مجھے پارٹنرشپ چاہیے، شادی نہیں


دیگر انسان دنیا میں چاہے جو بھی کرنے آئے ہوں، ہم دیسی بس شادی کرنے آئے ہیں۔ ہمیں شادی سے کچھ ایسی ہی محبت ہے۔ چاہے اپنی ہو یا کسی دوسرے کی۔ پہلے اپنی شادی کا شوق ہوتا ہے، وہ ہو جائے تو دوسروں کی شادی کا شوق چڑھ جاتا ہے۔

شادی کے فوراً بعد بچے کا پیدا ہونا بھی ضروری ہے ورنہ ایک اور شادی کرنی پڑ جاتی ہے کہ بچے تو زندگی کے لیے ضروری ہوتے ہیں نا، چاہے اسی بچے کو پانچ سال بعد کسی شرارت پر بری طرح پیٹا جا رہا ہو۔

بچے کی پیدائش کے ساتھ اس کی شادی کی منصوبہ بندی بھی شروع ہو جاتی ہے۔ لڑکے کی صورت میں معاملہ تھوڑا ایزی ہوتا ہے۔ شادی کے لیے بس لڑکے کا ہونا ضروری ہے۔ جیسا بھی ہو، بس ہو۔ ان کی سوچ لڑکی والوں سے شادی کے موقع پر کیا لینا ہے، بارے میں ہوتی ہے۔

دوسری طرف جن کے ہاں بیٹی پیدا ہو وہ ایک دم میچور ہو جاتے ہیں۔ پہلے جو پیسے اڑایا کرتے تھے اب پیسے بچانے کا سوچتے ہیں۔ اگلے پچیس سال کا بجٹ بناتے ہیں۔ اچھا رشتہ ڈھونڈنا تو پچیس سال بعد کی پریشانی ہے۔ اس وقت کی پریشانی اس رشتے کو شادی کے بعد بھی اچھا رکھنے کے لیے جہیز کی تیاری کی ہوتی ہے۔ وقت سے پیسے بچا کر بیٹی کے جہیز کے لیے کچھ چیزیں بنا لی جائیں تو اپنی ہی آسانی ہوتی ہے، ورنہ جہیز ایک لعنت ہے پر ہمیشہ سے مضمون لکھے جاتے رہے ہیں۔ حقیقی دنیا میں جہیز پر لعنت اکا دکا لوگ ہی بھیجتے ہیں۔

خیر، ہم کہاں سے کہاں نکل گئے۔ شادی کی بات ہو رہی تھی۔ اسی پر واپس آتے ہیں۔ ہمارا ہر کام شادی کے گرد گھومتا ہے۔ بچہ پڑھائی سے بھاگ رہا ہو تو اسے شادی کا لالچ دے کر ہی پڑھائی پر واپس لایا جاتا ہے۔ پڑھ لے، ڈگری لے لے، کچھ بن جا، ورنہ تجھے کون رشتہ دے گا۔

لڑکیوں کو بھی یہی ریڈیو سنایا جاتا ہے۔ زیادہ نہ پڑھو ورنہ کوئی قبول نہیں کرے گا۔ نوکری کا مت سوچو، لوگ نوکری کرنے والی لڑکیوں کو پسند نہیں کرتے۔ اتنا نہ کھاؤ، موٹی ہو جاؤ گی، پھر تم سے کون شادی کرے گا۔ زور سے نہ ہنسو، زیادہ نہ بولو کیونکہ ایسی لڑکیاں بھی لوگوں کو پسند نہیں ہوتیں۔

ایک ساتھی کی چاہ ہونا فطری بات ہے لیکن کیا انسان زندگی میں بس ایک ساتھی چاہتا ہے یا اس کے ساتھ ساتھ دیگر چیزیں بھی چاہتا ہے؟ ہم کیوں اپنی زندگی کا مقصد محض شادی کرنا سمجھتے ہیں۔ لڑکوں کو تو اس سے پھر بھی کچھ رعایت حاصل ہے۔ ان کی پڑھائی، نوکری، شوق، دوستیاں وغیرہ ان کی زندگی میں برابر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لڑکیوں کے ساتھ ایسے نہیں ہوتا۔ ان کے پیدا ہونے کا مقصد بس شادی کرنا سمجھا جاتا ہے۔ ان کا شادی سے پہلے کا وقت شادی کے لیے بہترین آپشن بننے کے لیے ہوتا ہے اور بعد کا وقت اس شادی کو ہر صورت برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کے لیے ہوتا ہے۔

بچپن اور لڑکپن میں شادی کا تصور بہت اچھا لگتا ہے لیکن عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے انسان اپنے ارد گرد کی دنیا سمجھتا جاتا ہے، اس کے ذہن میں بنا یہ تصور اپنے اصل رنگ دکھانا شروع کر دیتا ہے۔

یہ معاشرہ پدرشاہی کا رسیا ہے۔ یہاں شادی مرد کے لیے تو بہترین ہو سکتی ہے، پر عورت کے لیے نہیں۔ اپنے اردگرد دیکھ لیں۔ کتنی عورتیں ہیں جو اچھی بھلی زندگیاں گزار رہی تھیں۔ ایک دن ایک کاغذ پر دستخط کر بیٹھیں اور اب بھگت رہی ہیں۔

جس کا شوہر اچھا نکل آیا، اس کے وارے نیارے، جس کا نہ اچھا نکلا اس کی اچھی بھلی زندگی کا وہیں دی اینڈ ہو جاتا ہے۔ اب نمازیں پڑھو، پنج سورہ میں دل لگاؤ، یہاں وہاں سے تعویز اکٹھے کر کے شوہر کو پلاؤ، مبارک راتوں میں اپنے گناہ معاف کروانے کی بجائے شوہر کی اصلاح واسطے لمبے لمبے نفل پڑھو۔ نتائج کی توقع نہ رکھو کہ اس سے عمل کا اثر جاتا رہتا ہے۔

شادی کے بعد تو مسائل سب کو پتا ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ شادی سے پہلے کے مسائل کا بھی بیان ہونا از حد ضروری ہے۔ ویسے تو یہ مسائل انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہو جاتے ہیں لیکن شادی کا سوچتے ہی ان کی تعداد اور شدت میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔

اچھا رشتہ ڈھونڈنا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس اچھے رشتے کی بھی اپنی داستان ہے۔ ہر ایک کے اچھے رشتے کی ڈیفینیشن کچھ اور ہے۔ من پسند رشتہ ہاتھ آ جائے تو اسے ہاتھ سے نکلنے نہ دینے کے لیے دوسری طرف سے آنے والی تمام شرائط بغیر کسی اعتراض کے مانی جاتی ہیں۔ یاد رہے یہاں دوسری طرف لڑکے والے ہیں اور اس طرف لڑکی والے۔ شرطیں لڑکے والے بتاتے ہیں، لڑکی والے ان پر من و عن عمل کرتے ہیں ورنہ اور بھی لڑکیاں ہیں زمانے میں۔ کیا سمجھے۔

رشتہ پکا ہو جائے تو لڑکی اور اس کی زندگی میں کچھ نہ کچھ لازمی تبدیل کروایا جاتا ہے۔ پردہ کرتی ہے تو تھوڑا اس طریقے سے کر لے یا کرنا چھوڑ دے، نہیں کرتی تو کر لے، پڑھ رہی ہے تو بس جلدی جلدی پڑھائی مکمل کرے، نہیں کر رہی تو فوری کسی کورس میں داخلہ لے لے، نوکری کر رہی ہے تو چھوڑ دے، نہیں کر رہی تو کر لے، یعنی کچھ نہ کچھ کہہ ہی دیا جاتا ہے کہ کر لو تاکہ تمہیں احساس ہو کہ اب تمہاری زندگی کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔

اس کے ساتھ سسرال کی عزت کا ٹوکرا بھی لڑکی کے سر پر رکھ دیا جاتا ہے۔ ادھر سر ہلا ادھر ٹوکرا گرا۔

لڑکیاں اس صورتحال سے گھبرا جاتی ہیں۔ انہیں لگتا ہے جیسے ان کا نیا جنم ہو رہا ہے جس میں سب کچھ اس کی مرضی سے نہیں بلکہ دوسروں کی مرضی سے ہوگا۔

شادی کے وقت بھی دلہن کا جوڑا، جوتے، پارلر کا انتخاب تک یہی لوگ کرتے ہیں۔ انتخاب سے پہلے ایک رسمی فون کیا جاتا ہے کہ ہم اس کی شادی کی شاپنگ کرنے لگے ہیں۔ ہم تو سب کچھ اس کی مرضی کا ہی خریدنا چاہتے ہیں۔ آپ اسے ساتھ بھیج دیں۔ اب کہنے کو تو کہ دیا لیکن دل میں یہی ہوتا ہے کہ جواب نہ میں آئے تبھی بہو کی عزت ہوگی کہ دیکھو کتنی نیک بچی ہے۔ اگر دوسری طرف سے ہاں کہ دی جائے تو لڑکی کو لے تو جاتے ہیں مگر پوری زندگی ملنے والوں کو بتاتے رہتے ہیں کہ دیکھو کیسی دیدہ ہوائی لڑکی ہے۔ شادی کی شاپنگ کرنے ساتھ چل پڑی تھی۔

پھر شادی کے بعد آہستہ آہستہ سارے گھر کا کام بھی لڑکی کے حوالے کر دیتے ہیں کہ لو سنبھالو۔ اب تو یہ تمہارا گھر ہے۔ یاد رہے یہ بس کہنے کو کہا جاتا ہے۔ وہی لڑکی شوہر کی وفات کے بعد اس گھر میں اپنا حصہ مانگ لے تو اسے اس کی اوقات یاد دلا دی جاتی ہے۔

تمہارے گھر سے مراد یہ ہے کہ اس گھر کو چلانے کی ذمہ داری اب تمہاری ہے۔ صبح ناشتہ بنانے سے لے کر رات میں گھر کا مین گیٹ لاک کرنے تک ہر کام اب تمہیں ہی کرنا ہے۔ شوہر جو شادی سے پہلے اپنے کپڑے خود استری کرتا تھا اگلی صبح سے اپنے کپڑوں کے لیے بیوی کا محتاج ہو جاتا ہے۔ اس کا بھی کیا قصور۔ اس نے اپنے ابا جی کو پوری زندگی یہی سب تو کرتے دیکھا ہوتا ہے۔

اپنے ارد گرد ایسی شادیاں ہوتی دیکھ کر ہمارا شادی سے دل اوب گیا ہے۔ اچھی خاصی زندگی گزار رہے ہیں۔ سر پر چھت ہے۔ ڈگری ہے۔ نوکری ہے۔ تھوڑا سا نام بھی ہے۔ جو دل چاہے خریدتے ہیں۔ جو دل چاہے کھاتے ہیں۔ ہمیں کیا پڑی ہے کہ ایک روز اٹھیں اور کسی کے گھر جا کر اس کے اور اس کے گھر والوں کے کپڑے اور برتن دھونا شروع کردیں۔ ساتھ ہی ساتھ کسی کو خوش کرنے کے لیے اس سے جڑے رشتوں کے ہاتھوں ذلیل ہوتے پھریں۔ جہاں دل نہ ملتے ہوں وہاں رشتے بوجھ بن جاتے ہیں۔

ٹھیک ہی تو کہا ہے ملالہ نے۔ اگر دو لوگ ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو انہیں ایک کاغذ پر دستخط کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ جہاں دل ملتے ہوں وہاں اس کاغذ کی حیثیت ویسے ہی صفر رہ جاتی ہے ورنہ جتنے چاہے کاغذوں پر دستخط کروا لیں جس نے عزت نہیں دینی اور ساتھ نہیں نبھانا، اسے کوئی کاغذ، کوئی دستخط، کوئی گواہ ایسا کرنے سے نہیں روک سکتا۔

اب ملالہ کے کہے جملے کا پہلا حصہ پڑھیں۔ ہمارے ہاں کتنے لوگ شادیاں ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کے لیے کرتے ہیں؟ ہمارے ہاں شادیاں اس وجہ سے ہوتی ہیں کہ فلانے کی بھی ہو گئی، ڈھمکانے کی بھی ہو گئی، اب تم بھی کر لو۔ گھر میں اب کوئی کام کرنے والا نہیں رہا، شادی کر لو۔ تمہاری بیوی گھر سنبھال لے گی۔ ہمیں مرنے سے پہلے اگلی نسل کا منہ دیکھنا ہے، شادی کر لو۔

ایسی شادیوں کے لیے تو بہر حال دستخط ہونا ضروری ہیں اور اس سے زیادہ ضروری دونوں طرف کی شرائط کا لکھا جانا ضروری ہے۔ جو شادی کو لڑکی کا محفوظ مستقبل سمجھتے ہیں وہ نکاح نامے میں ویسی شرائط لکھوا لیں اور بہو کو خاندان کی عزت سنبھالنے، گھر کا انتظام سنبھالنے اور نسل آگے بڑھوانے کے لیے لا رہے ہیں، وہ ویسی شرائط لکھ لیں۔

ہمیں تو ایسی کسی بھی شادی سے انکار ہے۔ ہم شادی کو ایک پارٹنرشپ سمجھتے ہیں جس میں دونوں پارٹنرز کا اپنی مرضی سے شامل ہونا، ایک دوسرے کے لیے موجود رہنا اور ایک دوسرے سے پیار محبت اور عزت سے بھرا سلوک کرنا لازم ہیں۔ اس کے علاوہ جو بھی رشتہ بن رہا ہے اسے شادی کی بجائے غلامی یا سودا کہہ لیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments