قومی فلاح کی گریٹ گیم


اپوزیشن الزام لگاتی ہے کہ موجودہ حکومت نے ملک تباہ کر دیا لیکن کیا یہ بات درست ہے؟ اگر معاملے کو کھلے ذہن کے ساتھ دیکھا جائے تو یہ واضح ہے کہ حکومتی اقدامات ملک کے وسیع تر مفاد میں ہیں۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور کے بعد پہلی مرتبہ ایسی ہستی کو اقتدار ملا ہے جو طویل مدتی منصوبے بنا کر ملک کو اوپر بہت اوپر لے جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں بعض بہترین حکومتی اقدامات کا ذکر مناسب ہو گا جس پر اپوزیشن اپنی کم فہمی کے سبب کیچڑ اچھال رہی ہے اور بعض معصوم افراد اس کی باتوں میں آ کر قومی فلاح کی اس گریٹ گیم کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔

پہلا قدم: سڑکیں ٹوٹنے پھوٹنے دو اور ان کی تعمیر و مرمت سے حتی الامکان گریز کرو۔

گزشتہ کرپٹ حکومت کا سارا زور اس بات پر تھا کہ بہترین سڑک بنا دو، پل بنا دو، میٹرو بنا دو وغیرہ۔ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے سے بہت پہلے ہی یہ بتانا شروع کر دیا تھا کہ قوم سڑک یا انفراسٹرکچر سے نہیں بنتی۔ کسان کو منڈی تک رسائی دینے سے وہ خوشحال نہیں ہوتا۔ ملک میں سفر کے بہتر ذرائع پیدا کرنے سے ملکی یکجہتی کو نقصان پہنچتا ہے۔ مثلاً یہی دیکھ لیں کہ گرمی میں جب جنوب کے سیاح ادھر شمال کے پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں تو ان کا پھیلایا ہوا گند دیکھ کر شمال والوں کے دل میں ان کے لیے برے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ یہ جنوبی سیاح ادھر اچھی سڑک ہونے کی وجہ سے جاتے ہیں۔ اگر سڑک اچھی نہیں ہو گی تو یہ جنوب میں اپنے گھر میں خوش رہیں گے اور شمال والے شمال میں اور قدیم دانش یہ کہتی ہے کہ دوری سے محبت بڑھتی ہے۔

یہی معاملہ دیگر علاقوں کا بھی ہے۔ مثلاً لائلپوری ایک اچھی سڑک دیکھ کر لاہور پہنچ جاتے ہیں تو لاہوری بہت ناراض ہوتے ہیں کہ پہلے تو یہ لائلپوری اپنی گاڑی بہت پھرتی سے ان کی گاڑی کے سامنے پھنساتے ہیں اور پھر گدھا گاڑی کی رفتار سے پہلے گیئر میں یوں چلتے ہیں جیسے دنیا میں ان سے فارغ کوئی شخص ہے ہی نہیں۔ اور جب کوئی لاہوریا ادھر لائلپور جا کر گاڑی چلانے لگے تو لائلپوریوں کو یہ دیکھ کر وحشت ہوتی ہے کہ اس بندے کو کیا آگ لگی ہوئی ہے جو اتنی تیزی دکھا رہا ہے اور اسی نوے کلومیٹر کی رفتار سے کم گاڑی ہی نہیں چلا سکتا۔ یوں اچھی سڑکوں کی وجہ سے ایک علاقے کے لوگ دوسرے علاقے کے افراد کو برا سمجھنے لگتے ہیں۔

اس صورت حال کے تدارک کے لیے حکومت نئی سڑکیں بنانے سے احتراز کر رہی ہے اور پرانی سڑکوں کی مرمت پر بھی توجہ نہیں دے رہی۔ یوں لوگ کسی اشد ضرورت کے بغیر بلاوجہ ادھر ادھر جانے سے گریز کرتے ہیں۔

دوسرا قدم: فضائی مسئلہ حل کرو یعنی ہوائی سفر کے بارے میں مشہور کر دو کہ جعلی پائلٹ جہاز چلاتے ہیں۔

ساری دنیا کے ماہرین جانتے ہیں کہ اوپر آسمان پر ایک اوزون نامی ہالے نے دنیا کو گھیرا ہوا ہے جو سورج کی مضر روشنی کو زمین میں داخل ہونے سے روکتا ہے اور اچھی روشنی کو آنے دیتا ہے۔ گزشتہ نصف صدی میں ماحولیاتی کثافت میں بے تحاشا اضافہ ہونے کی وجہ سے اوزون کے اس ہالے میں سوراخ ہونے لگے ہیں۔ ماہرین کی رائے میں اس کی بڑی وجہ ہوائی جہاز ہیں جو بہت اوپر اوزون کے پاس پہنچ کر مضر کاربن ڈائی آکسائیڈ پھینکتے ہیں جس سے اوزون کو نقصان پہنچتا ہے۔

ہماری حکومت کی ماحول دوستی کو دنیا تسلیم کرتی ہے۔ نہ صرف اس نے ہمارے شہروں میں اور جنگلوں میں اربوں درخت لگا دیے ہیں بلکہ قدرتی مناظر کے شائق پاکستانیوں کو سبز باغ دکھانے میں اس کا ثانی نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر دس ارب درخت لگنے کی خبر ملنے کے بعد اس کے حامیوں کو ہر طرف ہرا ہی ہرا دکھائی دیتا ہے۔ شجر کاری کے علاوہ موجودہ حکومت نے ہوائی جہازوں کی وجہ سے ماحولیاتی کثافت پھیلنے سے روکنے پر بھی توجہ دی ہے اور اس سلسلے میں وزیر ہوابازی کے ایک ہی بیان نے ماحول کو صاف ستھرا کر دیا۔ اس بیان میں انہوں نے پاکستانی پائلٹوں کے لائسنس جعلی ہونے کا ذکر کیا تھا اور اس کے بعد دنیا بھر میں پاکستانی جہاز ماحول تباہ کرنے سے قاصر ہو گئے۔

جب کوئی شخص نیک نیتی سے کام کرے تو پوری کائنات اس کی مدد کرنے پر اتر آتی ہے۔ کرونا کی وبا نے فضائی صنعت کو ویسے ہی تقریباً ختم کر دیا۔ یوں لوگ فضائی سفر کرنے سے محروم ہو گئے۔

تیسرا قدم: ریل کا بجٹ کم کر دو تاکہ ریل حادثات بڑھیں اور لوگ ریل کے سفر سے کترائیں۔

سڑک اور فضا کے بعد ایک اہم ذریعہ سفر ریلوے ہے۔ حالانکہ ریل کے حادثات بہت کم ہو رہے ہیں اور فردوس عاشق اعوان نے تو خدا کا شکر بھی ادا کیا ہے۔ فرماتی ہیں ”اللہ کے فضل و کرم سے یہ اس سال پہلا حادثہ ہے“ ۔ ابتدائی طور پر حادثے کی وجہ بوسیدہ ٹریک بتائی جا رہی ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق اس سلسلے میں حکومت نے بہترین حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے ریلوے کا بجٹ کم کیا ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے اب لوگ بہت ہی مجبوری میں ریل کا سفر کریں گے۔

چوتھا قدم: سوشل میڈیا کے خلاف ایسا قانون بنا دو کہ لوگ ایک دوسرے سے بات کرنا چھوڑ دیں۔

حکومت اب پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی بنانے پر غور کر رہی ہے جس کے بعد یوٹیوب یا فیس بک وغیرہ پر عام آدمی منہ اٹھا کر اپنی ویڈیو یا سٹیٹس نہیں ڈالیں گے۔ ہم نے یہی دیکھا ہے کہ سوشل میڈیا نفرت کا گہوارہ ہے۔ لوگ نہ صرف ملکی اداروں کے خلاف بلکہ ایک دوسرے کے خلاف بھی ففتھ جنریشن وار کیا کرتے تھے۔ اب یہ سلسلہ بند ہو جائے گا۔ منطقی بات ہے کہ جب حکومت نے ایک بات بتا دی کہ ایسا کرو تو پھر عام لوگوں کو سیاست لڑانے اور اپنا دماغ استعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا سکول میں انہیں بارہا مرغا بنا کر یہ نہیں سمجھایا گیا تھا کہ ڈنڈے کی بات حرف آخر ہوتی ہے اور اپنا دماغ استعمال کرنے کی بجائے دیے گئے سبق کا رٹا لگانا لائق افراد کی نشانی ہوتا ہے؟

حکومت کے ان اقدامات کے نتیجے میں آپسی میل جول میں خاطر خواہ کمی آئے گی۔ نہ لوگ ایک دوسرے سے سڑک، ریل یا جہاز پر جا کر ملیں گے اور نہ ہی سوشل میڈیا کے ذریعے رابطے کریں گے۔ یوں ہم اس سنہری زمانے کی طرف پلٹ جائیں گے جس میں سکون ہمارا مقدر تھا۔ نہ ہمیں خبر ملے گی کہ کراچی میں بحریہ ٹاؤن پر حملہ ہو گیا، نہ ڈھرکی میں ٹرین کے حادثے سے دل دکھے گا، نہ امریکہ اور افغانستان کے معاملات سے پریشانی ہو گی، نہ افواہیں ہم تک پہنچیں گی کہ مہنگائی ہو گئی ہے اور گزارا نہیں ہوتا۔ راوی ہر طرف امن چین لکھے گا۔ فون اور خبروں سے جان چھوٹے گی اور ہم دوبارہ سرخ آندھی چلنے کو ظلم کی خبر سمجھیں گے اور منڈیر پر کوے کے بولنے کو مہمان کی آمد کی۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments