نوجوانوں میں بگاڑ اور معاشرہ


یہ ایک عام مشاہدے کی بات ہے کہ آج کل ہمارا معاشرہ جس قدر اخلاقی بحران کا شکار ہے شاید پہلے کبھی اتنا نہیں رہا۔ تقریباً ہر بزرگ ہی یہ بات کہتا دکھائی دیتا ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی شعبے سے ہو۔ زیادہ تر اس اخلاقی بحران کا شکار ہماری نوجوان نسل کو سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آج کا جوان تمیز اور تہذیب سے عاری ہے اور اپنی زندگی کے اہم ترین معاملات میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ آپ کو تقریباً ہر گھر میں والدین اور اولاد کے درمیان ایک کھچاؤ نظر آئے گا۔ اکثر والدین اپنی جوان اولاد سے نا خوش اور مایوس نظر آتے ہیں نہ صرف ان کے نا مناسب رویے کی وجہ سے بلکہ اس بنا پر بھی کہ وہ اپنی زندگی میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر پائے۔ ایک ہی چھت کے نیچے رہتے ہوئے بچے کہیں اپنی ہی دنیا میں مگن رہتے ہیں۔

حال ہی میں مقابلے کے امتحان کا نتیجہ منظر عام پر آیا اور ساتھ ہی ساتھ ماہرین اور تحقیق کرنے والوں نے ہمارے جوانوں کی تعلیمی قابلیت پر انگلیاں اٹھانا شروع کر دیں کیونکہ پاس ہونے والوں کی شرح 2 فیصد سے بھی کم رہی۔ اس کے علاوہ موازنے کے تیر برسانا شروع کر دیے کہ آج سے چند دہائیوں قبل قابلیت کے مینار بہت اونچے تھے جو کہ آج کی نسل نے زمین بوس کر دیے ہیں۔

دوسری طرف ہمارے علماء دین کا کہنا ہے کہ نوجوان نسل میں فحاشی کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے سخت اقدامات کیے جائیں۔ اس بات پر ویب سائٹس بھی بند کروا دی جاتی ہیں۔

اگر شادی شدہ جوان مرد و خواتین کا ذکر کیا جائے تو خاندان کے بڑوں کا اعتراض ہوتا ہے کہ ان لوگوں میں برداشت کی بہت کمی ہے جس کی وجہ سے طلاق عام ہوتی جا رہی ہے۔

آئے روز سٹریٹ کرائمز میں ملوث بہت سے نوجوان افراد سامنے آتے ہیں جن کا رویہ باغیوں جیسا ہوتا ہے۔

ان سب تلخ حقائق کو دیکھتے ہوئے ہمارا جوان مایوس ہونے لگتا ہے۔ اس کو لگتا ہے کہ ہر فساد کی جڑ اس کی ذات ہے۔ اپنوں کو ہی خود سے ناخوش پا کر انسان انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ وہ خود سے اس قدر نفرت کرنے لگتا ہے کہ خود کشی کی طرف چل پڑتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ خود کشی کا رجحان پچھلے کچھ عرصے سے بڑھ گیا ہے۔

اس سارے درد ناک منظر میں ہمیں صرف اور صرف ایک ہی قصور وار کی شکل نظر آتی ہے جس کی اپنی ہی زندگی تباہ ہو رہی ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ بہت کم تعداد ہے ان لوگوں کی جو اس تباہی کے پیچھے موجود وجوہات کے انبار کو دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ جو بات کی تہہ تک جاتے ہیں اور فوری طور پر کوئی نتیجہ اخذ نہیں کر لیتے۔

دور حاضر کے جوان میں نظر آنے والی واضح تبدیلیوں کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ اس نے دو متضاد ادوار دیکھے ہیں۔ جب تک یہ والدین کی انگلی پکڑ کر چلتا تھا اور اس کی سوچ کے پرندے کو پر نہیں لگے تھے تب تک اس کو صرف رواداری، صلح اور امن کا درس ملا۔ جب یہ بڑا ہو کر دو گروہوں کے درمیان صلح کروانے گیا تو اس کے بڑوں نے ہی اس کو مصلحت کا درس دینا شروع کر دیا۔ اس کو دوسروں کے معاملے میں خوامخواہ خود کو خطرے میں ڈالنے سے روک دیا۔ اس معصوم نے بھائی کو بھائی کا جانی دشمن دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ آج مسلم ممالک خود آپس میں گتھم گتھا ہیں۔ جو سبق اس نے امن کا پڑھا تھا وہ آج کار گر نہیں ہے۔

اس کو بچپن سے سکھایا گیا کے اپنے حال پر شکر کرو اور حسد نہ کرو لیکن جیسے ہی اس نے پریکٹیکل لائف میں قدم رکھا تو اس کو موازنے کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ اس کو اسی کام کے کرنے کا حکم دیا گیا جو کر کے اس کے آس پاس کے لوگ کسی حد تک کامیاب ہو رہے تھے۔ اس کے مزاج اور رجحان کو نہ سمجھا گیا نہ ہی اس کو اتنی آزادی دی کہ وہ خود اپنی انفرادیت کو سمجھ سکے۔

ایک طویل عرصے تک ہم نے یہ جنگ لڑی ہے کہ آرٹ سیکھنا اور اس کی تعلیم حاصل کرنا خلاف اسلام نہیں ہے۔ بہت سے قابل آرٹسٹک دماغ کے حامل افراد جو یہ جنگ ہار چکے تھے وہ اب زندگی کے میدان میں بھی شکست کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ دیگر تحقیقات یہ ثابت کر چکی ہیں کہ آنے والے دور میں انسان محض اپنی ذاتی مہارت کی بنا پر ہی کامیاب ہو سکے گا۔ لیکن ہم نے اپنی مہارتوں کو دقیانوسی تصورات کی نذر کر دیا۔

بچیوں کو بتایا گیا کہ وہ گھر کی زینت ہیں اور ان کا کفیل ان کا شوہر ہے۔ لیکن آج اس کا گھر سے باہر نکلنا نا گزیر ہے۔ یا اس کو معاشی دباؤ کی وجہ سے کمانا پڑتا ہے یا معاشرے میں نام کمانے کے لئے۔ وہ نزاکت جو اس نے ہمیشہ سے سیکھی تھی اب آڑے آتی ہے اس کے ایک مضبوط عورت کا روپ دھارنے میں کیونکہ باہر کا ماحول بہت حد تک عورتوں کے لئے محفوظ اور موافق نہیں ہے۔

دوسری طرف وہ مرد جو ہمیشہ سے یہ سبق رٹ رہا تھا کہ وہ ہی اپنی عورت کی ہر ضرورت کو پورا کرے گا اور اگر اس کی زوجہ باہر جا کر کام کرے گی تو اس کی غیرت پر بات آئے گی، آج یہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ وہ اپنے گھر کی عورت کو کتنی آزادی دے اور کتنی نہ دے۔ اس سے جھگڑے ہوتے ہیں اور بے اعتباری جنم لیتی ہے۔

بچپن سے ہمیں حیا اور شرم کا درس دیا گیا لیکن آج دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جو انسان جتنا بے باک اور حیا سے دور ہے اتنا ہی کامیاب نظر آتا ہے۔

ان سب پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ایک ایسا انسان جو زندگی کے پچیس تیس سال صرف راہیں، معیار اور مزاج کو بدلتا رہا ہو، وہ اپنی زندگی کی حقیقت کو کیسے سمجھے گا؟ اور جو خود کو نہ سمجھ سکے وہ دوسروں کے لئے امید کی کرن کیسے بنے گا؟

نوجوان نسل ہی ملک و قوم کا سرمایہ ہے۔ یہ ہی آنے والے وقت کا دستور متعین کرتی ہے۔ اس کا مزاج پورے معاشرے کے رجحان کو تشکیل دیتا ہے۔ اس کو لاپرواہی کے طعنے دینے کی بجائے اس کی ضرورت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس کو انتشار سے نکالنے کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس کی ذمہ داری والدین، اساتذہ اور حکومتی اراکین پر لاگو ہوتی ہے۔

والدین کو چاہیے کہ تربیت کے اہتمام کے ساتھ ساتھ اپنے اندر ضبط اور تحمل پیدا کریں اور یہ ہی درس اولاد کو دیں۔ ان کو آنے والی مشکلات کے لئے تیار کریں نہ کہ مشکل سے بچنے کا چور رستہ بتائیں۔ کامیابی کے تصور کو موازنے کی دیمک سے نجات دلائیں۔

اساتذہ پر لازم ہے کہ طلبہ کے ساتھ خلوص نیت سے روابط استوار کریں، ان کا سہارا بنیں اور ان کو خود شناسی کے لئے تیار کریں۔ اسی طرح کھوئی ہوئی قابلیت کو بحال کیا جا سکتا ہے۔

حکومت وقت کو چاہیے کہ نوجوانوں کے لئے کم عمری سے ہی با عزت روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ ان میں اعتماد پیدا ہو اور وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کر سکیں۔

جب بگاڑ کی وجوہات بہت سی ہوں تو بہت سارے حل تلاش کرنا پڑتے ہیں۔ جب قصور وار کوئی ایک نہیں ہے تو تو بگاڑ کو سدھارنے کی ذمہ داری بھی کسی ایک کی نہیں ہے۔ یہ معاشرہ ہم سب کا ہے، یہ ملک ہم سب کا ہے اور اس کی بہتری کے ذمہ دار بھی ہم سب ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments