کو سرکاری حج پر مطعون کیا۔ کسی کو غدار کہا گیا تو کسی کو اسٹیبلیشمنٹ کا مہرہ بتایا گیا۔ خدا جانے کس الزام میں کتنی سچائی ہے۔ مگر اب حال یہ ہے کہ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی بڑا صحافی بھی کوئی خبر دے تو آسانی سے یقین آئے۔ چند لوگ ہی بچے ہیں جو کسی قسم کے ذاتی تعصب سے بالا تر ہو کر ہر خبر پر بے لاگ اور نتائج سے بے پرواہ ہو کر تجزیہ کریں۔ باقی نئے آنے والوں کے تو کیا ہی کہنے ہیں، نہ وہ تجربے کی بھٹی سے صحیح معنوں میں گزرے اور نہ ہی کسی استاد کے فیض سے بہرہ مند ہو سکے۔ انھیں بس ”سکرین“ پر اچھا نظر آنے اور بولنے کی تربیت تھی سو وہ اسی پر اکتفا کیے ہوئے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ میں بدلنے پر کوشاں ہیں۔

وہ جو چینلز کی زینت نہ بن سکے انھوں نے یو ٹیوب پر اپنی صحافت کے جھنڈے گاڑنے شروع کر دیے۔ ٹی وی پر پھر بھی کوئی نہ کوئی پالیسی ہوتی ہے کہ کیا بولنا ہے اور کتنا بولنا ہے، مگر، یو ٹیوب جیسے پلیٹ فارم پر نہ کوئی وقت کی حد ہے اور نہ ہی بولنے کی قید۔ اب صرف یہ کام باقی رہ جاتا ہے کہ بولا کس موضوع پر جائے۔ تو اس کے لئے رائج الوقت طریقہ یہ ہے کہ پاکستان میں چند مقبول ترین موضوعات مثال کے طور پر سیاستدانوں کی کرپشن، اسٹیبلیشمنٹ پر حکومتی معاملات میں دخل اندازی کا الزام، میڈیا پر پابندیاں، سیاسی راہنماؤں کی ذاتی زندگی کے پہلوؤں پر روشنی، بڑی شخصیات کو متنازعہ بنانا وغیرہ پر بات کی جائے تو سب بکے گا۔

ان موضوعات کے انتخابات کی ایک وجہ عوامی دلچسپی اور دوسری وجہ اپنے چینل پر لوگوں کی توجہ حاصل کرنا ہے۔ ظاہر ہے جتنے لوگ اتنے پیسے۔ مزید یہ کہ نہ ہی پیمرا کا ڈر اور نہ کسی مالک سے ناراضی کا خدشہ۔ سو ایسے لوگ آزاد ہیں جو مرضی کہتے پھریں۔ اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والوں میں مشہور و معروف صحافی بھی شامل ہیں جنھوں نے محض اس وجہ سے یہاں چینل بنا لئے کہ یو ٹیوب چینل آمدنی کا ذریعہ ہے۔ اور طریقہ واردات وہی رکھا کہ خبر دو سنسنی پھیلاو، پسند کرنے والے بڑھیں گے۔ کس نے خبر کا ذریعہ پوچھنا ہے کون تصدیق کرنے آئے گا۔ کل پھر نیا ایجنڈا ہوگا نئی سنسنی خیز خبر ہوگی۔

اخلاقی اور پیشہ ورانہ حدود پامال ہو چکیں۔ چینل کے فالورز بڑھانے کے لئے اور شہرت کے حصول کے لئے ملک، قوم، حساس ادارے سب کو داؤ پر لگانا اور ان پر کیچڑ اچھالنا عام ہے۔ اگر متذکر وہ شخص یا ادارہ منہ بند کرنے کے لئے پیسے دے تو صحافی خاموش اور اگر عدالت کا رخ کرے تو صحافی آزاد ہیں کہ معاملہ چار پانچ سال سے پہلے کہاں ختم ہوگا، سو وہ اپنا ڈھول اور اونچا پیٹتے ہیں۔ غلط اور گمراہ کن خبریں دینے کے باوجود معذرت اور معافی مانگنے کا کلچر بالکل بھی نہیں ہے۔ سو آپ کس صحافی کی بات سننا چاہیں گے۔ اور کس کی خبر پر یقین کرنا چاہیں گے۔ اس کے لئے سادہ سا فارمولا ہے۔ ایک بین الاقوامی پریس ادارے کے مطابق ایک صحافی کو مندرجہ ذیل عناصر کو ہر لحظہ اپنے دھیان میں رکھنا ضروری ہے۔

1۔ صحافی کی پہلی ذمہ داری سچ اور صرف سچ کی ترویج ہے۔

2۔ اس کی وفاداری اس کے ملک کی عوام کے فائدے کے ساتھ ہے۔ چاہے وہ عام لوگ ہوں یا کسی بھی کاروباری طبقے کے افراد، ادارے کے ملازم

3۔ صحافی کی خبر، تصدیق، ریاضت کا نچوڑ ہوتی ہے اور اگر کبھی اس کی دی ہوئی کوئی خبر غلط ثابت ہو جائے تو وہ نہ صرف عوام سے معافی مانگنے کا پابند ہے بلکہ ان ذرائع پر بھی نظر ثانی کا پابند ہے جن کے وساطت سے اسے یہ خبر ملی۔

4۔ صحافی اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داری میں آزاد سوچ رکھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دولت، شہرت، رنگ و نسل، سے متاثر ہوئے بغیر اپنے ذرائع سے ملنے والی معلومات کے ساتھ بہہ نہ جائے۔ بلکہ وسعت ذہن کے ساتھ معلومات/خبر کو پرکھے۔ اس کی خبر سے طرفداری کی بو نہ آئے۔

5۔ صحافی بے آوازوں کی آواز بنتا ہے۔ اقتدار کے حامل لوگ عام انسانوں کی زندگیوں کے لئے جو فیصلے کرتے ہیں، صحافی اپنے ضمیر کی آواز سنکر ان کے غلط فیصلوں کے خلاف آواز اٹھاتا ہے۔

6۔ ایک صحافی اپنی گفتگو، تجزیہ، آرا کو جب پیش کرتا ہے تو لوگوں اور حکمرانوں کو اس کے تجزیے سے اپنی راہ درست کرنے میں مدد ملتی ہے۔

7۔ عام طور پر ایک خبر کے متاثرین اور فائدہ لینے والے دہ گروہ ہوتے ہیں۔ صحافی کی ذمہ داری ہے کہ وہ دونوں کی آرا عوام کے سامنے رکھے۔ صحافی کو فیصلہ صادر کرنے کا اختیار نہیں بلکہ اس کی ذمہ داری سب کا مافی الضمیر لوگوں تک پہنچانا ہے۔ اب یہ لوگوں پر ہے کہ وہ اپنی رائے خود بنائیں۔

8۔ صحافی کسی کے ایجنڈے پر کام نہیں کرتا۔ اس کا بس ایک ایجنڈا ہے کہ سچ سامنے لایا جائے۔

اگر کوئی خبر یا تجزیہ آپ کو مندرجہ بالا عناصر پر پوری اترتی نظر آئے تو ٹھیک ورنہ یقین رکھیں کہ صحافی اپنی، اپنے چینل یا کسی اور پوشیدہ ایجنڈے کی تو ترویج کر رہا ہے مگر صحافت کی روح یعنی سچ سے کوسوں دور ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments