پاکستان :افغان گہرائی یا کھائی


افغان گہرائی پاکستان کے لئے کھائی بن گئی تھی یہ ایسا مردہ گھوڑا ہے جسے دوبارہ زندہ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ انہوں نے افغانستان میں تزویراتی گہرائی (اسٹریٹجک ڈیپتھ) کی عشروں پرانی پالیسی بدل دی، پاکستان کو افغان عوام کی منتخب کردہ حکومت سے معاملات طے کرنے چاہئیں۔

رائٹرز کو انٹرویو میں وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان کو افغان عوام کی منتخب کردہ حکومت سے معاملات کرنے چاہئیں، اپنی پسند کی افغان حکومت کی خواہش نہیں رکھنی چاہیے، انخلا کے بعد افغان خانہ جنگی کی صورت میں پاکستان پر مسئلے میں شامل ہونے کا دباؤ بڑھے گا۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ غیر ملکی افواج کے مکمل انخلاء سے قبل افغانستان کا مسئلہ حل کیا جانا چاہیے، افغانستان کو خانہ جنگی سے بچانا ناگزیر ہے، پاکستان افغان مسئلے کے سیاسی حل کا خواہاں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکی افواج کے انخلا کو طالبان اپنی فتح سمجھ رہے ہیں، افغانستان کا مسئلہ مزید الجھ گیا یا خانہ جنگی کی طرف گیا تو سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہوگا، اس امکان کے حوالے سے پاکستان میں تشویش پائی جاتی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نہایت اعتماد سے دعوی کر رہے ہیں کہ انہوں نے افغانستان میں اسٹریٹجک گہرائی ڈھونڈنے کی عشروں پرانی حکمت عملی بدل دی ہے،

حقیقت یہ ہے کہ یہ سابق وزیر اعظم نواز شریف تھے جنہوں نے افغانستان میں گہرائیاں ڈھونڈنے کے فلسفے کے اوہام باطل اور ابہام ناقص کو ترک کرنے کا اعلان کیا تھا

اب کامل ایک دہائی، 10 برس گزرنے کے بعد افغان پالیسی بدلنے کا دعوی لے کر ہمارے کپتان خان میدان میں اترے ہیں

جناب عمران خان کا یہ دعوی غلط معلومات افغان مسلے کے ناقص ادراک پر مبنی ہے غالباً دفتر خارجہ کے بابوؤں نے ملتانی پیر تسمہ پا کے اشارے پر جو الٹی سیدھی بریفنگ جناب عمران خان کو پیش کی وہ انہوں نے نہایت اعتماد سے رائٹرز کے نمائندے کو بتا دی جن کا اصل حقائق سے کوئی تعلق واسطہ نہیں تھا

جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ کوئی بھی افغانستان میں پاکستان کی سٹرٹیجک گہرائی کے نام نہاد نظریے کو  تسلم نہیں کرتا اور ہم اس مردے گھوڑے کو زندہ کرنے کی کسی کو اجازت نہ دیں

افغانستان کے معاملے کے پہلووں کو درست تناظر، افغان معاشرے کے مختلف طبقات کی آراء کو سمجھا جائے اور تبادلہ خیال سے ہم آہنگی کو بہتر بنایا جائے

افغانستان اور پاکستان دو ایسے بھائی ہیں جن میں برادرانہ تعلقات صدیوں پر محیط ہیں
دونوں ممالک کے عوام جغرافیے، تاریخ، عقیدے، خونی رشتوں اور لسانی و ثقافتی رشتوں میں بندھے ہیں
اس خطے یا دنیا میں کوئی اور ایسے ممالک نہیں جن میں اتنی زیادہ قدریں مشترک ہوں
روزنامہ ایکسپریس کے انہیں صفحات پر 21 ‎دسمبر 2013 کو بزرگ دانشور اور کالم نگار ڈاکٹر توصیف احمد خان نے افغانستان اور تزویراتی گہرائی کا نظریہ کے عنوان سے شائع ہونے والے کالم میں بتایا تھا کہ

وزیر اعظم نواز شریف نے افغانستان میں تزویراتی گہرائی Strategic Depth کی پالیسی کو ترک کر دیا ہے۔ کیا راحیل شریف بھی منتخب وزیر اعظم کی پالیسی پر عمل پیرا ہو سکیں گے؟

ڈاکٹر توصیف احمد خان نے یہ بھی لکھا تھا کہ پاکستان بظاہر امریکا کا اتحادی بنا ہوا تھا لیکن طالبان کی سرپرستی جاری رکھی، انہوں نے افغان دانشوروں کے حوالے سے دعوی کیا تھا کہ افغانستان میں یہ بات عام ہوئی کہ پاکستان طالبان کے ذریعے افغانستان کو پانچواں صوبہ بنانا چاہتا ہے مگر اب وزیر اعظم نواز شریف نے تزویراتی گہرائی کی پالیسی کے خاتمے کا اعلان کیا اور افغانستان میں عدم مداخلت کا نظریہ اپنایا

2014 میں بھی افغانستان سے نیٹو اور امریکی افواج واپس جا نے کے خوش کن اعلانات ہوئے تھے جن پر عمل درآمد نہیں ہو سکا تھا اب تو 2021 میں انخلا کی تیاریاں حتمی مرحلے میں داخل ہو چکی ہیں با گرام اور شنداد کے فوجی ہوائی اڈے خالی کیے جا رہے ہیں اربوں ڈالر کا ساز و سامان تباہ کیا جا رہا ہے یا پھر کابل انتظامیہ کے سپرد کیا جا رہا ہے

”پاکستان کو افغان عوام کی منتخب کردہ حکومت سے معاملات طے کرنے چاہئیں، اور کابل کی منتخب حکومت کے مستقبل کا میدان جنگ میں برسرپیکار طالبان کریں گے ”
یہ فکری اور نظری تضادات ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا

رائٹرز کو انٹرویو میں وزیر اعظم نے کہا کہ افغان خانہ جنگی کی صورت میں پاکستان پر مسئلے میں شامل ہونے کا دباؤ بڑھے گا۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ افغانستان میں خانہ جنگی کی صورت میں افغانستان کے بعد سب سے زیادہ متاثر فریق پاکستان ہوگا۔ عمران خان کہتے ہیں کہ امریکی انخلاء کی تاریخ کے اعلان سے افغان طالبان سمجھنے لگے ہیں کہ وہ جنگ جیت گئے ہیں، امریکی انخلاء کے بعد افغان طالبان سے مصالحت آسان نہیں ہوگی

یہ ظاہر باہر اور واضح ہو چکا ہے کہ اگر افغان مستقبل کا فیصلہ مذاکرات کی میز پر نہ کیا جا سکا تو بندوق کی زبان سے گفتگو ہو گی جس میں طالبان کی مہارت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اگرچہ انہیں فضائی مدد حاصل نہیں ہو گی لیکن اس کے باوجود میدان جنگ میں ان کا پلڑا بھاری رہے گا

افغان دانشوروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی قبائلی علاقوں کی خود مختار حیثیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ فاٹا میں ہزاروں سال سے مختلف قومیں آباد ہیں، اگر فاٹا کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے جب کہ فاٹا کو اب وفاق پاکستان میں ضم کیا جا چکا ہے

اس طرح کے بے بنیاد دعوی پاکستان کے اندرونی معاملات میں صریحاً مداخلت ہیں
یہ بھی تلخ حقائق ہیں کہ قیام پاکستان کے موقع پر افغانستان نے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں پاکستان کے خلاف ووٹ دیا، ڈیورنڈ لائن کو ختم نہیں کیا اور پختونستان کا نعرہ لگایا تھا لیکن یہ تضاد بھی جاری رہا کہ ڈیورنڈ لائن نے پختونوں کو تقسیم کیا، اب افغان دانشور اس بات پر خاص طور زور دے رہے کہ افغانستان کی آزاد حیثیت کو عملی طور پر تسلیم کیا جائے صرف برابری کی بنا پر بات چیت سے مسائل حل جا سکتے ہیں

ان کا مخاطب پاکستان ہوتا ہے جبکہ الجھے ہوئے ان افغان مسائل کا اصل فریق پاکستان نہیں میدان جنگ میں یلغار کرتے طالبان عالی شان ہیں جن کی طرف منہ موڑنا کسی افغان کے بس کا روگ نہیں جبکہ پاکستانی دفاعی مبصر ین زور دیتے ہیں کہ ڈیورنڈ لائن پاکستان اور افغانستان کے درمیان حقیقی سرحد ہے، اس سرحد کو نظر انداز کر کے امن قائم نہیں ہو سکتا۔

یہ خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا سے خطہ عدم توازن کا شکار ہو گا، اگر نیٹو افواج کی واپسی کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی ہوئی تو بلوچستان اور کے پی کے میں ایک بار پھر مہاجرین کی یلغار ہو جائے گی جس میں نہ صرف امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو گا بلکہ دونوں صوبوں کی معیشت بھی متاثر ہو گی۔

پاکستان افغانستان سمیت کسی بھی پڑوسی ملک میں مداخلت کے حق میں نہیں ہے اس نازک معاملے پر جمہوری اور عسکری قیادت میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے

افغانستان کے عوام اپنے ملک میں پاکستان اور بھارت کی پراکسی وار کے حق میں نہیں ہے، اس جنگ نے افغانستان کے عوام کو نقصان پہنچایا ہے۔ افغانستان، بھارت اور پاکستان دونوں سے خوشگوار تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ غلط مفروضے کی بنیاد پر بننے والی پالیسی دیرپا ثابت نہیں ہو سکتی اور غیر فطری چیزوں کو ختم ہی ہونا ہوتا ہے۔

افغانستان میں امن سے پاکستان سمیت خطے میں امن قائم ہو سکتا ہے اور مستقل امن کے لیے عسکری مقتدرہ کی تزویراتی گہرائی کی پالیسی کو تبدیل کرنا وقت کی ضرورت تھا۔ پاکستان کو نئے افغانستان کی صورتحال کے مطابق پالیسی تیار کرنا ہو گی۔ اس طرح افغانستان میں امن قائم ہوا تو اس کا فائدہ براہ راست پاکستان کو ہو گا۔

پاکستان کے براستہ افغانستان وسطی ایشیائی ممالک تک رابطے کے راستے کھل جائیں گے یوں ان ممالک کے درمیان گیس اور تیل کی درآمد کے لیے پائپ لائن کی تنصیب کی خواہش عملی شکل اختیار کر سکے گی۔ اس طرح پاکستان ان ممالک سے فوری طور پر بجلی حاصل کر کے بجلی کے بحران کو ختم کر سکتا ہے، پھر افغانستان میں امن سے بلوچستان میں بھی سکون ہو گا

گوادر سے وسطی ایشیائی ممالک تک ریل اور سڑک کے قیام کے منصوبے پر عمل درآمد ممکن ہو سکے گا، خطے میں ترقی اور خوشحالی کا نیا دور شروع ہو گا۔

تاریخی و حقائق اور قدیم چرمی نسخے بتاتے ہیں۔ افغانستان اور پاکستان کی ہزاروں سال کی تاریخ شاہد ہے کہ افغانستان سے آنے والے حملہ آوروں نے ہندوستان پر حکومت کی، یوں یہ لوگ ہمارے معاشرے میں رچ گئے، پاکستان کے قیام کے بعد اردو بولنے والی اشرافیہ نے پنجابیوں، پختونوں اور بلوچوں کے حقوق غصب کیے۔ افغانستان کی حکومتوں نے صرف پختونوں اور بلوچوں کے حقوق کی حمایت کی پنجابیوں کو فراموش کر دیا اور پھر اردو بولنے والی اسٹیبلشمنٹ نے افغانستان پر بالادستی کی پالیسی اختیار کی،

پاکستان بظاہر امریکا کا اتحادی بنا رہا لیکن وسیع تر قومی مفاد میں طالبان کی سرپرستی بھی جاری رکھی،

افغانستان میں یہ بات عام ہے کہ پاکستان طالبان کے ذریعے افغانستان کو پانچواں صوبہ بنانا چاہتا ہے اب وزیر اعظم عمران خان نے نے تزویراتی گہرائی کی افغان پالیسی کے خاتمے کا دوبارہ اعلان کیا ہے اور افغانستان میں عدم مداخلت کا نظریہ اپنا لیا ہے

اب افغانستان سے نیٹو افواج واپس جا رہی ہیں تو پھر ایک مستحکم افغانستان کا سوال اہم ہو گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ پرانے زمانوں میں آسمان سے جو بلا اترتی تھی انوری کے گھر کا پتہ پوچھتی تھی۔ انوری فارسی کا قادر الکلام شاعر تھا اس بچارے کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے عالم بالا کی سخن فہمی کا منتر سیکھ لیا تھا۔ انوری تو بہت پہلے سپرد خاک ہوئے لیکن ان کے جانے کے بعد آسمان سے جو بلائیں اب اترتی ہیں وہ انوری کی بجائے اب پاکستان کا نام الاپتی نمودار ہوتی ہیں۔

یار عزیز معجزہ بیان شاعر شعیب بن عزیز کیا خوب کہا تھا
سب جسے دیکھتے ہیں وحشت میں،
یہ میری آستیں سے نکلا ہے۔
مہا دانشور جناب وجاہت مسعود نے مدتوں پہلے تزویراتی گہرائی کی تاریخ بیان کرتے ہوئے لکھا تھا

”تزویراتی گہرائی کا لفظ کمیونسٹ جرنیل مارشل زخوف نے 1941 میں ایجاد کیا تھا۔ مارشل صاحب کامریڈ سٹالن کو سمجھاتے تھے کہ جرمن فوجوں کو آگے بڑھنے دیا جائے ماسکو اور برلن میں چار ہزار میل کا فاصلہ ہے یہ علاقہ سوویت یونین کا اپنا ہے۔ ہم سب فصلیں جلا دیں گے۔ قابل استعمال عمارتیں منہدم کر دیں گے اس اجاڑ ویرانے میں جرمن فوج کو آگے آنے دیا جائے موسم سرما شروع ہو گا تو اپنے مرکز سے چار ہزار میل دور جرمن فوجی بارش، کیچڑ اور کئی فٹ گہری برف میں مارے جائیں گے ہم انہیں گھیرے میں لے کر ماریں گے یہ آزمودہ فارمولا کامیاب رہا ناقابل شکست جرمن فوج اور لینن گراڈ اور ماسکو کے برف زاروں میں ٹھٹھر کر ماری گئی تھی جبکہ افغان گہرائی تو پاکستان کے لئے کھائی بن گئی تھی جس سے بعد از خرابی بسیار عمران خان نے جان چھڑا لی

اسلم خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اسلم خان

محمد اسلم خاں گذشتہ تین دہائیوں سے عملی صحافت کے مختلف شعبوں سے منسلک رہے ہیں اب مدتوں سے کالم نگار ی کر رہے ہیں تحقیقاتی ربورٹنگ اور نیوز روم میں جناب عباس اطہر (شاہ جی) سے تلمیذ کیا

aslam-khan has 57 posts and counting.See all posts by aslam-khan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments