#Say No To Bahira Town



کراچی کی علاقے ملیر میں پھر سے بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کی غیرقانونی کارروائیوں کی وجہ سے، وہاں رہنے والے لوگوں کو مصیبت میں مبتلا کر دیا ہے۔ وہ لوگ جن کے ابا و اجداد یہاں کی مٹی میں مدفون ہیں، جن کی جڑیں اس زمین میں پاک ہند بٹوارے سے پہلے کی ہیں، ان کے سر سے چھت چھیننے کے لیے ہر آئے دن بحریہ ٹاؤن کے منتظمین، وہاں کے باسیوں کو طرح طرح سے تنگ کرتے ہیں، اور دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ وہ یہاں سے کسی اور جگہ پہ منتقل ہوجائیں۔

اپنی مفادات کی آڑ میں لوگوں کے سر سے چھت چھیننے کا سوچنے والوں نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ، ہم اپنے لوگوں کو تو ان کے گھروں سے نکالنے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے اپنا رہے ہیں، پر تب بالکل خاموش تھے جب لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کو سندھ کے دارالحکومت کراچی اور دیگر اضلاع میں پناہ دی گئی۔ نہ صرف پناہ دی گئی پر اپنے لوگوں کے منہ سے نوالہ چھین کر ان کے منہ میں ڈالا گیا۔ ان کو سستی رہائشی منصوبے بنا کر نہ صرف گھر تعمیر کر کے دیے گئے، بلکہ ان کو چھوٹا بڑا روزگار بھی مہیا کیا گیا، جس کی وجہ سے وہ یہاں پہ مستقل طور پہ رہائش پذیر ہیں، اور واپس اپنے دیس میں جانے کا نام نہیں لے رہے۔

وفاقی و صوبائی حکومت بھی ہر سال تاریخیں بڑھانے کے علاوہ کچھ نہیں کرتی۔ دوسرے ملک سے آئے ہوئے پناہ گیروں کا اس قدر خیال رکھا جا رہا ہے، پر جو اپنے ہیں، جو اس ملک میں پیدا ہوئے ہیں ان کے ساتھ غیروں والا سلوک کر کے ان کے سر سے چھت بھی چھینی جا رہی ہے، ان کے پاؤں تلے زمین بھی کھسکائی جا رہی ہے، جو کہ قطعی طور پر غلط ہے۔ پر حیرت ہے کہ، پیپلز پارٹی کی حکومت ہوتے ہوئے بھی وہ اپنے قریبی دوست ملک ریاض کے سامنے بے بس ہیں، جو کہ بحریہ ٹاؤن رہائشی اسکیم کا مالک ہے۔

موجودہ حکومت کی سپورٹ کی وجہ سے، ملک ریاض کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ پا رہا، جو کہ لوگوں کو بے گھر کرنے پہ تلا ہوا ہے۔ سندھ ایکشن کمیٹی کی جانب سے چھ جون اتوار کے دن بحریہ ٹاؤن کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان کر دیا گیا ہے، جس میں دیگر سیاسی و سماجی رہنما بھی شامل ہو رہے ہیں۔ دھرنے کا مقصد کسی سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانا نہیں بلکہ صرف یہی ہے کہ سوئے ہوئے حکمرانوں کو جگا کر احساس دلایا جائے کہ، یہاں کے اصل باسیوں کو بے گھر نہ کیا جائے، اور ملک ریاض کو قانون کے دائرے میں لایا جائے، جس نے قانون سے بالاتر ہو کر حکومت کی مدد سے یہ رہائشی اسکیمیں بنا کر، یہاں کے رہائشیوں کو دربدر ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔

ویسے یہ عام فہم کی بات ہے کہ جب فلسطین میں یہودی دھاوا بولتے ہیں، جب کشمیر میں ہندو حکمراں مسلمانوں کے ساتھ نا انصافی کرتے ہیں تو، سب سے پہلے آواز ہم پاکستانیوں کی جانب سے اٹھتی ہے، اور ہم ظلم کے خلاف زبان کھولتے ہیں، پر جب ہماری اپنی دھرتی میں، اپنے ہی شہریوں سے نا انصافی کی ہر حد پار ہو رہی ہے تو ایسے میں خاموش رہنا، کسی جرم سے کم نہیں۔ پاکستان کی عدالت عظمیٰ سپریم کورٹ نے بھی 460 ارب کا جرمانہ لگا کر، ملک ریاض کو اپنی جائیدادیں حلال کرنے کا اجازت نامہ دے دیا ہے، جس پہ ابھی تک سوالیہ نشان ہے۔

ملک ریاض کو سولہ ہزار ایکڑ کی زمین قانونی طور پر سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی تھی، لیکن اس نے اب تک پینتالیس ہزار ایکڑ پر اپنا قبضہ جما دیا ہے، اور قدیمی دیہات کو وہ مسمار کرتا ہوا آ گے جا رہا ہے، اس پر اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ اب جب سندھ ایکشن کمیٹی نے ایکشن لیتے ہوئے اپنی مہم چلا کر بحریہ ٹاؤن کے سامنے لوگوں کو دھرنا دینے کا بولا ہے، تو بھی کیسے طریقے استعمال کر کے اس دھرنے کو روکنے کی پشت پردہ سازشیں کی جا رہی ہیں، جیسے دھرتی کے اصل باسی، ظلم کے خلاف اپنی آواز بھی بلند نک کر سکیں۔ ایسے حالات اگر اپنے ملک میں ہیں، اور لاقانونیت کا راج ہے، تو ہمیں کوئی حق نہیں بنتا کہ فلسطین اور کشمیر کے مظلوموں کے لیے آواز بلند کریں، جب کہ اپنے دیس کے ہی لوگ ظلم و جبر کا شکار ہوں، اور گھروں سے دربدر کیے جا رہے ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments