امریکی فوجی تعلیمی اداروں میں پاکستانی فوج کے تربیتی پروگرام کی بحالی، مگر یہ کتنا اہم ہے؟

عمر فاروق - دفاعی تجزیہ کار


 

جنرل باجوہ، جنرل ڈنفورڈ

امریکی انتظامیہ کی جانب سے اپنے فوجی تعلیمی اداروں میں پاکستانی فوج کے اہلکاروں کی فوجی تربیت اور تعلیم کے لیے خصوصی فنڈ مختص کرنے کے اعلان پر اسلام آباد اور راولپنڈی میں کچھ زیادہ جوش و خروش دیکھنے میں نہیں آ رہا ہے۔

امریکی صدر نے گذشتہ ہفتے غیر ملکی فوجیوں کی امریکہ میں تربیت کی غرض سے چلنے والے اس پروگرام میں پاکستانی فوجی افسروں کو شامل کرنے کی منظوری دی تھی۔

اسلام آباد میں ایک اعلیٰ حکومتی اہلکار نے کہا کہ ’امریکی محکمہ خارجہ کے پیشکش کردہ کورس میں ہمارے آرمی افسران حصہ لیں گے۔ یہ معاملہ ہمارے لیے معمول جیسا ہے۔‘

پاکستانی فوج سنہ 1991 کی ابتدا سے امریکی محکمہ خارجہ کے انٹرنیشنل ملٹری ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ (آئی ایم ای ٹی) پروگرام کی فہرست میں شامل ہوتی اور نکلتی آ رہی ہے۔ پہلی بار سنہ 1991 میں پریسلر ترمیم کے تحت پاکستانی افسران کی فوجی تربیت معطل کر دی گئی تھی۔

پاکستان کی سکیورٹی معاونت روکنے کے ٹرمپ کے فیصلے کے پہلے معلوم اثرات کے تحت اگست 2018 میں پاکستان کی اس پروگرام سے دوبارہ معطلی ہوئی تھی جس سے اُس برس پاکستانی فوجی افسران کے لیے مختص 65 نشستیں منسوخ کر دی گئی تھیں۔

امریکی ملٹری سیاسی تنازعات سے بچنے کے لیے روایتی طور پر ایسے تعلیمی پروگراموں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ دلیل یہ ہوتی ہے کہ غیر ملکی فوجی افسران کو امریکہ لانے سے تعلقات استوار ہوتے ہیں جو بعد ازاں طویل المدتی بنیادوں پر فائدہ دیتے ہیں۔

امریکہ کا غیر ملکی فوجیوں کے لیے تربیتی پروگرام (آئی ایم ای ٹی) کیا ہے؟

’آئی ایم ای ٹی‘ کے تحت امریکی آرمی وار کالج اور امریکی بحریہ وار کالج جیسے امریکی تعلیمی اداروں میں غیر ملکی ملٹری افسران کے داخلوں کی گنجائش پیدا کی جاتی ہے۔

امریکی انتظامیہ کی حالیہ اعلان کردہ بجٹ سٹیٹمنٹ کے مطابق 13.8 ملین ڈالر انٹرنیشنل ملٹری ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ (آئی ایم ای ٹی) پروگرام برائے جنوبی و وسطی ایشیا کے لیے مانگے گئے ہیں جس کے تحت ’خطے میں امریکی ترجیحات کے حامی اور شراکت دار ممالک کی افواج کی پیشہ وارانہ مہارت اور پیشہ وارانہ فوجی تعلیم پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔‘

ترجیحی ممالک میں پاکستان، بنگلہ دیش، انڈیا اور نیپال شامل ہیں۔

اگرچہ ‘آئی ایم ای ٹی’ کم بجٹ کا پروگرام ہے لیکن اس سے امریکی مسلح افواج اور دوست ممالک کے درمیان اشتراک بڑھتا ہے۔ واشنگٹن نے اگرچہ پاکستان کو اس پروگرام سے نکال دیا تھا لیکن جنوری 2020 میں ٹرمپ انتظامیہ نے یہ تربیتی سہولت پھر بحال کر دی تھی۔

ڈونلڈ ٹرمپ، عمران خان

یہ امریکی اعلان کچھ یوں تھا کہ ’مشترکہ ترجیحات پر ملٹری کے ملٹری کی سطح پر تعاون کی مضبوطی اور امریکی قومی سلامتی میں پیش رفت کی خاطر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر پاکستان کے لیے ‘آئی ایم ای ٹی’ کی بحالی کی اجازت دیتے ہیں۔ پاکستان کے لیے مجموعی سکیورٹی معاونت معطل رہے گی۔‘

پاکستانی فوج اور خارجہ پالیسی کے حلقوں میں امریکی تربیتی پروگرام کو کیسے دیکھا جاتا ہے؟

ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے دوسری بار معطلی اور 2018 میں پروگرام کے لیے فنڈنگ رُک جانے کے بعد ‘آئی ایم ای ٹی’ کے بارے میں پاکستانی فوج زیادہ پُرجوش نہ رہی۔

ماضی میں کلیدی فوجی اور انٹیلیجنس عہدوں پر فرائض انجام دینے والے ریٹائرڈ بریگیڈیئر محمود شاہ کا کہنا ہے کہ ’آئی ایم ای ٹی‘ سے کچھ خاص فرق نہیں پڑتا، ہمارے افسران یورپ، چین، روس اور مشرق وسطیٰ میں اعلیٰ فوجی تربیتی اور تعلیمی اداروں میں جا رہے ہیں، امریکہ کے ’آئی ایم ای ٹی‘ کو معطل کرنے کے بعد یہ سلسلہ نہیں رکا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ اچھا ہے کہ ہمارے افسران ’آئی ایم ای ٹی‘ کے تحت تربیت کے لیے امریکہ جائیں گے۔ لیکن اس کی معطلی سے پاکستان کی فوج کو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔‘

دوسری جانب قومی سلامتی کے سابق مشیر ریٹائرڈ میجر جنرل محمود درانی ‘آئی ایم ای ٹی’ کے بارے میں بہت پُرجوش ہیں۔ میجر جنرل (ر) محمود درانی کی کمانڈ پر آخری تقرری 1988 میں بہاولپور میں ہوئی تھی جہاں وہ پاکستان آرمی کی فرسٹ آرمرڈ ڈویژن کی کمان کر چکے ہیں۔

جنرل درانی انٹرنیشنل ملٹری ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ (آئی ایم ای ٹی) پروگرام کے لیے رطب للسان ہیں جو امریکی حکومت نے 1976 میں دوست ممالک کی افواج کے لیے شروع کیا تھا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’آئی ایم ای ٹی اچھا ہے۔ اس سے امریکی معاشرے کو سمجھنے، امریکی نظام حکومت اور فوج کے بارے میں جاننے اور سیکھنے کا اچھا موقع ملتا ہے۔‘

چھ ماہ کا کورس ’آرمر فارمیشن‘ کی کمان کرنے کی فنی تربیت کا کورس ہے۔

امریکی وار کالج

انھوں نے کہا کہ ’یہ محض فوجی تربیت ہے اور اس تربیت میں کوئی نظریاتی اجزا شامل نہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستانی معاشرے میں پائی جانے والی یہ قیاس آرائیاں قطعی فضول اور بے معنی ہیں کہ افسران کے برین واش کیے جاتے ہیں۔‘

جنرل (ر) درانی نے کہا کہ ’وہ (امریکی) اپنے طالب علموں میں آپ کو شامل (مکس) کر دیتے ہیں اور آپ کو ملٹری سائنسز کی معمول کی تربیت دیتے ہیں، وہاں پاکستانی ہی واحد غیر ملکی نہیں ہوتے۔ وہاں انڈین، اسرائیلی، یورپی سمیت 25 قومیتوں کے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ لہذا یہ ایک بین الاقوامی ماحول ہوتا ہے، آپ اس ماحول سے سیکھتے ہیں کہ امریکی نظام کیسے چلتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ ایک بہت ہی صحت مند ماحول تھا، آپ امریکی حکومت کے بارے میں سیکھتے ہیں، آپ کثیرالقومیت کی ثقافت سے روشناس ہوتے ہیں۔‘ آپ سیکھتے ہیں کہ ان کی حکومت کیسے چلتی ہے اور ان کی فوج کیسے کام کرتی ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’جو لوگ دوسری ثقافتوں سے نہیں سیکھتے، وہ ‘ایکو چیمبرز’ (اپنے خیالات کی بازگشت یا خام خیالی میں گم) میں رہتے ہیں اور اس عمل میں خود ہی ’انڈوکٹرینیٹ‘ یعنی اپنے خیالات کے غلام ہو جاتے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

امریکہ کا پاکستان کو پہلا پیغام!

’پاکستان نے ہمیں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا‘

پہلے پاکستانی فوجی صدر کا امریکہ میں فقیدالمثال استقبال کیوں ہوا؟

پاکستانی فوج کی ‘آئی ایم ای ٹی’ پروگرام میں دوبارہ شمولیت کا امریکی جذبہ اچانک جاگنے کی وجہ کیا ہے؟

’آئی ایم ای ٹی‘ کے تحت تربیت پانے والے افسران کی فہرست سے امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے پاکستان کی فوج کی دوسری بار معطلی کے بعد دو چیزیں ہوئیں۔

پہلی یہ کہ پاکستان اور روس نے فوجی تعاون کا معاہدہ کر لیا جس میں پاکستانی فوجیوں کو تربیت کے لیے روس بھجوانا بھی شامل تھا۔ اگست 2018 میں روس کے نائب وزیر دفاع الیگزینڈر فومِن کے پاکستان کے دو دن کے دورے کے موقع پر یہ معاہدہ ہوا تھا جبکہ نو اگست 2018 میں ماسکو میں روس اور پاکستان کی اعلیٰ فوجی قیادت کے اجلاس میں اس متعلق بات چیت ہوئی تھی۔

جنرل زبیر محمود حیات

روسی مسلح افواج کے جنرل سٹاف کے چیف آرمی جنرل ویلیرے گراسیموف اور پاکستان کے جنرل زبیر محمود حیات کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بارے میں روسی وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ فوجی قائدین نے’دفاعی شعبے میں مذاکرات کو گہرا کرنے اور معاہدوں کو ترقی دینے کے عمل کی توثیق کی۔‘

وزارت کے مطابق معاہدے کا بنیادی محور پاکستانی فوجیوں کو روس میں فوجی سکولوں میں تربیت اوراداروں میں اعلیٰ تعلیم دینا ہے۔

دوسرا یہ کہ 17 ستمبر 2018 کو پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے چین کی پیپلز لیبریشن آرمی (پی ایل اے) کے ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کیا اور ’پی ایل اے‘ کے چیف جنرل ہان ویگو سے ملاقات کی۔ جس میں جنرل ہان ویگو نے جنرل باجوہ سے کہا کہ پیپلز لبریشن آرمی اُس وسیع جنگی تجربے سے استفادہ کرنا چاہتی ہے جو گذشتہ 15 برس کے دوران پاکستان کی فوج نے حاصل کیا ہے۔

دورے کے دوران جنرل باجوہ کی اس ملاقات کے بارے میں افواج پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی پریس ریلیز میں ’پی ایل اے‘ کے سربراہ کے خیالات یوں نقل ہوئے کہ ’پی ایل اے کے سربراہ نے دہشت گردی کے مقابلے میں پاکستان کی فوج کی پیشہ وارانہ قابلیت کے اعلیٰ مظاہرے کو سراہا اور اس کا اعتراف کیا۔ چینی جنرل نے پاکستانی فوج کے لڑائی کے تجربے سے استفادے اور دوطرفہ تعاون بڑھانے میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔‘

ایک سینیئر فوجی تجزیہ کار کے الفاظ میں پاکستان کی فوج نے گذشتہ 15 سال میں جو ’کامبیٹ تجربہ‘ حاصل کیا ہے وہ خالص فوجی اصطلاح میں ’سونے کی کان‘ کی مانند ہے۔

امریکی سکیورٹی اسٹیبلیشمنٹ پاکستانی فوج کی ’آئی ایم ای ٹی‘ کی دوسری معطلی کے بعد سے یہ زور دیتی آ رہی تھی کہ واشنگٹن کا پاکستانی ملٹری لیڈروں سے رابطہ منقطع کر کے رہنا خود اس کے مفاد میں نہیں۔

پاکستانی فوجی قیادت اور آئی ایم ای ٹی پروگرام

جنرل اشفاق پرویز کیانی

سنہ 1976 سے پاکستان کی فوج کے دو سربراہان ’آئی ایم ای ٹی‘ کے تحت امریکی فوجی اداروں میں تربیت پا چکے ہیں۔ ‘آئی ایم ای ٹی’ 1976 میں قائم ہوا تھا جس کے بعد صرف دو فوجی سربراہان یعنی جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی اور جنرل قمر جاوید باجوہ ‘آئی ایم ای ٹی’ کے تحت امریکی فوجی تربیتی اداروں میں اعلیٰ تربیت پانے گئے۔

مزید پڑھیے

فوجی تربیت کا پروگرام بحال، سکیورٹی تعاون تاحال معطل

بغداد کی وہ بغاوت جس کے بعد امریکہ پاکستانی فوج پر مہربان ہوا

پاکستان افغانستان میں امریکی آپریشنز کے لیے کیا مدد فراہم کر رہا ہے؟

پاکستان کی فوج کے سابق سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے امریکی فوجی اداروں میں تعلیم کا طویل ترین دور گزارا ہے۔ ان کی سرکاری سوانح عمری کے مطابق ’جنرل اشفاق پرویز کیانی نے فورٹ بیننگ (امریکہ)، کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ، کمانڈ اینڈ جنرل سٹاف کالج فورٹ لی وِن ورتھ (امریکہ)، ایشیا پیسیفک سینٹر فار سکیورٹی سٹڈیز، ہوائی (امریکہ) اور نیشنل ڈیفنس کالج اسلام آباد سے گریجویٹ کیا۔‘

اگرچہ پاکستان کی فوج کے موجودہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کینیڈا سے گریجویٹ کیا لیکن بعدازاں مونیٹیری کیلی فورنیا، امریکہ سے نیول پوسٹ گریجویٹ سکول سے گریجویشن کی۔

ان دو کے علاوہ امریکی فوجی تعلیمی اداروں میں تربیت پانے والے پاکستانی فوجی سربراہان میں جنرل ضیا الحق، جنرل اسلم بیگ اور جنرل جہانگیر کرامت شامل ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32494 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp