افغانستان: تشدد کے واقعات میں اضافے کے بعد لوگوں کی نقل مکانی کے خدشات


ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر مستقبل قریب میں فریقین کسی تصفیے پر آمادہ نہ ہوئے تو بڑی تعداد میں لوگ پاکستان اور ایران کی جانب نقل مکانی کر سکتے ہیں۔ (فائل فوٹو)

افغانستان میں حالیہ عرصے میں تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات اور شہری ہلاکتوں میں اضافے کے بعد مقامی آبادی کی ایک بار پھر ہمسایہ ممالک کی جانب نقل مکانی کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

افغانستان میں طالبان اور افغان سیکیورٹی فورسز کے درمیان لڑائی تشویش ناک شکل اختیار کر گئی ہے اور کئی علاقوں میں طالبان اور افغان سیکیورٹی فورسز کے درمیان اب بھی جھڑپیں جاری ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر مستقبل قریب میں فریقین کسی تصفیے پر آمادہ نہ ہوئے تو بڑی تعداد میں لوگ پاکستان اور ایران کی جانب نقل مکانی کر سکتے ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق حالیہ عرصے میں ہونے والی جھڑپوں میں شہری ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔

ہفتے کی شام صوبہ بادغیس میں سڑک کنارے نصب بم دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 11 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اگرچہ بم دھماکے کی ذمے داری کسی گروپ نے قبول نہیں کی، تاہم افغان حکومت نے طالبان پر بم نصب کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔

جنگ کے باعث نقل مکانی کے خدشات

افغان تجزیہ کار اور سینئر صحافی جاوید حمیم کاکڑ کا کہنا ہے کہ اس وقت افغانستان کے 22 صوبوں میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان شدید جھڑپیں جاری ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر فریقین جلد از جلد کسی حتمی نتیجے پر نہ پہنچے تو صورتِ حال خانہ جنگی کی جانب بھی بڑھ سکتی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اقوامِ متحدہ کی حالیہ رپورٹ میں بھی شدت پسندی کے باعث تقریباً پانچ لاکھ افراد کے بے گھر ہونے کے بارے میں کہا گیا ہے جس کے باعث بڑے شہروں پر آبادی کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔

یاد رہے کہ طالبان کی جانب سے شدت پسندی میں یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آ رہی ہے جب امریکہ اور نیٹو ممالک نے افغانستان سے اپنے تمام فوجیوں کے انخلا کی ڈیڈ لائن 11 ستمبر طے کر رکھی ہے۔

بعض تجزیہ کار امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغانستان میں سیکیورٹی صورتِ حال مزید خراب ہونے کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔

جاوید حمیم کاکڑ کا کہنا ہے کہ دوحہ امن معاہدے کے بعد عملی طور پر سیکیورٹی کے تمام امور افغان حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔ اگرچہ شورش میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، تاہم طالبان ابھی تک اہم اور بڑے علاقوں کا کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔

ادھر افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد ایک بار پھر قیامِ امن کی کوششوں کے لیے متحرک ہو گئے ہیں۔ خلیل زاد نے اتوار کو کابل میں افغان رہنماؤں سے ملاقات بھی کی ہے۔

دوسری جانب طالبان کی جانب سے ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ دوحہ میں قائم طالبان کے سیاسی دفتر کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اتوار کو طالبان رہنما شیر عباس ستنکزئی نے اقوامِ متحدہ اور یورپی یونین کے نمائندوں سے افغانستان میں استحکام کے حوالے سے بات چیت کی ہے۔

طالبان کا کہنا ہے کہ اگر گزشتہ ادوار کو دیکھا جائے تو ان کی کارروائیوں کا دائرہ کار بہت محدود ہے اور اب تک انہوں نے بڑے شہروں، ضلعی ہیڈکوارٹرز وغیرہ کو نشانہ نہیں بنایا۔

سینئر افغان صحافی اور تجزیہ نگار عصمت قانع کا کہنا ہے کہ افغانستان کے عوام میں اس وقت شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ان کے بقول، دوحہ امن معاہدے کے بعد عوام کو ملک میں امن کی توقع تھی۔ تاہم، ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود حالات بہتری کے بجائے مسلسل خونریزی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان جھڑپوں میں سویلین نہ صرف ہلاک ہو رہے ہیں بلکہ نقل مکانی پر بھی مجبور ہو رہے ہیں۔ اور وہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اگر حالات جلد از جلد صحیح سمت میں نہیں آتے تو حالات بے قابو ہو کر نوے کی دہائی کی صورتِ حال پکڑ سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ افغانستان میں ڈاکٹر نجیب کی حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان میں ایک خلاء پیدا ہو گئی تھی جس کے بعد تمام دھڑے ملک کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے پر حملہ آور ہونا شروع ہوگئے تھے جس کے باعث ملک بڑے پیمانے پر تباہی سے دوچار ہوا تھا۔

‘افغان عوام حکومت اور طالبان دونوں سے ناخوش’

کابل میں مقیم افغان دفاعی تجزیہ کار مطیع اللہ خروٹی کا کہنا ہے کہ افغان عوام شورش کے باعث بہت زیادہ تشویش کا شکار ہیں۔ لڑائی کے باعث نہ صرف انھیں جانی بلکہ مالی طور پر بھی بہت نقصان کا سامنا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ افغان عوام جنگ سے عاجز آ چکے ہیں۔ وہ اس ضمن میں اگر افغان حکومت سے خوش نہیں ہیں تو دوسری جانب وہ طالبان تحریک سے بھی قطعی طور پر خوش نہیں۔

امریکی اور نیٹو فورسز کے انخلا کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال پر بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ دنیا بھر میں اگر دیکھا جائے تو کبھی بھی کسی ملک کا نظام دوسرے ممالک کی افواج یا لوگ نہیں سنبھال سکتے۔ ملکی معاملات اور انتظام صرف مقامی لوگ ہی سنبھال سکتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکی اور نیٹو افواج کی موجودگی میں افغان جوان اتنی جواں مردی سے مقابلہ نہیں کر سکتے جتنا ان کے انخلاء کے بعد کریں گے۔

مطیع اللہ خروٹی کے بقول اس وقت افغانستان ساڑھے تین لاکھ فوج رکھتا ہے ۔ان کے عزائم بلند ہیں اور وہ تن و تنہا بہتر طریقے سے ہر قسم کی شدت پسندی کو کچلنے کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد وقتی طور پر مالی یا انتظامی معاملات میں کچھ مشکلات درپیش آ سکتی ہیں، لیکن جیسا کہ مغربی ممالک نے 2025 تک افغان حکومت کو سپورٹ کرنے کا اعادہ کیا ہے تو وہ نہیں سمجھتے کہ افغان افواج کے مسائل دیر پا رہیں گے بلکہ وہ زیادہ بہتری سے ملک کا دفاع کر سکیں گے۔

دوسری جانب طالبان کا کہنا ہے کہ وہ بھی جنگ بندی کے حق میں ہیں لیکن افغان حکومت کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔

طالبان کے مطابق افغان حکومت ان سے صرف اس لیے جنگ بندی کا مطالبہ کرتی ہے، تاکہ وہ اطمینان سے حکومت کر سکیں۔ لیکن جو شرائط طالبان کی ہیں ان پر وہ بات چیت کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے وہ افغانستان میں جنگ جاری رکھنے کے لیے افغان حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments