کشمیری قیدیوں کی بیٹیاں: ’بابا جیل میں ہیں مگر مجھے روز شیشے میں دِکھتے ہیں‘

ریاض مسرور - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، سرینگر


کشمیر

رُوا

’میں روز سپنے میں بابا کو دیکھتی ہوں، جیسے وہ مجھے بلا رہے ہوں اور کہہ رہے ہوں کہ میں جیل سے چھوٹ گیا۔ پھر ماں جگاتی ہے لیکن مجھے کچھ وقت کے بعد ہوش آتا ہے۔’

معروف کشمیری علیحدگی پسند رہنما شبیر احمد شاہ کی چھوٹی بیٹی سحر شبیر شاہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے والد کی گرفتاری کے باعث افسردہ اور ذہنی تناؤ کا شکار رہتی ہیں۔

چار سال قبل انڈیا کے وفاقی تحقیقاتی ادارے این آئی اے نے شدت پسندوں کی فنڈنگ کے معاملے میں درجنوں علیحدگی پسند رہنماوٴں اور کارکنوں کے ساتھ ساتھ شبیر شاہ کو بھی گرفتار کر کے دلی کی تہاڑ جیل میں قید کر دیا تھا۔ ان میں ہند نواز رہنما اور سابق رکن اسمبلی انجنئیر رشید اور محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی کے نوجوان لیڈر وحید الرحمٰن پرّہ بھی شامل ہیں۔

سحر شبیر شاہ اس دوران ذہنی تناوٴ کی شکار ہوگئیں۔ والد کے ساتھ قربت کی وجہ سے وہ طویل عرصے تک یہ سمجھ نہیں پائیں کہ وہ جیل میں کیوں ہیں۔

‘مجھے ہر بار کھڑکی یا الماری کے شیشے میں بابا دِکھتے تھے۔ ایک بار الماری کے شیشے میں اندر سے دِکھے اور بولا مُجھے باہر نکالو، میں نے شیشہ توڑ دیا۔ میرے دونوں ہاتھ زخمی ہو گئے۔ اب میری ماں گھر کے سبھی شیشے کپڑے سے ڈھک دیتی ہیں۔’

سحر

سحر

سحر کی تعلیم بھی متاثر ہوئی ہے۔ نفسیاتی معالج کے زیر علاج ہوتے ہوئے وہ بارہویں جماعت کے امتحان میں شریک ہوئیں۔ ‘میں بڑی مقدار میں تناوٴ کم کرنے والی دوائیاں لیتی تھی، بابا کو مِس بھی کر رہی تھی، اسی لیے میں نے اچھا سکور نہیں کیا۔ لیکن اب میں نے سوشل میڈیا پر ان کی رہائی کے لیے مہم شروع کر دی ہے۔’

تہاڑ جیل میں ہی قید ایک اور حریت رہنما الطاف شاہ کی بیٹی رُوا شاہ پچھلے چار سال سے نہایت تکلیف دہ دور سے گزری ہیں۔ وہ آج کل ترکی میں مقیم ہیں لیکن گذشتہ برسوں کے دوران اپنے بابا کے ساتھ روزانہ ملاقات کی مجبوری کے سبب اُنھوں نے کافی وقت نئی دلی میں گزارا۔

‘میرا روزانہ تہاڑ جیل میں جانا، تلاشی کا وہ مرحلہ، پھر لمبا انتظار اور جب میری باری آتی تھی تو سب کے سامنے اُن کے ساتھ بات کرنا، شیشے کی دیوار کی آڑ سے، اوہ! میں اُن دنوں کی یاد کر کے پریشان ہوجاتی ہوں۔’

محمد الطاف شاہ حُریت کانفرنس کے ایک دھڑے کے سربراہ سید علی گیلانی کے داماد بھی ہیں اور گیلانی کی سربراہی والی حریت کانفرنس کے اہم زعماٴ میں سے ہیں۔

کشمیر

سندس

رُوا کی دوہری پریشانی یہ ہے کہ تہاڑ جیل سے جب اُن کے والد کی خیریت کے بارے میں خبر ٹیلیفون کے ذریعے کشمیر پہنچتی ہے تب جا کے وہ ترکی سے فون کر کے بالواسطہ طریقے سے معلوم کر پاتی ہیں کہ اُن کے والد صحیح سلامت ہیں۔

میر واعظ عمر فاروق کے سیاسی معتمد (پولیٹکل سیکریٹری) آفتاب ہلالی شاہ عرف شاہد الاسلام بھی ان ہی الزامات کے تحت تہاڑ جیل میں مقید ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کورونا سے وفات پانے والے کشمیر کی جیل میں قید رہنما اشرف صحرائی کون تھے

’کشمیر میں تو حکومت کو مُردوں سے بھی خطرہ محسوس ہوتا ہے‘

کشمیریوں کو کورونا کے علاوہ نئے فوجی ضابطے سے بھی خطرہ؟

1947 کے وہ چار دن جن میں مسئلہ کشمیر پہلے پیچیدہ ہوا، پھر ناقابل حل

جب وہ گرفتار ہوئے تو اُن کی چھوٹی بیٹی سُندس شاہ نو برس کی تھیں۔ سُندس کہتی ہیں کہ ‘پچھلے سال جب میں ماں کے ساتھ تہاڑ جیل ملاقات کے لیے پہنچی تو پاپا نے ماں سے پوچھا کہ سُندس کہاں ہے، وہ کیسی ہے۔ ماں نے میری طرف اشارہ کیا تو وہ رو پڑے۔ اتنا وقت بیت چکا تھا کہ اُنھوں نے مجھے پہچانا بھی نہیں۔ اُس کے بعد ہم گھر لوٹے تو میں کئی دن تک سو نہیں پائی۔’

آفتاب شاہ کی بڑی بیٹی سُزین شاہ کہتی ہیں: ‘ہم یتمیوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ خاص طور پر کورونا وبا کے بعد تو اب ملاقاتیں بھی بند ہیں، فون مہینے میں ایک بار آتا ہے۔ چار منٹ بات کرنے کی اجازت ہوتی ہے اور اس میں بھی آواز خراب ہوتی ہے۔ چار منٹ میں انسان روئے یا بات کرے؟’

قابل ذکر بات یہ ہے کہ 2017 میں این آئی اے نے دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزامات کے تحت کشمیر کی دو علیحدگی پسند جماعتوں لبریشن فرنٹ اور جماعت اسلامی کو کالعدم قرار دیا اور درجنوں رہنماوٴں اور اُن کے کارکنوں کو گرفتار کر کے تہاڑ جیل میں قید کر دیا۔

کشمیر

سُزین

اگست 2019 میں جب کشمیر کی نیم خود مختاری کو ختم کیا گیا اور ساتھ ہی کئی ماہ تک کرفیو نافذ رہا اور مواصلاتی ذرائع پر پابندی عائد کی گئی تو اس دوران بھی سینکڑوں کشمیریوں کو قید کیا گیا۔

کشمیری قیدیوں کے ساتھ رشتے داروں کی ملاقاتیں ایک معمول تھا، لیکن گذشتہ برس اپریل میں انڈیا نے کورونا وبا کے پھیلاوٴ کو دیکھتے ہوئے جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ اُن کے رشتے داروں کی ملاقاتوں پر پابندی عائد کر دی تھی۔

اب قیدیوں کی بیٹیوں کی پریشانی میں اضافے کا سبب جیلوں میں کورونا وائرس کا پھیلاوٴ بھی ہے۔

گذشتہ ماہ سید علی گیلانی کی حریت کانفرنس کے اہم رہنما محمد اشرف خان عرف صحرائی جیل میں ہی کورونا وائرس کا شکار ہوئے اور اسی حالت میں اُن کی زیرحراست موت ہوگئی۔

حکومت نے تصدیق کی کہ اُن کی موت کورونا کی وجہ سے ہوئی ہے تاہم اُن کے اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ موت سے قبل اُن کا ٹیسٹ منفی تھا اور اُن کی موت جیل حکام کی عدم توجہی کی وجہ سے ہوئی۔

شاہد الاسلام

شاہد الاسلام

سحر شاہ، سُزین، سُندس، رُوا شاہ اور دوسرے ایسے قیدیوں کی بیٹیاں اور بیٹے اب اس بات سے پریشان ہیں کہ جیلوں میں کورونا وائرس کے پھیلاوٴ کی سرکاری تصدیق کے باوجود حکومت قیدیوں کو رہا کر رہی ہے نہ ہی اُنھیں کشمیر کی جیلوں میں منتقل کر رہی ہے۔

سُندس اور اُن کی بڑی بہن سُزین شاہ نے انڈین وزیرِ اعظم نریندر مودی سے اپنے والد کی رہائی کی اپیل کی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جب کشمیر ’ایشیا کے سب سے بڑے بدمعاش‘ کو پچھتر لاکھ روپے میں بیچ دیا گیا

کشمیر کو خصوصی حیثیت کیسے ملی اور اسے ختم کس بنیاد پر کیا گیا؟

’کشمیر میں تو حکومت کو مُردوں سے بھی خطرہ محسوس ہوتا ہے‘

‘مہربانی کر کے اُنھیں رہا کیجیے۔ وہ کئی بیماریوں میں مبتلا ہیں، پلیز اُنھیں ضمانت پر رہا کیجیے، گھر میں نظر بند رکھیے جیسے باقی لوگوں کو رکھا ہے۔ ہم اُن کی دیکھ بھال کرنا چاہتے ہیں۔ اچھا اگر گھر نہیں تو کم از کم کشمیر کی کسی جیل میں منتقل کر دیں۔ ہم وہاں کم از کم جا تو سکتے ہیں۔ پتہ تو چلے وہ کس حال میں ہیں۔’

شبیر شاہ کی بیٹی سحر شاہ نے بتایا کہ اُن کے والد جن چار ساتھی قیدیوں کے ساتھ نماز پڑھتے تھے وہ چاروں کووڈ میں مبتلا ہو گئے ہیں اور شبیر شاہ پہلے ہی کئی عارضوں میں مبتلا ہیں۔ ‘کم سے کم اُنھیں کشمیر کی جیل میں شفٹ کیا جاتا تو ہم راحت کا سانس لیتے۔’

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی 13 بڑی جیلوں میں فی الوقت 4500 کشمیری قید ہیں۔ جیل حکام کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر کی جیلوں میں کورونا وائرس کے خلاف سخت حفاظتی انتظامات ہیں اور قیدیوں کی جانچ اور حفاظتی ٹیکے لگانے کا بھی بہتر بندوبست ہے۔

کشمیر

سندس اور سُزین

اسی دوران انڈین سپریم کورٹ نے انڈین حکومت سے کہا تھا کہ کورونا وبا کو دیکھتے ہوئے جیلوں میں ہجوم کم کرنے کے لیے تہاڑ جیل میں قید لوگوں کو اپنے آبائی علاقوں میں ہی قید کیا جائے۔

ابھی تک اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے اور کشمیری قیدیوں کی بیٹیاں سپریم کورٹ کے اس حکمنامے کی دہائی دے کر انڈین حکومت سے مسلسل اپیلیں کر رہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp