پاکستان میں شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنے فرقے کے متعلق کس طرح کی باتیں سُننا پڑتی ہیں؟

سحر بلوچ - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


’شعیہ کیا گھوڑے کی پوجا کرتے ہیں؟‘ ’کیا حلیم میں سنّی بچوں کا گوشت ملا ہوتا ہے؟‘ ’کیا تم لوگ سبیل کے پانی میں تُھوکتے ہو؟‘ ’یار، بُرا نہ ماننا لیکن ٹیچر کہہ رہی ہیں کہ تمہیں پہلا کلمہ پورا نہیں آتا۔ ذرا سُنا دو گی؟‘

یہ وہ تمام باتیں ہیں جو شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والی خواتین نے انٹرویوز کے دوران بی بی سی کو بتائیں۔

پاکستان میں شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والے بہت سے بچے اُس طرح کے سوالات اور باتیں سُنتے ہوئے بڑے ہوتے ہیں۔ اور کچھ کے لیے یہ سلسلہ بڑے ہونے کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔

شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والے مسلمان پاکستان کی آبادی کا تقریباً 20 فیصد حصّہ ہیں اور یہ لوگ اکثر خود کو حملوں اور توہینِ مذہب جیسے الزامات میں گھرا ہوا پاتے ہیں۔

رواں سال جنوری اور گذشتہ سال یعنی 2020 میں کئی ایسے واقعات پیش آئے ہیں جہاں کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد نے کھلِ عام شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف مظاہرے کیے۔ اس قسم کے زیادہ تر مظاہرے کراچی، کوئٹہ اور پنجاب کے کچھ علاقوں میں دیکھنے میں آئے۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کے ایک اندازے کے مطابق 2001 سے لے کر آج تک پاکستان میں 2600 شیعہ افراد مختلف حملوں اور ٹارگٹ گلنگ میں ہلاک ہوئے ہیں۔ انسانی حقوق کے اداروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان حملوں کی ایک بڑی وجہ اس کمیونٹی کے خلاف نفرت آمیز مواد اور دقیانوسی خیالات ہیں جو معاشرے کے ایک طبقے میں رائج ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق دستیاب نفرت آمیز مواد اُن حملوں کا جواز بتائی جاتی ہیں جو اس کمیونٹی کی مساجد اور لوگوں پر کالعدم تنظیموں یا دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے کیے جاتے ہیں۔

شیعہ

اسی لیے ہم نے چند خواتین سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ اُن کے لیے پاکستان میں بطورِ شیعہ مسلم بڑا ہونا کیسا رہا؟

ان میں سے بیشتر کا تجربہ مختلف رہا ہے۔ کسی کو دوست اچھے ملے، کسی کو رشتہ دار یا پھر کسی سے گھر والوں نے قطع تعلق صرف اس بات پر کر لیا کیونکہ انھوں نے اپنے فرقے سے باہر شادی کی۔ لیکن ایک لفظ جو ان سب نے مشترکہ طور پر بچپن میں یا بڑے ہونے کے بعد سُنا ہے، وہ ہے ’کافر‘۔

حِرا زینب کا بچپن کراچی، لاہور اور گوجرانوالہ میں گزرا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ جب وہ دوسری جماعت میں تھیں تب ہی اُن سے ان کے عقیدے کے متعلق سوال ہونا شروع ہو گئے تھے۔

’مجھ سے بچپن میں میری دوست نے پوچھا کہ کیا تم لوگ گھوڑے کی پوجا کرتے ہو؟ اس وقت میرے پاس جواب نہیں تھا۔ لیکن پہلی بار یہ احساس ہوا تھا کہ میں شاید باقی لوگوں سے مختلف ہوں۔ ہچکچاہٹ تو نہیں لیکن تھوڑا سا عجیب لگتا تھا، اتنی ذاتی بات کسی کو بتاتے ہوئے کہ میری شناخت کیا ہے۔‘

اسی طرح بینش عباس زیدی صحافی ہیں اور کراچی کی رہائشی بھی۔ ان کے لیے کراچی میں بڑا ہونا مشکل نہیں تھا۔ بینش کے لیے مشکل مرحلہ بڑے ہونے کے بعد شروع ہوا۔

’بچپن میں تو یہ تفریق پتا ہی نہیں تھی۔ 1990 کی دہائی میں ہمارے برابر والے گھر میں سُنّی لوگ رہتے تھے۔ وہ بھی اس لیے پتا چلا کیونکہ وہ نذر یا نیاز نہیں کھاتے تھے۔ لیکن جب میری امّی شدید بیمار ہوئیں، تو سب سے پہلے اُنھیں کے گھر سے کھانا آیا اور مدد کی گئی۔‘

’اب بڑے ہونے کے بعد یہ ہوا کہ میں نے اپنی پسند سے شادی کی، اور مسلک پوچھے بغیر کی۔ مجھے اپنے گھر والوں کو منانا بھی نہیں پڑا۔ لیکن اب میرے گھر والے مجھ سے بات نہیں کرتے کیونکہ میں نے سنّی لڑکے سے شادی کی ہے۔ اور اب یہ حال ہے کہ میری چھوٹی بیٹی اپنے نانا اور نانی کو نہیں جانتی۔ جبکہ میرے شوہر کے گھر والوں نے میرا بہت خیال رکھا ہے۔‘

بینش نے کہا کہ انھیں 2015 میں گھر ڈھونڈنے کے دوران کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ’میں جہاں بھی فون پر بتاتی تھی کہ میری شناخت کیا ہے۔ تو مجھے کہا جاتا تھا کہ نہیں آپ کو گھر نہیں دے سکتے کیونکہ آپ لوگ مجلس کریں گے۔‘

یہ بھی پڑھیے

محمد حنیف کا کالم: کافر کافر کی واپسی

وہ کراچی جہاں سبیل کا شربت صرف میٹھا ہوتا تھا، شیعہ یا سنّی نہیں

پاکستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی: ’حکومت کو شاید ابھی تک احساس نہیں کہ معاملات کتنے سنگین ہیں‘

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی اٹھارہ سالہ مرضیہ صالحی سے جب بات کی گئی تو انھوں نے بتایا کہ ’میرا بچپن یہ پوچھتے ہوئے گزرا ہے کہ آج کتنے لوگوں کو مارا گیا ہے؟ اور جس دن نہیں مارا جاتا تھا تو وہ دن سکون سے گزر جاتا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ 2011 کے حملوں کے بعد ان کے دوست ان سے ملنا کم کر چکے تھے۔ ’میں جہاں بھی جاتی تھی مجھے خود پر نظریں جمی ہوئی محسوس ہوتی تھیں۔ مجھے کہا گیا کہ آپ کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے کیونکہ آپ کی وجہ سے ہم بھی نشانہ بنیں گے۔‘

لاہور سے تعلق رکھنے والی لکھاری عروج علی نے بتایا کہ انھوں نے اپنے بڑوں سے سُنا ہے کہ پہلے زمانے میں حالات بہت اچھے تھے۔ ’ہمیں بتایا جاتا ہے کہ لوگ موچی دروازے اور لاہور کے دیگر مقامات پر مل جل کر عاشورہ اور محرم کے لیے تیاریاں کیا کرتے تھے۔‘

ان اچھے حالات کا حوالہ کئی جگہوں پر کئی لوگوں نے دیا ہے۔

اگر مان لیا جائے کہ حالات اچھے تھے، تو خرابی کب پیدا ہوئی؟

پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پِیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا نے بتایا کہ ماضی میں بیشک پاکستان میں سماجی ہم آہنگی رہی ہے لیکن کچھ بڑے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں جن کے نتیجے میں اُس وقت مسلک پرستی اور نفرت آمیز گفتگو کو فروغ ملا۔

’1963 میں خیرپور کے ٹھیڑی گاؤں میں ہونے والے فسادات سب کے سامنے ہیں۔ انگریزوں کے برِصغیر سے جانے اور تقسیم کے بعد دونوں فرقوں کے درمیان حالات اتنے اچھے نہیں رہے ہیں۔ وقتاً فوقتاً ٹینشن رہی ہے خاص طور سے عاشورہ اور دیگر مواقعوں پر صورتحال کشیدہ ہوتی رہی ہے چاہے پاکستان میں ہو یا خطے کے دیگر علاقوں میں جس کا اثر یہاں بھی محسوس کیا گیا ہے۔‘

صحافی اور محقق خالد احمد نے 2007 میں امریکہ کے وِلسن سینٹر میں منعقد کیے گئے ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے ایک پروگرام میں ایک لیکچر کے دوران پاکستان میں فرقہ واریت اور اس سے جڑے حالات کو کچھ یوں بیان کیا تھا۔ ’پاکستانی اپنے ملک میں جاری فرقہ وارانہ واقعات کی حقیقت کو ماننے سے انکاری ہیں۔ لیکن پاکستان کی قومی شناخت کے کچھ اسباب متنازع ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’پاکستان بنیادی طور پر فرقہ پرست ملک نہیں ہے۔ پاکستان میں شیعہ اور سنّی ایک دوسرے سے نفرت نہیں کرتے۔ اور اب تک جتنے بھی فسادات ہوئے ہیں وہ کچھ شہروں کے مخصوص حصوں تک محدود رہے ہیں جیسا کہ کراچی، کوئٹہ، اور پنجاب اور خیبر پختونخوا کے کچھ علاقے۔‘

ان سے جب سوال کیا گیا کہ پھر فرقہ پرستی پر یقین نہ رکھنے والا ملک فرقہ واریت اور اس کے نتیجے میں ہونے والے فسادات کا حصّہ کیسے بنا؟ تو انھوں نے اس کے جواب میں کہا کہ ‘جب پاکستان مشرقِ وسطیٰ میں ہونے والی فرقہ وارانہ جنگ کے لیے ایک الگ ’میدانِ جنگ‘ کے مقام کے طور پر استعمال ہونا شروع ہوا۔

پاکستان

خالد احمد نے اپنے لیکچر کے دوران کہا کہ 1947 کے بعد پاکستانی رہنما جن شخصیات کو مثالی گردانتے رہے وہ ناصرف ہندو مخالف تھے بلکہ شیعہ مخالف بھی تھے۔ ’ایسے لوگوں کی قومی سطح پر پذیرائی کی گئی جو فرقہ وارانہ سوچ کے حامی تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ 1979 کے ایرانی انقلاب سے پہلے پاکستان میں رہنے والے شیعہ ایران کے انقلابی اور شدت پسند نظریے پر کسی قسم کے ردعمل کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ ’بلکہ زیادہ تر شیعہ عالم عراق کے شہر نجف میں تعلیم حاصل کرنے کو ترجیح دیتے تھے اور اس کے نتیجے میں ان کے خیالات اور رائے ایران کے آیت اللہ خمینی کے نظریات سے خاصے مختلف تھے۔‘

خالد احمد نے کہا کہ ’معاملات تب بگڑے جب ایران کا انقلاب پاکستان میں چند افراد کے لیے مشعلِ راہ بنا۔ اور خطے میں سعودی عرب اور ایران کی فرقہ وارانہ سیاست اور فسادات کے نتیجے میں پاکستان کو بارہا بطوِر ’میدانِ جنگ‘ استعمال کیا جاتا رہا۔ اور یہ فرقہ وارانہ فسادات ایک ’مسلط کی گئی جنگ‘ کا نتیجہ ہیں۔‘

اس سوچ اور اس کے نتیجے میں ہونے والے فساد کے بارے میں کراچی کی رہائشی اور بلاگر کلثوم زینب نے کہا کہ ’کبھی دوستوں کے ساتھ مذاق میں، میں بھی کہہ دیتی ہوں کہ ’کافر، کافر، شیعہ کافر‘ لیکن سچ یہ ہے کہ یہ سُننا اچھا نہیں لگتا۔ مجھے پتا ہے کہ اس کا ہماری ذات اور ہمارے وجود پر کتنا گہرا اثر پڑ سکتا ہے۔‘

کلثوم نے کہا کہ ’ہم صدیوں پرانی جنگ اور خیالات کو ایک دن یا ایک بلاگ لکھ کر ختم نہیں کر سکتے لیکن بات چیت کر سکتے ہیں۔ ہم سے سوال پوچھیں لیکن ہمارے جواب سمجھنے کی کوشش بھی کریں۔‘

مزید پڑھیے

جنرل ضیا کی واپسی

شیعہ مراجع کون ہیں اور ان کی اہمیت کیا ہے

’زیارت کرنے جاؤ تو واپسی پر ایجنسیاں اٹھا لیتی ہیں‘

حِرا زینب نے کہا کہ ’میرے زیادہ تر دوست سّنی ہیں اور ہم اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ کس کا مذہب اور فرقہ کیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ریاست آپ کو کہہ دے گی کہ انھوں نے کئی ہزار نفرت سے لیس کتابوں کو جلا دیا ہے۔ ’لیکن آپ ذہنیت اور نظریے کو نہیں جلا یا تباہ کر سکتے۔ اس پر بات چیت کرنے سے ہی کچھ ہو سکے گا۔‘

جبکہ مرضیہ نے کہا کہ ’اتنا کچھ ہونے کے باوجود ہم اب بھی کہتے ہیں کہ آئیں اور بات کریں۔ طالب بن کر سوچیں نہ کہ طالبان بن کر۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp