کم جانگ ان: شمالی کوریا نے جینز، غیر ملکی فلموں کے خلاف اعلان جنگ کیوں کیا؟

لارا پیکر - بی بی سی نیوز سیول


Illustration of family watching South Korean TV

شمالی کوریا کی جانب سے حال ہی میں ایک نیا قانون متعارف کروایا گیا ہے جس کا مقصد عوام پر غیر ملکی مواد کے اثرات کو روکنا ہے۔ اس قانون کے تحت غیرملکی فلمیں، کپڑے یا یہاں تک کہ بعض الفاظ کے استعمال پر سخت سزائیں دی جائیں گی۔ لیکن ایسا کیوں کیا گیا ہے؟

یون می سو بتاتی ہیں کہ وہ اس وقت 11 برس کی تھیں جب انھوں نے پہلی مرتبہ ایک شخص کو جنوبی کوریائی ڈرامہ دیکھنے پر سزا ملتے دیکھا تھا۔

وہ شخص جس علاقے میں رہتا تھا وہاں بسنے والے شہریوں حکم تھا کہ وہ یہ سزا براہ راست دیکھیں گے۔ انھوں نے سیول میں اپنے گھر سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر آپ ایسا نہ کرتے تو اسے غداری سمجھا جاتا۔‘

ایسا کرنے سے شمالی کوریا کے حکام اس بات کو یقینی بنا رہے تھے کہ ہر کسی کو یہ بات معلوم ہو جائے کہ غیرقانونی ویڈیوز سمگل کرنے کے سزا پھانسی ہے۔

‘مجھے آج بھی وہ شخص اچھی طرح یاد ہے جس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی مگر مجھے اُس کی آنکھوں سے آنسو گرتے دکھائی دے رہے تھے۔ یہ منظر میرے لیے انتہائی پریشان کن تھا۔ اس کی آنکھوں پر باندھی گئی پٹی آنسوؤں میں بھیگی ہوئی تھی۔‘

‘انھوں نے اس شخص کو ایک لکڑی کے تخت سے باندھا اور پھر اسے گولی مار دی گئی۔’

ہتھیاروں کے بغیر جنگ

ذرا تھوڑی دیر کے لیے سوچیں کہ آپ مستقل لاک ڈاؤن میں پھنسے ہوئے ہیں اور اس دوران آپ کے پاس نہ تو انٹرنیٹ ہے اور نہ ہی سوشل میڈیا، صرف چند سرکاری ٹی وی چینلز ہیں جن پر صرف وہی مواد نشر کیا جا رہا ہے جو ملک کے سربراہ چاہتے ہیں کہ آپ سُنیں۔

یہ شمالی کوریا کے باسیوں کی زندگی ہے۔

اب ان کے سربراہ کم جونگ ان نے سختیوں میں مزید اضافہ کرتے ہوئے ایک نیا قانون متعارف کروایا ہے جس کے تحت ’مخالف سوچ‘ کو سلب کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

جس کسی کے پاس سے بھی جنوبی کوریا، امریکہ یا جاپان میں بننے والے مواد کی بڑی تعداد برآمد ہوئی اسے سزائے موت دی جائے گی۔ جن افراد کو یہ مواد دیکھتے ہوئے پکڑا گیا انھیں 15 سال قید کی سزا سنائی جائے گی۔

اور یہ سزائیں صرف اس بات تک محدود نہیں کہ آپ کیا دیکھتے ہیں۔

حال ہی میں کم جونگ ان کی جانب سے سرکاری میڈیا کو لکھے گئے ایک خط میں ملک کی ’یوتھ لیگ‘ کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ نوجوانوں میں ‘انفرادیت پسند، سوشلسٹ مخالف اور ناگوار رویوں کے خلاف کریک ڈاؤن کریں۔ وہ غیر ملکی زبانوں کے الفاظ، بال سنوارنے کے طریقے (ہیئر سٹائل) اور کپڑوں پر بھی پابندی عائد کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ انھیں ‘زہر’ سے تشبیہ دیتے ہیں۔

Kim Jong-un

سیول سے کام کرنے والے ایک آن لائن جریدے ڈیلی این نے جس کے شمالی کوریا میں ذرائع موجود ہیں، خبر شائع کی کہ تین نوجوانوں کو ایک حراستی کیمپ میں بھیجا گیا ہے کیونکہ انھوں نے اپنے بال ’کے پوپ‘ یعنی جاپانی موسیقی کے فنکاروں کی طرح کٹوائے تھے اور اپنی پتلون ٹخنوں سے اوپر رکھی تھی۔ بی بی سی اس خبر کی تصدیق نہیں کر سکا ہے۔

یہ سب اس لیے ہے کیونکہ کم جونگ ایک ایسی جنگ کی حالت میں ہیں جس میں جوہری ہتھیاروں یا میزائلوں کا استعمال نہیں ہو رہا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وہ شمالی کوریا کے لوگوں تک پہنچنے والی بیرونی معلومات کو ایک ایسے وقت پر روکنے کی کوشش کر رہے ہیں جب ملک میں زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

وہ پُل جس پر قدم رکھ دیا تو غدار قرار دیے جاؤ گے

شمالی کوریا میں ہار کا کیا انجام ہوتا ہے؟

شمالی کوریا کے دوڑتے باڈی گارڈز

ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک میں لاکھوں افراد بھوک و افلاس کا شکار ہو رہے ہیں اور کم جونگ یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ریاست کی جانب سے احتیاط سے تیار کردہ پروپیگنڈا دکھا کر ان کی بھوک کی تسکین کی جائے۔

پچھلے سال کورونا وائرس کے وبائی مرض کے ردعمل میں جنوبی کوریا نے اپنی سرحدیں بند کر لی تھیں جس کے باعث ملک کو پہلے کی نسبت دنیا سے کہیں زیادہ منقطع کر دیا گیا ہے۔

چین سے ہونے والی تجارت اب تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ آہستہ آہستہ اس میں بہتری آ رہی ہے لیکن برآمدات تاحال انتہائی کم سطح پر ہیں۔ رواں برس کے اوائل میں کم نے یہ اعتراف کیا تھا کہ لوگ ‘بدترین حالات‘ کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

قانون کیا کہتا ہے؟

ڈیلی این کے نے سب سے پہلے اس حوالے سے رائج قانون کی کاپی حاصل کی۔ اس کے ایڈیٹر ان چیف لی سانگ یونگ نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘اس کے مطابق اگر کوئی ملازم پکڑا جائے تو اس کی فیکٹری کے مالک کو بھی سزا مل سکتی ہے اور اگر بچہ ملوث پایا جائے تو اس کے والدین بھی سزا کے مستحق ہو سکتے ہیں۔ یہ نظام دراصل باہمی طور پر مانیٹر کرنے کا ہے جسے شمالی کوریا کی حکومت کی جانب سے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور اس کی جھلک قانون میں بھی ملتی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد جنوبی کوریا کے بارے میں نوجوان نسل کے خوابوں یا مثبت نظریات کو ‘سلب’ کرنا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ دوسرے لفظوں میں اگر دوسرے ممالک کی ثقافتیں یہاں مقبول ہوئیں تو اس سے ملک میں مزاحمت بڑھ سکتی ہے۔

گذشتہ برس جنوبی کوریا سے بھاگ نکلنے والے چند افراد میں سے ایک شوئی جانگ ہون نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جتنی سخت صورتحال ہوتی ہے، اتنی ہی سخت سزائیں اور قوانین وضوابط ہوتے ہیں۔‘

’ذہنی اعتبار سے جب آپ کا پیٹ بھرا ہوا ہوتا ہے اور آپ جنوبی کوریائی فلم آرام دہ ماحول میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن وہاں کھانا پینے کی اشیا کی قلت ہے اور زندہ رہنا بھی مشکل ہے تو لوگ شکوہ کرتے ہیں۔‘

کیا اس سے کوئی فائدہ ہو گا؟

Illustration of family watching TV powered by a car battery

پچھلے کریک ڈاؤنز نے صرف یہ ظاہر کیا ہے کہ کس طرح وسائل والے افراد غیر ملکی فلمیں گردش کروانے اور دیکھنے میں مصروف رہتے ہیں جو عام طور پر چین سے سرحد کے راستے سمگل کی جاتی ہیں۔

شوئی کہتے ہیں کہ کئی سالوں سے ملک میں ڈرامے یو ایس بی کے ذریعے گردش کرتے ہیں اور وہ اب بہت عام ہو چکے ہیں۔ انھیں چھپانا انتہائی آسان ہے اور ان پر خفیہ کوڈ بھی لگایا جا سکتا ہے۔

‘اگر آپ تین مرتبہ غلط خفیہ کوڈ لکھتے ہیں تو یو ایس بی سارا مواد خود بخود ڈیلیٹ کر دیتی ہے۔ اگر مواد بہت زیادہ حساس ہو تو آپ اسے ایک غلط خفیہ کوڈ کے ذریعے ڈیلیٹ کرنے کی ہدایت بھی دے سکتے ہیں۔

‘اس طرح بھی ہوتا ہے کہ یو ایس بی صرف ایک ہی کمپیوٹر پر کام کرنے لیے موزوں ہوتی ہے اور آپ اسے کسی دوسری ڈیوائس پر نہیں لگا سکتے یا کسی اور کو نہیں دے سکتے۔ اس میں موجود مواد صرف آپ دیکھ سکتے ہیں۔ تو اگر آپ اسے پھیلانا بھی چاہیں تو ایسا نہیں کر پائیں گے۔

می یاد کرتی ہیں کہ کیسے ان کے علاقے میں فلمیں دیکھنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑتی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ انھوں نے ایک کار بیٹری کسی سے حاصل کی اور اسے جینریٹر سے لگا کر ٹیلی ویژن چلایا۔ انھیں یاد ہے کہ وہ ‘جنوبی کوریائی ڈرامہ ’سٹیئر وے ٹو ہیون‘ دیکھتی تھیں۔

ڈرامہ ایک ایسی محبت کہانی تھی جس میں ایک لڑکی پہلے اپنی سوتیلی ماں کی صوبتیں برداشت کرتی ہے اور پھر کینسر سے لڑتی ہے، یہ ڈرامہ شمالی کوریا میں آج سے 20 برس قبل خاصا مقبول ہوا تھا۔

شوئی کا کہنا ہے کہ یہ وہ وقت ہے جب غیرملکی میڈیا کے مواد کی کشش بڑھ رہی تھی اور چین سے آنے والی سستی سی ڈیز اور ڈی وی ڈیز نے اس حوالے سے خاصی مدد کی تھی۔

کریک ڈاؤن کا آغاز

لیکن یہ زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا اور پیانگ یانگ میں حکومت نے اس ضمن میں سوچ بچار کرنا شروع کر دی۔

مسٹر شوئی یاد کرتے ہیں کہ کیسے سنہ 2002 کے آس پاس ایک یونیورسٹی پر سکیورٹی فورسز کے آپریشن کے دوران 20 ہزار سے زیادہ سی ڈیز پکڑی گئی تھیں۔

انھوں نے کہا کہ ‘یہ صرف ایک یونیورسٹی تھی۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ پورے ملک میں کتنی تعداد موجود تھی؟ حکومت حیرت زدہ تھی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب انھوں نے سزا میں سختی لانے کا فیصلہ کیا۔‘

Stairway to Heaven, 2003

SBS

کم جیوم ہیوک کا کہنا ہے کہ سنہ 2009 میں وہ صرف 16 سال کے تھے جب انھیں خصوصی یونٹ کے محافظوں نے پکڑ لیا تھا۔ اس خصوصی یونٹ کو غیر قانونی ویڈیوز شیئر کرنے والے افراد کو گرفتار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔

انھوں نے اپنے ایک دوست کو جنوبی کوریا کے پاپ میوزک کی چند ڈی وی ڈیز دی تھیں جو انھیں ان کے والد نے چین سے سمگل کر کے دلوائی تھیں۔

ان کے ساتھ حراست کے دوران ایک بالغ کی طرح سلوک کیا گیا اور تفتیش کے لیے خفیہ کمرے لگائے گئے اور محافظوں نے انھیں زبردستی جگائے رکھا۔ اس کا کہنا ہے کہ چار دن تک انھیں بار بار گھونسیں اور لاتیں ماری گئیں۔

انھوں نے بی بی سی سے سیول سے بات کی جہاں وہ آج کل رہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ‘میں بہت زیادہ خوفزدہ ہو گیا تھا۔’

’میں نے سوچا کہ میری دنیا ختم ہو رہی ہے۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ میں نے یہ ویڈیو کس طرح حاصل کی اور میں نے اسے کتنے لوگوں کو دکھایا۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرے والد چین سے ڈی وی ڈی لے کر آئے ہیں۔ میں کیا کہہ سکتا تھا؟ یہ میرے والد کی بات تھی۔ میں نے کچھ نہیں کہا، میں نے صرف اتنا کہا کہ مجھے نہیں معلوم، مجھے نہیں معلوم۔ پلیز مجھے جانے دو۔‘

جیوم ہیئوک کا تعلق پیانگ یانگ کے ایک کھاتے پیتے کنبے سے ہے اور ان کے والد کو انھیں آزاد کروانے کے لیے محافظوں کو رشوت دینا پڑی۔ تاہم یہ سب کِم کے نئے قانون کے تحت ناممکن ہو گی۔

اس وقت ایسے ہی جرائم کے الزام میں پکڑے گئے بہت سے افراد کو مزدور کیمپوں میں بھیج دیا گیا تھا۔ لیکن جب اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا تو انھیں سزائیں بڑھانی پڑیں۔

شوئی کے مطابق ’پہلے تو یہ سزا مزدور کیمپ میں ایک سال کے لگ بھگ تھی، جسے تبدیل کرتے ہوئے تین سال سے زیادہ کر دیا ہے۔ ابھی اگر آپ ان مزدور کیمپوں میں جاتے ہیں تو 50 فیصد سے زیادہ ایسے نوجوان وہاں موجود ہیں جنھوں نے غیر ملکی میڈیا کا مواد دیکھا۔‘

‘اگر کوئی دو گھنٹے کا غیرقانونی مواد دیکھتے ہوئے پکڑا جائے تو یہ سزا تین سال ہو جائے گی، جو ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ‘

Pirate DVD and VCD are on sale at a street in Hefei, Anhui province September 23, 2009

ہمیں مختلف ذرائع کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ گذشتہ سال شمالی کوریا میں جیلوں کی توسیع کی گئی ہے اور مسٹر شوئی کا خیال ہے کہ یہ سخت قوانین کا اثر ہے۔

‘وہاں فلم دیکھنا عیش و عشرت کا کام ہے۔ فلم دیکھنے کے بارے میں سوچنے سے پہلے آپ کو پہلے کھانے کا انتظام کرنا ہو گا۔ جب صورتحال اتنی بری ہو کہ آپ کھانا بھی نہ کھا سکتے ہوں تو ایسے میں اگر آپ کے خاندان کا ایک شخص بھی کسی لیبر کیمپ میں بھیجا جائے تو یہ تباہ کن ہو سکتا ہے۔‘

تو پھر لوگ ایسا مواد کیوں دیکھتے ہیں؟

گیوم ہیئوک کے مطابق ’ہمیں یہ ڈرامے دیکھنے کے لیے اتنے جتن اٹھانے پڑتے ہیں لیکن کوئی بھی ہمارے تجسس کو مات نہیں دے سکا۔ ہم جاننا چاہتے تھے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔‘

گیوم ہیئوک نے آخرکار جب اپنے ملک کے بارے میں سچ جانا تو ان کی زندگی بدل گئی۔ وہ شمالی کوریا کے ان چند مراعات یافتہ افراد میں سے ایک تھے جن کو بیجنگ میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت تھی۔ یہاں انھیں انٹرنیٹ کی سہولت میسر تھی۔

‘پہلے تو مجھے شمالی کوریا سے متعلق باتوں پر یقین نہیں آتا تھا۔ میں نے سوچا کہ مغربی لوگ جھوٹ بول رہے ہیں۔ وکی پیڈیا جھوٹ بول رہا ہے، میں اس پر کیسے یقین کر سکتا ہوں؟ لیکن میرا دل اور دماغ منقسم تھے۔’

لہٰذا میں نے شمالی کوریا کے بارے میں بہت ساری دستاویزی فلمیں دیکھیں اور بہت سے مقالے پڑھے۔ اور پھر میں نے محسوس کیا کہ وہ شاید سچ ہیں کیوں کہ وہ جو کچھ کہہ رہے تھے وہ معنی خیز ہے۔

‘جب مجھے یہ احساس ہوا کہ میرے دماغ میں تبدیلی رونما ہو رہی ہے اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔’

وہ آخر کار بھاگ کر سیول آ گئے۔

می سو ایک فیشن مشیر کی حیثیت سے اپنے خوابوں کو جی رہی ہیں۔ انھوں نے اپنے نئے آبائی ملک میں جو سب سے پہلا کام کیا ہے وہ یہ ہے کہ اسٹیئر وے ٹو ہیون میں جتنے مقامات دیکھے وہاں پر گئیں۔

تاہم ان کی کہانی جیسی کہانیاں اب بہت کم ہیں۔

سخت کنٹرول والی سرحد پر موجودہ ‘شوٹ ٹو کل’ یعنی ہلاک کرنے کے لیے گولی مارنے کے آرڈر کے باعث ملک چھوڑنا تقریبا ناممکن ہو گیا ہے۔ اور مسٹر کِم کے نئے قانون سے مزید سختی بڑھے گی۔

شوئی کو اپنے کنبے کو اور شمالی کوریا میں چھوڑنا پڑا تھا۔ ان کا خیال ہے کہ ایک یا دو ڈرامے دیکھنے سے کئی دہائیوں کے نظریاتی کنٹرول کو ختم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ان کے خیال میں شمالی کوریائی باشندوں کو شبہ ہے کہ ریاستی پروپیگنڈا حقیقت نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’شمالی کوریائی عوام کے دل میں شکایت کا بیج ہے لیکن وہ نہیں جانتے کہ ان کی شکایت کس کے خلاف ہونی چاہیے۔‘

’ان کے پاس اس کا اظہار کرنے کے لیے سمت نہیں ہے۔ میرا دل ٹوٹ جاتا ہے جب میں انھیں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں اور وہ سمجھ نہیں پاتے۔ کسی کو انھیں جگانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp