موبائل موریلٹی اور معاشرتی علوم


ہاں تو جناب آپ اکیسویں صدی کے اکیسویں سال میں رہ رہے ہیں۔ چیزیں ویسی نہیں ہیں جن کا آپ کے بزرگوں نے سوچا تھا۔ سب بدل چکا ہے۔ سب بدل رہا ہے۔ ایک چیز جو تمام چیزوں کو زیادہ بدل رہی ہے وہ موبائل ہے۔ موبائل بھی کیا جناب سمارٹ فون کہیں۔ کیا ہے جو اس موبائل کی لپیٹ میں نہیں آیا۔ آپ کی سیاسی، سماجی، معاشی، مذہبی غرض ہر قسم کی زندگی موبائل سے جڑی ہے اور موبائل انٹرنیٹ سے جڑا ہے۔

اب اس میں ایک مسئلہ یہ درپیش ہے کہ ہر بندے نے موبائل کو لے کر اخلاقی گراوٹ کا راگ الاپا ہوا ہے کہ جی دیکھیں موبائل نوجوان نسل کی اخلاقی اقدار تباہ کر رہا ہے۔ نہیں جناب آپ کی اخلاقی قدریں پہلے سے ہی تباہ حال تھیں۔ موبائل نے تو صرف اسے مزید واضح کر دیا ہے۔ موبائل وہی اخلاقی قدریں دکھاتا ہے جو آپ نے اپنی نوجوان نسل کو بچپن سے دکھائی اور سکھلائی ہیں۔ اگر معاشرے میں گالی کا چلن عام نہ ہوتا تو کون موبائل پر ایک دوسرے کو گالی دیتا۔ معاشرے میں تو پہلے بھی ورکنگ وومن پر جملے کسے جاتے تھے آج بھی کسے جاتے ہیں۔ اب صرف فرق یہ ہے کہ یہ آن لائن ہو گئے ہیں۔

معاشرے میں تو پہلے بھی معصوم لوگوں کو فراڈ کا نشانہ بنایا جاتا تھا اب یہ کام آن لائن ہوتا ہے۔ اب اس میں موبائل کا کیا دوش؟ الٹا مہذب دنیا سے براہ راست تعلق کی وجہ سے اخلاقیات قدرے بہتر ہی ہو رہی ہیں۔

آج جو وقت چل رہا ہے اس میں سارا کھیل اس موریلٹی کا ہے جو آپ بچوں کو سکھاتے ہیں اور اس قدر سکھاتے ہیں کہ وہ ان کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے۔ زور زبردستی سے اخلاقیات مسلط کرنے والا زمانہ گزر چکا۔ اب لوگوں کو گھروں میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ ویسے بھی جب موبائل ہاتھ میں ہو تو کیا گھر کے اندر کیا گھر کے باہر۔ چار دیواری ویسی نہیں رہی جیسی کبھی ہوتی تھی۔ اب یہ پرائیویسی رکھنے کے کام تو آ سکتی ہے، لوگوں کو اندر بند کر کے رکھنے کے لئے یہ اب ناکارہ ہو چکی ہے۔ ایسے میں ہر قسم کی بے راہ روی کو ایک ہی چیز روک سکتی ہے وہ ہے موریلٹی کی تعلیم۔

مزید سنیں، اب آپ کسی بھی بالغ مرد اور عورت کو موبائل سے دور نہیں رکھ سکتے اور نہ ہی ایسا کرنا سود مند ہوگا۔ آپ بہرحال یہ کر سکتے ہیں کہ ان کو یہ بتائیں کہ سچ کیا ہے، جھوٹ کیا ہے، ان میں فرق کیسے کرنا ہے، انجان آدمی سے کیسے بات کرنی ہے، کیا بات کرنی ہے، مرد کو عورت اور عورت کو مرد سے کیسے بات کرنی ہے، سماجی برابری کس بلا کا نام ہے، مذہب کہاں سے سیکھنا ہے، مذہبی گفتگو سے کیسے کیسے اور کہاں کہاں اجتناب کرنا ہے، کس کو کس طریقے سے ملنا ہے، اختلاف کیسے رکھنا ہے۔ یہ سب باتیں بتا اور سمجھا لیں گے تو جناب آپ کو نوجوان نسل کے موبائل استعمال کرنے سے مسئلہ نہیں ہوگا۔

لیکن بات کچھ یوں ہے کہ اکثر والدین کو تو خود یہ باتیں سکھانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ان کے ہاں تو بچے کے ہر سوال کا یہی جواب ہوتا ہے، ”ایک لگاؤں؟“ ۔ اب ایسے میں ساری ذمہ داری آ جاتی ہے سکول پر۔ مگر سکول میں ایسا کوئی مضمون ہی نہیں جو ان کو یہ باتیں سکھا سکے۔ (اور مضمون کے علاوہ کوئی چج کی بات بتانا ہمارے ہاں گناہ سمجھا جاتا ہے ) ۔ بلکہ الٹا کہا جاتا ہے اخلاقیات تو اسلامیات میں ہی سیکھ لی جاتی ہیں۔ جبکہ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ اسلامیات پڑھانے والے استاد کو تو خود بھی اخلاقیات کی کچھ خبر نہیں ہوتی۔ اس کا سارا زور بچوں کو مشکل عربی سکھانے اور اور پھینٹی لگانے پر ہوتا ہے۔

ایک مضمون جو بظاہر لگتا ہے کہ اس کام کے لیے شامل کیا گیا ہے وہ معاشرتی علوم یا سوشل سٹڈیز کا مضمون ہے۔ مگر اس میں دو جگہ خرابی ہے۔ اول تو اس کا کریکلم اس کے نام سے بالکل بھی میل نہیں کھاتا۔ سوشل سٹڈیز جس میں رہن سہن، بول چال، اچھائی برائی، معیشت، طبقاتی تفاوت وغیرہ پڑھایا جانا ہے اس کی کتاب اٹھا کے لگتا ہے کہ آپ مطالعہ پاکستان کی کتاب کھول کر بیٹھ گئے ہیں۔

اصولاً تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ اس مضمون کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے عالمی یا کم از کم ملکی سطح کے بہترین ایکسپرٹس سے اس کا کریکلم بنوایا جائے اور سکولوں کے بہترین استاد اس کی تعلیم دینے پر معمور کیے جاتے۔ کہ آخر یہ نمبروں نہیں نسلوں کا معاملہ ہے مگر اس کے بالکل الٹ ہو رہا ہے۔

اب دوسری خرابی دیکھیں اتنے اہم مضمون کو سکول میں بالکل فضول سمجھ کر ایک ایسے معلم کو دے دیا جاتا ہے جو کہ ”گڈ فور نتھنگ“ ہوتا ہے۔ اس کو نوکری دے کر سکول میں مصروف رکھنے کے لیے یہ مضمون پڑھانے کو دے دیا جاتا ہے۔ اس کو بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کیا پڑھا رہا ہے۔ اوپر سے اگر انگریزی یا ریاضی کے معلم کو اضافی کلاس چاہیے تو معاشرتی علوم کی کلاس بغیر ہچکچاہٹ کے اس کے حوالے کر دی جاتی ہے۔

ایسے میں جو موریلٹی تشکیل پائے گی وہ وہی ہوگی جو کہ ہم دیکھ رہے۔ اور ملبہ گرے گا موبائل پر۔ تو جناب اس سارے بگاڑ سے بچنے کے لئے نئی نسل کو بنیادی اخلاقیات سکھائیں۔ اور اس کام کے لئے معاشرتی علوم کے مضمون پر توجہ دیں۔ پھر جو نسل تشکیل پائے گی وہ موبائل برتے یا گھر سے باہر گھومے، آپ کو کوئی فکر نہیں ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments