اسد طور پرتشدد پر اتنا واویلا کیوں؟


پہلے تو کہیں کونے کھدرے میں شک و شبہ تھا مگر اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ ہم کوئی کام مکمل دیانتداری اور امانت داری سے نہیں کرتے، اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہم آزادی کے تہتر سال بعد بھی جس جگہ کھڑے ہیں اس پر شرمندگی ہوتی ہے۔ ویسے تو بے شمار ایسے کارنامے موجود ہیں، لیکن فی الحال ثبوت کے لئے چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔ پیشگی معذرت کے ساتھ، میرا مقصد ہرگز کسی ادارے کی تضحیک نہیں مگر افسوس ان کی کارکردگی کی وجہ سے نہ صرف عام آدمی کی زندگی اجیرن بن چکی ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ہماری ساکھ بری طرح مجروح ہوئی ہے۔

اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ان اداروں میں اچھے لوگ بھی ہوں گے مگر مجموعی طور اتنا بگاڑ پیدا ہو چکا ہے کہ ایسے لوگوں کو آگے بڑھنے کا موقع نہیں ملتا۔ میں اس بات سے واقف ہوں کہ بعض اوقات ہمیں کچھ کام مصلحتاً کرنا پڑتے ہیں جن سے قومی سلامتی یا مفادات وابستہ ہوں مگر یہاں بدقسمتی یہ ہے کہ ایسے کاموں سے قومی یا مشترکہ مفادات کی بجائے چند لوگ فائدے حاصل کر لیتے ہیں اور بدنامی مجموعی طور پر لاگو ہوتی ہے۔

درج ذیل واقعات کو اگر آپ غیر جانبدارانہ نظر سے دیکھیں اور فیصلہ کریں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان کی لائیو کالز میں عائشہ مظہر نامی ایک خاتون نے انصاف کے لئے کال کی۔ اس سے پیشتر ان کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا واقعہ سنیں، کس طرح سے انہوں نے دو سال تک کیسے کیسے حالات کا سامنا کیا تو (اگر آپ کے سینے میں دل ہے ) میری طرح آپ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہوسکتے ہیں۔ دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے توہین رسالت کے مبینہ کیس میں سزائے موت کی قیدی شگفتہ اور اس کے شوہر کی سات سال کے بعد کیس کی اپیل اور فیصلہ سن کر جہاں خوشی ہوئی وہیں حیرانی بھی ہوئی کہ کیوں سات سال تک عدالت میں دائر اپیل سماعت کے لئے مقرر نہ ہو سکی۔

مگر قدرت کا کرشمہ دیکھئے اب کیسا جادو ہوا کہ چند ہفتوں کے دوران نہ صرف عدالت نے اپیل سماعت کے لئے مقرر کی بلکہ میاں بیوی کو الزامات سے بری کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔ کچھ ایسی ہی کہانی آسیہ بی بی کی ہے۔ آپ مذہبی جذبات کو ایک طرف رکھ کر سوچیں کہ عائشہ مظہر اور اس کی بیوہ ماں کے دو سال کی کہانی اتنی تکلیف دہ ہے اور آسیہ بی بی، شگفتہ امانت اور اس کے شوہر کے دس سال کس اذیت میں گزرے ہوں گے ، جب موت کی تلوار ان کے سر پر لٹک رہی تھی اور ان کے خاندان کس حال میں ہوں گے ۔

ظفر نامی ایسا ہی ایک قیدی اڈیالہ جیل میں مبینہ طور توہین رسالت کے جرم میں 2012 ء سے بے یارو مددگار موجود ہے۔ اس کے علاوہ ان گنت کیس ایسے ہیں جن کے پیچھے ظلم و زیادتی کی کئی داستانیں رقم کی گئی ہیں۔ جہاں اختیارات کے ناجائز استعمال، نجی عقوبت خانوں سے لے کر اور عدالتی نا انصافیوں کا شکار کروڑوں افراد روزانہ کی بنیاد جیتے اور مرتے ہیں۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی کیونکہ اقربا پروری، بے انصافی اور ظلم و ستم کی داستانیں صرف سرکاری اداروں میں ہی نہیں بلکہ غیر سرکاری اداروں میں بھی ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔

جہاں کیس کی نسبت فیس Face کو اہمیت دی جاتی ہے۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں یوٹیوبر اسد علی طور پر مبینہ تشدد کے بعد نیشنل پریس کلب کے باہر ہونے والے مظاہرے میں معروف صحافی، اینکر حامد میر کی تقریر کے بعد صحافتی تنظیموں میں اس کی حمایت یا مخالفت میں ایک مہم جاری ہے۔ اب بات صرف اسد طور پر ہونے والے تشدد تک محدود نہیں بلکہ حامد میر کے شو کو بحال کروانے اور خفیہ اداروں کے مخالف بیانات کی وجہ سے آگے نکل چکی ہے۔

آئے روز ہونے والے مظاہروں میں حامد میر کی حمایت یا مخالفت میں بیان بازی کرنے والوں کے پاس اپنے اپنے دلائل موجود ہیں۔ بطور صحافی ان مظاہروں میں شرکت کے لئے مجھے بھی دعوت موصول ہوتی ہے بلکہ مظہر اقبال صاحب نے تو مظاہرے کرنے کا دعوت نامہ واٹس ایپ کرنے کے بعد گلہ کیا کہ آپ نے میرا پیغام دیکھنے کے بعد ریسپانس نہیں دیا۔ بات دراصل یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے سرعام ہونے کے بعد صحافت کے شعبے کو ایسے چیلنجز کا سامنا ہے جو شاید اس سے پہلے نہیں تھا۔

صحافت اور سیاست دو الگ پیشے ہیں اور میرے لیے ابھی تک یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ حامد میر کے مخالف مظاہروں میں شرکت کروں یا اس کے حق میں کھڑے ہونا چاہیے۔ اگر بات صحافیوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی کی ہو تو میرے ان ساتھیوں کو میرے ساتھ ہونے والے واقعے میں بھی میرے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے تھا۔ مگر میرے اغوا اور زیادتی کے واقعے کا ذکر سوائے اکرام بخاری صاحب کے کسی نے اپنی تقریر میں نہیں کیا۔ گزشتہ دنوں ڈی چوک میں ہونے والے ایک مظاہرے میں صرف اکرام بخاری نے اپنی تقریر میں یہ بات کی کہ صحافیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی میں ہمیں ایک صفحے پر ہونا چاہیے، حامد میر اینڈ کمپنی نے دیگر صحافیوں کے ساتھ ہونے والے واقعات پر مظاہرے نہیں کیے۔

صرف اسد طور پر ہونے والے تشدد پر اتنا سیخ پا ہونے کی کیا وجہ ہے۔ اسی مظاہرے پر مطیع اللہ جان نے اپنے وی لاگ میں کئی سوالات کھڑے کر دیے اور دبے الفاظ میں اسپانسرڈ قرار دیا۔ یہاں پر میرا اعتراض ہے کیونکہ صحافت اور مارکیٹنگ دو الگ پیشے ہیں۔ جب آپ بطور صحافی کوئی ایسا کام کرتے ہیں جس سے عوام میں یہ تاثر جائے کہ یہ اسپانسرڈ مواد ہے تو میری نظر میں صحافتی پیشہ وارانہ خیانت اور بددیانتی ہے۔ لیکن کیا کریں بعض لوگوں کے نزدیک یہ عجیب نہیں۔

میری نظر میں ہم نے اجتماعی فائدے کو چھوڑ کر انفرادی فوائد کو زیادہ اہمیت دینا شروع کردی ہے۔ یہاں کیس سے زیادہ فیس کی اہمیت بن گئی ہے اور سیلیبریٹیز کو بطور برانڈنگ اور مارکیٹنگ کے طور استعمال کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب ہمارے اداروں کی کارکردگی بھی مشکوک ہے۔ بہت سے کیسز کو جان بوجھ کر پس پشت ڈال دیا جاتا ہے اور بعض کیسز میں پھرتیاں دیدنی ہوتی ہیں۔ ایسا ہی نظام عدالتوں میں نظر آتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے جہاں معاملہ عائشہ مظہر کا ہو یا اسد طور پر تشدد کا جدید ٹیکنالوجی کے ہوتے ہوئے تحقیقاتی اداروں کا کام صاف، شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرنا ہے۔ تاکہ پاکستان میں بسنے والا کوئی شہری احساس محرومی کا شکار نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments