تیسرے بجٹ کے لئے ”ذہن سازوں“ کی الجھنیں


کالے موتیا کے خوف نے گھرسے نکلنے اور لوگوں سے ملنے کو مجبور کر دیا ہے۔ نقصان اس کا مگر یہ ہو رہا ہے کہ کسی محفل میں بیٹھتا ہوں تو ذات کی داکھ میں دبارپورٹر انگڑائی لے کر بیدار ہوجاتا ہے۔ گزشتہ بدھ کی شام اس کی بدولت دریافت کیا تھا کہ ٹی وی سکرینوں پر ہمیں بہلانے کو ایک دوسرے کے لتے لینے والے حکومتی اور اپوزیشن سینیٹروں نے سینٹ کی قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی کے لئے ایک دوسرے سے بردبار مک مکا کر لیا ہے۔ اس کی تفصیلات بیان کرنے کو بے چین ہو گیا۔ ہفتے کے آخری دو دنوں کے دوران انتہائی پڑھے لکھے افراد سے جو بنیادی طور پر ”ٹیکنوکریٹ“ شمار ہوتے ہیں ایسے خدشات سنے ہیں جنہوں نے جی کو ایک اور حوالے سے پریشان کر دیا ہے۔

جن لوگوں سے گفتگو ہوئی وہ عالمی اداروں کے لئے ڈیٹا وغیرہ جمع کرتے ہیں۔ ان کی روشنی میں مستقبل کے زائچے بنائے جاتے ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں کسی آفت یا ممکنہ خانہ جنگی کی وجہ سے جو بحران نمودار ہوسکتے ہیں ان کا اندازہ لگاتے ہوئے سوچ بچار ہوتی ہے کہ آفتوں کے گرداب میں گھرے بے وسیلہ افراد کی مدد کے لئے کون سی حکمت عملی موثرترین ثابت ہو سکتی ہے۔

افغانستان میں 20 برس تک کھربوں ڈالر کے زیاں، بے پناہ شہری اور فوجی اموات اور وسیع تر تباہی کے بعد بائیڈن انتظامیہ نے اس ملک سے اپنی افواج کو نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نیٹو نامی اتحاد میں شامل اس کے اتحادی ممالک نے ہاتھی کے پاؤں میں سب کے پاؤں کی روش اختیار کی۔ ابتدا فیصلہ ہوا تھا کہ غیر ملکی افواج ستمبر تک افغانستان سے باہر چلی جائیں گی۔ اپنی افواج کے انخلاء کے ضمن میں امریکہ کی دکھائی عجلت مگر اب یہ عندیہ دے رہی ہے کہ غالباً مطلوبہ کام 4 جولائی تک ہی نبٹادیا جائے۔ یاد رہے کہ 4 جولائی امریکہ کا ”یوم آزادی“ ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے اقتدار سنبھالتے ہی اپنے عوام کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو کرونا کے تدارک کی ویکسین لگانے کا فیصلہ کیا۔ اس ہدف کو ذہن میں رکھتے ہوئے حلف برداری کے دن اس برس کی جنوری میں روایتی تقاریب بھی منعقد نہ ہوپائیں۔ ہجوم کے ہلے گلے سے اجتناب برتا گیا۔

اب یہ باور کیا جا رہا ہے کہ امریکی عوام کی کثیر تعداد کوکرونا کی ویکسین لگالینے کے بعد ”یوم آزادی“ کو جشن کی صورت منایا جائے گا۔ واشنگٹن میں جمع ہوئے ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے صدربائیڈن اپنی انتظامیہ کے بارے میں ”اچھی خبروں“ کا ذکر کرتے ہوئے افغانستان کی ”لامتناہی جنگ“ کے خاتمے کا اعلان بھی کر سکتا ہے۔

”رپورٹر“ بنیادی طور پر وہمی فطرت کا حامل ہوتا ہے۔ غالبؔ کی طرح لب بام محبوب کو ”آرائش خم کاکل“ میں محودیکھتا ہے تو ”اندیشہ ہائے دور دراز“ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کی بابت سوچتے ہوئے ہمارے ہاں جو ”صحافی“ اب بھی ٹی وی سکرینوں پر رونما ہونے کی وجہ سے اپنی شناخت برقرار رکھے ہوئے ہیں اس اندیشے میں مبتلا ہو گئے کہ اپنی افواج کے باحفاظت انخلاء کو یقینی بنانے کے لئے امریکہ پاکستان سے فوجی اڈے کا طلب گار ہے۔ وہاں سے اڑائے جاسوسی طیارے امریکہ سے نکالے جدید ترین اسلحہ کی بندرگاہ تک سفر کے سارے راستے پر کڑی نگاہ رکھیں گے۔ انخلاء کے بعد بھی اس اڈے سے اڑائے ڈرون قسم کے طیارے افغانستان کی فضا سے برسرزمین معاملہ ت پر نگاہ رکھیں گے۔ القاعدہ اور داعش جیسی انتہا پسند تنظیمیں اگر طالبان کے کنٹرول سے بھی باہر جاتی نظر آئیں تو اس اڈے پر موجود فوجی دستے ان کے خلاف سرعت سے متحرک ہوجائیں گے۔

ٹھوس اطلاعات تک رسائی نہ ہونے کے باوجود میں جبلی طور پر یہ محسوس کرتا رہا کہ پاکستان امریکہ کو اپنی زمین پر فوجی اڈے کی اجازت نہیں دے گا۔ وزیر اعظم عمران خان صاحب نے ڈرون طیاروں کے خلاف مستقل مزاجی سے ایک بھرپور مہم چلائی تھی۔ افغانستان میں قیام پذیر غیر ملکی افواج کے لئے پاکستان کے زمینی راستوں سے رسد کی فراہمی کو روکنے کے لئے بھی ان کی جماعت نے پشاور میں طویل دھرنے دیے تھے۔ عمران خان کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے افغانستان پر نگاہ رکھنے والے امریکی اڈے کی پاکستان میں موجودگی لہٰذاممکن نظر نہیں آئی۔ اگرچہ کئی اہم معاملات پر وہ ”یوٹرن“ لینے کی روش اختیار کرچکے ہیں۔ عمران خان صاحب کے ”نظریاتی تحفظات“ اور امیج کے علاوہ امریکہ کے لئے پاکستان میں فوجی اڈے کی فراہمی چین کی وجہ سے بھی غالباً ممکن نہیں۔ وہاں سے کوئی جاسوسی طیارہ فضا میں اڑے گا تو سی پیک سے جڑے منصوبوں پر پیش رفت کی تفصیلات بھی ریکارڈ ہوتی رہیں گی۔ فوجی اڈے والا ”اندیشہ دور دراز“ مجھے مذکورہ بالا وجوہات کی وجہ سے ایک لمحے کو بھی پریشان نہ کرپایا۔

گزشتہ دو دنوں کے دوران دوستوں کی محفلوں میں جو بات سنی ہے اس نے تاہم چونکادیا ہے۔ ایک باخبر مہمان کے علاوہ کئی عالمی اداروں سے مستقل رابطے میں رہے ایک اوردوست نے یہ اطلاع دی کہ اقوام متحدہ کے کئی ذیلی اداروں کے علاوہ چند بین لاقوامی ”غیر سرکاری“ تنظیمیں جنہیں I این جی اوز کہا جاتا ہے گزشتہ چند دنوں سے ایک سنگین امکان کو سنجیدگی سے زیر بحث لارہی ہیں۔ مستقبل کے زائچے بناتے ہوئے پیش بندی کی خاطر ہوئے ایسے مباحث کو Brainstorming Sessionsکہا جاتا ہے۔

مجھے بتایا گیا ہے کہ افغانستان کے تناظر میں ہوئے مباحث کے دوران شرکاء کی اکثریت بضد رہی کہ امریکی افواج کے مکمل انخلاء کے بعد مذکورہ ملک میں خانہ جنگی سنگین تر ہو جائے گی۔ اس کی شدت عام شہریوں کی بے پناہ تعداد کو نقل مکانی کو مجبور کردے گی۔ ایک محفل میں ممکنہ تعداد کا تخمینہ تین سے چار لاکھ بھی لگایا گیا۔

افغانستان میں 1980 کی دہائی سے جاری بدامنی، مزاحمت، جنگ یا خانہ جنگی میں جب بھی شدت آئی تو وہاں کے شہریوں کی اکثریت نے پناہ کی خاطر ہمیشہ پاکستان کا رخ کیا۔ امریکی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی سنگین تر ہونا شروع ہو گئی توتاریخ خود کو یقیناً دہرائے گی۔ سوال اٹھتا ہے کہ اگر لاکھوں افغانوں نے ایک بار پھر پناہ کی خاطر پاکستان آنا چاہا تو ہمارا اس بار ردعمل کیا ہو گا۔

جنرل ضیاء کے دور میں افغان مہاجرین کی ہمارے ہاں موجودگی نے پاکستان کو نام نہاد مہذب دنیا کے روبرو ”انسان دوست“ ملک کی صورت متعارف کروایا تھا۔ مذکورہ ”انسان دوستی“ نے جنرل ضیاء کو ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کو کالعدم ٹھہرانے کی سہولت فراہم کی۔ اخباروں پر کڑی سنسر شپ اور چند صحافیوں کی کمر پرسرعام برسائے کوڑے بھی ”انسان دوستی“ والی شہرت کو ماند نہ کرپائے۔ افغان مہاجرین کی پاکستان میں موجودگی نے ہمارے سماج میں جو اتھل پتھل برپاکی اس کا تصوربھی لیکن ہمارے غیر ملکی مداح ذہن میں نہ لاپائے۔

حالات اب قطعاً بدل ہوچکے ہیں۔ پاکستان نے خود کو دہشت گردی کے واقعات سے محفوظ رکھنے کے لئے ڈیورنڈ لائن پر طویل باڑ لگادی ہے۔ افغانوں کے لئے اب یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ اپنا ساز و سامان اٹھائے پیدل چلتے ہوئے اپنے قریب ترین مقامات سے ڈیورنڈ لائن پار کرتے ہوئے پاکستان آجائیں۔

اس حقیقت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے جن مباحث کی بابت مجھے بتایا گیا وہاں اس امکان کو شدت سے زیرغور لایا جا رہا ہے کہ پناہ کے طالب افغانوں کے ہجوم چمن اور طورخم چیک پوسٹوں کے گرد بے سروسامانی کے عالم میں جمع ہوسکتے ہیں۔ پاکستان نے ان کی ”میزبانی“ سے انکار کر دیا تو عالمی میڈیا میں اس رویے کو ”سفاکی“ دکھاکر اچھالا جائے گا۔ عالمی قوتیں اس کی بدولت مجبور ہوجائیں گی کہ چمن اور طورخم کے ”اس پار“ ہی ”محفوظ پناہ گاہوں“ کے قیام کو یقینی بنایا جائے۔

ترکی کی شام کے ساتھ سرحد پر ان دنوں ایسے کئی مقامات ہیں جہاں شام کی خانہ جنگی کی وجہ سے بے گھر ہوئے بے پناہ کنبے ترکی میں داخلے کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے ویران شہروں، بیابانوں اور پہاڑوں کے دامن میں ”مہاجر کیمپ“ بنائے ہوئے ہیں۔ ترکی کو امریکہ اور یورپ کے کئی ممالک گزشتہ چند برسوں سے شام سے نکلے مہاجروں کو اسی ملک تک محدود رکھنے کے لئے خاطر خواہ رقوم فراہم کرتے رہے ہیں۔ شامی مہاجرین کی مسلسل بڑھتی تعداد نے مگر ”سلطان اردوان“ کے لئے سیاسی مشکلات کھڑی کردیں۔ وہ مہاجرین کے ”سیلاب“ کو روکنے پر ڈٹ گیا۔

ہمارے میڈیا میں افغان مہاجرین کے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد ایک اورممکنہ سیلاب کا اندیشہ دور دراز مگر زیر بحث ہی نہیں۔ سوشل میڈیا پر چند صحافیوں کو ”غدار“ ثابت کرنے کا شوربرپا ہے اور روایتی میڈیا کی سکرینوں پر چھائے ”ذہن ساز“ یہ طے کرنے میں الجھے ہوئے ہیں کہ عمران حکومت اپنا تیسرا بجٹ قومی اسمبلی سے منظور کرواپائے گی یا نہیں۔
بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments