کیا چین انڈیا میں جاری صورتحال سے فائدہ اٹھا کر خطے میں اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے؟

پدماجا ونتکرامن - بی بی سی مانٹرنگ کے لیے


انڈیا جب کورونا وائرس کی دوسری تباہ کن لہر کی لپیٹ میں تھا تو چین نے اس صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خطے کے ان ملکوں کو جو ماضی میں ویکسینیشن کے لیے انڈیا پر انحصار کرتے تھے، ویکسین فراہم کر کے خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کی۔

چین نے کروڑوں کی تعداد میں ویکسین کے ٹیکوں کی فراہمی اور کووڈ 19 کے بارے میں مسلسل مشاورت کر کے ایک ایسے خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوشش کی جسے انڈیا روایتی طور پر اپنا ‘بیک یارڈ’ سمجھتا ہے۔

چین کووڈ 19 کے ذریعے اپنے ‘بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو’ (بی آر آئی) کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے جس میں انڈیا کے علاوہ جنوبی ایشیا کے بہت سے ملک پہلے ہی سے شریک ہیں۔

بی آر آئی میں شامل ملکوں کی مدد

چین نے جولائی سنہ 2020 میں کثیر الملکی مذاکرات کی میزبانی شروع کی جن کا مقصد جنوبی ایشیا کے ملکوں کو اس عالمی وبا سے نبرد آزما ہونے میں مدد دینا تھا۔

اس سلسلے کی چوتھی اور اب تک کی آخری میٹنگ اپریل کے آخر میں ہوئی تھی جس میں پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش، چین، نیپال اور سری لنکا کے وزراء خارجہ نے حصہ لیا تھا۔ یہ تمام ملک بی آر آئی منصوبے کا حصہ ہیں۔

اس میں انڈیا موجود نہیں تھا۔ انڈیا متعدد بار کہہ چکا ہے کہ وہ بی آر آئی کا حصہ نہیں بنے گا، اور اس کی وجہ انڈیا کے سرحدی خومختاری کے بارے میں تحفظات ہیں۔ انڈیا اور چین کے درمیان گزشتہ برس سرحدی کشیدگی کے درمیان انڈیا کی ان مذاکرات میں عدم موجودگی کوئی حیران کن بات نہیں ہے۔

چین کے سرکاری نشریاتی ادارے سی جی ٹی این کے مطابق اپریل کی 27 تاریخ کو ہونے والے مشاورتی اجلاس میں چین نے خطے کے ملکوں کو ویکسین کی فراہمی کی یقین دہانی کروائی۔ سی جی ٹی این نے مزید کہا کہ اجلاس کے شرکا نے بی آر آئی کے تحت اپنا تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔

بی آر آئی کو کووڈ 19 کی امداد سے جوڑنا

چین کئی برس سے بی آر آئی کے تحت شروع کیے گئے منصوبوں کو خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ اس کے تحت بیجنگ کو دوسرے ملکوں میں جو پہنچ حاصل ہوئی ہے اے اب ان ملکوں کی طبی امداد سے بھی جوڑا جا رہا ہے۔

ہسپتال

انڈیا کے ہسپتالوں میں مریضوں کی بھیڑ ہے اور ایک ایک بیڈ پر دو دو لیٹے ہیں

اس سال مارچ میں چین کے صدر شی جن پنگ نے اپنے سری لنکن ہم منصب گوتابایا راجپکسے سے کہا تھا کہ چین سری لنکا کو کووڈ 19 پر قابو پانے میں مدد دیتا رہے گا اور اس کے ساتھ ہی چین کولمبو پورٹ سٹی اور ہمبنٹوٹا کی بندرگاہ کے منصوبوں کو تیزی سے آگے بڑھانے اور بی آر آئی کے تحت قریبی تعاون جاری رکھے گا۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا میں تیار ہونے والی کورونا ویکسین کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

سائنو فارم ویکسین کن افراد کے لیے موزوں نہیں ہے؟

ڈارک ویب پر کورونا کی ویکسین اور ویکسین پاسپورٹ کی فروخت کا انکشاف

اسی طرح صدر شی جن پنگ نے مئی کی 26 تاریخ کو نیپال کے صدر بدہیا دیوی بھنڈاری سے بات کی اور بی آر آئی کے تحت تعاون کی رفتار کو تیز کرنے اور ہمالیہ کے آر پار کثیر الجہتی مواصلات کے منصوبے ‘ٹرانس ہمالین ملٹی ڈائمنیشنل کنکٹیوٹی نیٹ ورک’ کو بتدریج آگے بڑھانے کا یقین دلایا۔

ویکسین

ویکسین کی قلت کے سبب کئی مراکز عبوری طور پر بند

مئی کے مہینے ہی میں چین کے روایتی دوست پاکستان میں رشاکئی خصوصی صنعتی زون کا افتتاح ہوا جو پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک کے منصوبے کے تحت تعمیر کیا جا رہا ہے۔

انڈیا کی ویکسین کی جگہ چینی ویکسین نے لے لی ہے

اس سال کے شروع میں انڈیا ‘اوکسفورڈ ایسٹرا زینکا’ ویکسین برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک بن کر سامنے آیا جب انڈیا کے ویکسین بنانے والے سب سے بڑے ادارے سیرم انسٹی ٹیوٹ نے لائسنس کے تحت کووی شیلڈ کے نام سے ویکسین تیار کرنا شروع کی۔ انڈیا نے ‘ویکسین متری’ یعنی ویکسین کی دوستی نامی منصوبے کے تحت سری لنکا، بھوٹان، نیپال اور بنگلہ دیش کو ویکسین فراہم کرنا شروع کی۔

لیکن اس کے بعد انڈیا کو کووڈ 19 کی دوسری بڑی لہر نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور انڈیا کو اپنے شہریوں کے لیے ویکسین پوری کرنا مشکل ہو گیا جس کی وجہ سے ویکسین کی ہمسایہ ملکوں کو فراہمی بند کرنا پڑی اور یوں اس نے چین کو اپنی جگہ لینے کا موقع دے دیا۔

چین نے سائنوفارم کووڈ 19 کی دس لاکھ خوراکیں سری لنکا کو فراہم کیں اور پانچ لاکھ خوراکیں بنگلہ دیش کو دیں۔ چین نے نیپال کو بھی اضافی ویکسین دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ مالدیپ کو بھی چین نے ویکسین اور طبی امداد دی۔ چین نے افغانستان کو بھی چار لاکھ سائنو فارام ٹیکے بھیجے۔

انڈیا کی سفارتی ناکامی سے فائدہ

بیجنگ کی طرف سے ان ممالک کو ویکسین کی یہ امداد ایک ایسے وقت دی گئی جب انڈیا کے اپنے ہمسایہ ملکوں خاص طور پر نیپال اور بنگلہ دیش سے تعلقات دباؤ کا شکار ہیں۔

نیپال کے وزیر اعظم کے پی شرما اولی کے دورہ اقتدار میں نیپال کا چین کی طرف جھکاؤ بڑھا ہے۔ انڈیا اور نیپال میں گزشتہ سال جون میں اس وقت کشیدگی مزید بڑھ گئی تھی جب نیپال نے اپنے نئے جغرافیائی نقشے جاری کیے تھے۔ ان نقشوں میں نیپال نے انڈیا کے ساتھ متنازع حصوں کو اپنی سرحدوں میں دکھایا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

انڈین اور چینی فوجیوں کے درمیان سکم کی سرحد پر ’معمولی جھڑپ‘ ہوئی: انڈین آرمی

انڈیا چین سرحدی تنازع: نکُولا کا محاذ انڈیا کے لیے اہم کیوں ہے؟

انڈیا چین کشیدگی: کیا چین کے رویے میں نرمی آ رہی ہے؟

بنگلہ دیش نے متعدد مواقعوں پر انڈیا کے اعلیٰ عہدیداروں کی طرف سے انڈیا کے سنہ 2019 میں منظور کیے گئے متنازع شہریت کے قوانین کے بارے میں دیے گئے بیانات پر اپنی ناپسندیدگی یا ناراضی کا اظہار کیا ہے۔

چین کی طرف سے انڈیا پر ‘مداخلت’ اور’ کیچڑ اچھالنے’ پر تنقید

چین کے ریاستی نشریاتی ادارے نئی دلی پر ویکسین کی برآمدات روکنے پر مسلسل تنقید کرتے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انڈیا کے ہمسایہ ممالک جانتے ہیں کہ وہ کس ہمسایہ ملک پر انحصار کر سکتے ہیں۔

سرکار کی سرپرستی میں چلنے والے چینی ادارے گلوبل ٹائمز نے 12 مئی کو تحریر کیا تھا کہ ‘انڈیا کی طرف سے ضروری امداد نہ ملنے کے باوجود انڈیا کو خوش کرنے کے لیے نیپال چین سے صحت مندانہ تعلقات قائم کرنے میں ناکام رہا۔ چینی ویکسین کو منظور کرنے میں نیپال نے اس لیے تاخیر کی کہ وہ انڈیا کی ویکسین کو ترجیح دینا چاہتا تھا۔ جب نیپال کو وبا کی دوسری لہر نے بری طرح جکڑ لیا تو توقعات کے باوجود نئی دلی نے کھٹمنڈو پر کوئی رحم نہیں کیا۔’

اس سال جنوری میں گلوبل ٹائمز نے انڈیا کی حکومت پر اس وقت مداخلت کرنے کا الزام لگایا تھا جب تجربات کے بعد بنگلہ دیش نے سائنو ویکسین کی وصولی روک دی تھی اور ویکسین بنانے والی کمپنی نے مبینہ طور پر بنگلہ دیش کی حکومت سے اس کی تیاری پر ہونے والی لاگت میں اپنا حصہ ڈالنے کی بات کی تھی۔

گلوبل ٹائمز نے چین کی سوشل سائنسز کی اکیڈمی سے وابستہ ماہر تیان گوانگ کیانگ کے حوالے سے لکھا تھا کہ ‘انڈیا کووڈ 19 کے خلاف جاری کوششوں میں جنوبی ایشیا کے ملکوں سے چین کے تعاون کو بدنام کر رہا ہے کیونکہ یہ خطہ روایتی طور پر انڈیا کے زیر اثر رہا ہے۔’

انڈیا کے ذرائع ابلاغ میں ‘دی پرنٹ’ نامی ویب سائٹ نے یکم جون کو تحریر کیا کہ اس وبا نے جنوبی ایشیا میں انڈیا کی محدود قائدانہ صلاحیتوں کو ثابت کر دیا ہے‘ جس سے چین کی خطے میں پوزیشن مزید مضبوط ہوئی ہے۔

چین کا ایک اور مقصد

اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کرنے کے علاوہ چین کی طرف سے جنوبی ایشیا کے ملکوں کو ویکسین کی سپلائی اور وبا پر قابو پانے میں مدد دینے کا ایک اور محرک یہ ہو سکتا ہے کہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ یہ وبا ان ملکوں سے چین کے اندر دوبارہ پھیلے۔

ہانگ کانگ کی ایک یونیورسٹی کے پروفیسر لی می ونگ کے حوالے سے ہانگ کانگ کے سرکردہ اخبار ساؤتھ چائنا مارنگ پوسٹ نے لکھا کہ ’چین کو یہ خدشہ ہے کہ انڈیا میں جو حال ہوا ہے وہ ان ملکوں میں نہ ہو، وہاں وبا اتنی شدت سے پھیلے اور اس سے نمٹنے کے لیے ان کے پاس طبی ساز و سامان اور ادویات موجود نہ ہوں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp