کچھ ڈاکٹر عزیز الحق اور رابعہ سنبل کے بارے میں: ڈاکٹر شیر شاہ اور عظمیٰ عزیز سے گفتگو


نوٹ: ’ہم سب‘ پر پاکستان کے دانشور عزیز الحق کے بھائی انوارالحق کا انٹرویو چھپنے کے بعد میری آنسرنگ مشین پر ڈاکٹر شیر شاہ کا ایک میسج تھا کہ وہ مجھ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے ان سے رابطہ قائم کیا تو کہنے لگے کہ وہ عزیز الحق کی دوست رابعہ سنبل کی بہن ڈاکٹر انیتا کو جانتے ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں عزیز الحق کی بیٹی عظمیٰ عزیز کو جانتا ہوں۔ میں نے ڈاکٹر شیر شاہ سے پوچھا کہ اگر ان کی اجازت ہو تو میں عظمیٰ عزیز سے درخواست کروں کہ وہ ہم دونوں کے زوم انٹرویو کا انتظام و اہتمام کریں۔ ڈاکٹر شیر شاہ راضی ہو گئے چنانچہ میں نے ڈاکٹر شیر شاہ کا انٹرویو ریکارڈ کر لیا جس میں ہم نے نہ صرف عزیز الحق اور رابعہ سنبل کے حوالے سے مکالمہ کیا بلکہ عزیز الحق کے سیاسی دور کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا۔ اب ’ہم سب‘ کے قارئین کے لیے وہ مکالمہ حاضر ہے۔ خالد سہیل

ڈاکٹر سہیل: آپ رابعہ سنبل کو کیسے جانتے ہیں؟

ڈاکٹر شیر شاہ: میں ڈاکٹر انیتا کا دوست ہوں جو رابعہ سنبل کی چھوٹی بہن ہیں۔ میں ڈاکٹر انیتا کے شوہر ڈاکٹر آغا طارق سجاد کا بھی دوست ہوں۔ ڈاکٹر انیتا اور ڈاکٹر آغا طارق رابعہ سنبل کا بڑے پیار اور اپنائیت سے ذکر کیا کرتے تھے اور بتاتے تھے کہ ان کی زندگی ان کے شوہر کی خودکشی کے بعد کتنی بدل گئی تھی۔ پھر رابعہ سنبل نے شاہد ندیم سے شادی کر لی اور جب شاہد ندیم سے بھی طلاق ہو گئی تو وہ کچھ اور بھی دکھی ہو گئیں۔ ڈاکٹر انیتا ایک بہت ہی اعلیٰ اخلاق کی حامل خاتون تھیں وہ ایک محبت کرنے والی بیوی اور ماں تھیں۔ وہ میری بہت اچھی دوست تھیں۔ کرونا وبا نے انہیں ہم سے چھین لیا۔

ڈاکٹر سہیل: آپ کی رابعہ سنبل سے کیسے ملاقات ہوئی؟ اور آپ کا ان کے بارے میں کیا تاثر ہے؟

ڈاکٹر شیر شاہ : رابعہ سنبل جب اپنی بہن سے ملنے آتی تھیں تو میری بھی ان سے ملاقات ہو جاتی تھی۔ جب میری انیتا اور آغا طارق سے سیاست اور فلسفے کے موضوعات پر تبادلہ خیال ہوتا تو رابعہ اسے بڑے غور سے سنتیں۔ وہ ایک ذہین اور پڑھی لکھی خاتون تھیں۔ وہ ادبی اور سیاسی شعور رکھتی تھیں۔ وہ صحیح معنوں میں ایک دانشور تھیں۔ ان دنوں ہم مارکس ’اینجلز‘ طبقاتی جدوجہد اور عورتوں کے حقوق کے حوالے سے بات چیت کرتے تھے جو ان کے بھی پسندیدہ موضوعات تھے۔

ڈاکٹر خالد سہیل: وہ دیکھنے میں کیسی تھیں؟
ڈاکٹر شیر شاہ: وہ ایک جاذب نظر اور WELL COMPOSED خاتون تھیں۔ وہ بہت سمجھدار تھیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل: کیا ڈاکٹر انیتا نے آپ سے رابعہ سنبل ’ان کے شوہر سعید اور دوست عزیز الحق کا اور ان کے ساتھ ہونے والی ٹریجڈی کا ذکر کیا تھا؟

ڈاکٹر شیر شاہ: ذکر تو کیا تھا لیکن کبھی تفاصیل بیان نہیں کیں۔ وہ تفاصیل مجھے آپ کے کالم سے ملیں۔ میں نے آپ کا مضمون پڑھا تو مجھے یوں لگا کہ میں ان کرداروں کو جانتا ہوں اسی لیے میں نے آپ کو فون کیا اور پیغام بھیجا۔

جہاں تک رابعہ سنبل کا تعلق ہے اس حادثے کے کئی سال بعد 1989 میں میری ملاقات شاہد ندیم سے ہوئی ان دنوں وہ بھی ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے ساتھ کام رہے تھے اور میں نے بھی امریکہ سے واپس آ کر ڈاکٹروں کی ایمنیسٹی انٹرنیشنل بنائی تھی۔ جب میں نے ڈاکٹر انیتا کو بتایا کہ میری لاہور سے آئے ہوئے مہمان شاہد ندیم سے ملاقات ہوئی ہے تو وہ کہنے لگیں کہ عزیز الحق کی ٹریجڈی کے بعد شاہد ندیم کی رابعہ سنبل سے شادی ہوئی تھی۔ لیکن جب میری شاہد ندیم سے ملاقات ہوئی تو اس وقت تک ان کی جدائی ہو چکی تھی۔

ڈاکٹر سہیل! آپ نے عزیز الحق کے بارے میں بڑا اچھا سا کالم لکھا ہے اور حالات کا بہت عمدہ تجزیہ کیا ہے۔ مجھے عزیز الحق کے بھائی کے بارے میں پڑھ کر بہت تکلیف ہوئی کہ وہ بھائی کی وفات کے پچاس برس بعد بھی دکھی ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ کسی بھی لڑکے کے سامنے اس کے بھائی کو گولی مار دی جائے تو یہ کتنا بڑا المیہ ہے۔ ایسے دکھ سے نکلنا آسان نہیں۔ وہ پچاس برس گزر جانے بعد بھی اسی دکھ کے گھیرے میں ہیں۔ آپ ایک ماہر نفسیات ہیں آپ اس حادثے کے نفسیاتی اثرات کو مجھ سے بہتر سمجھتے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ ان کے بھائی میں اتنی ہمت اور جرات پیدا ہو کہ وہ ایسے حالات سے نبردآزما ہو سکیں۔ اگر میرے ساتھ ایسا حادثہ پیش آتا تو میں اس سے COPE نہ کر پاتا۔

ڈاکٹر خالد سہیل: جب میں ان کا انٹرویو لے رہا تھا تو مجھے احساس ہوا کہ چونکہ میں ایک تھراپسٹ ہوں اس لیے انہوں نے مجھ سے دل کی باتیں کیں اور اس طرح ان کا کیتھارسس ہو گیا۔

جب عزیز الحق کی بیٹی عظمیٰ عزیز نے وہ انٹرویو سنا تو ان کے لیے بھی بہت سی باتیں نئی تھیں کیونکہ جب ان کے ڈیڈی کا قتل ہوا تھا تو ان کی عمر صرف پانچ برس تھی۔ عظمیٰ صاحبہ آپ ڈاکٹر شیر شاہ کو اس حوالے سے کچھ بتانا چاہیں گی۔

عظمیٰ عزیز : ڈاکٹر شیر شاہ جب ڈاکٹر خالد سہیل نے ڈیڈی کے مضامین پڑھے اور مجھ سے ان کے بارے میں پوچھا تو مجھے احساس ہوا کہ میں ان کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔ میں نے مشورہ دیا کہ وہ میرے چچا انوارالحق سے بات کریں۔ اس انٹرویو سے مجھے بہت سی باتوں کا پتہ چلا۔ مجھے اس بات کی بھی خوشی ہوئی کہ آپ نے ڈاکٹر خالد سہیل سے رابطہ قائم کیا اور اب آپ انٹرویو دے رہے ہیں میں بھی آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ رابعہ سنبل حیات ہیں؟

ڈاکٹر شیر شاہ: میں سمجھا تھا وہ فوت ہو چکی ہیں لیکن اب پتہ چلا ہے کہ وہ حیات ہیں لیکن ALZHEIMERکا شکار ہیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل: ڈاکٹر شیر شاہ اب میں آپ سے اس دور کے حوالے سے بات کرنا چاہوں گا جس دور میں عزیز الحق سیاسی اور ادبی طور پر فعال تھے اور پھر ان کا ناگہاں قتل ہو گیا تھا۔ یہ 1960 اور 1970 کا دور تھا۔ کیا آپ اس دور کے بارے میں اپنے تجربات و مشاہدات بتا سکتے ہیں؟

ڈاکٹر شیر شاہ : وہ دور بہت ہنگامہ خیز اور VIBRANTدور تھا۔ بائیں بازو کے ادیب شاعر اور دانشور خوش بھی تھے اور خوش گمانی کا بھی شکار تھے۔ بنگلہ دیش علیحدہ ہو گیا تھا اور ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھال لیا تھا۔ لوگوں کو بھٹو سے بڑی امیدیں تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ مزدوروں اور کسانوں کو حقوق مل جائیں گے عورتوں کو آزادی مل جائے گی۔ لیکن یہ سب امیدیں اور خواب بہت جلد ڈھیر ہو گئے۔ بائیں بازو کے چند دانشور ہی ایسے تھے جو حقیقت پسند تھے اکثر دانشور تو بھٹو کی محبت میں اندھے ہو کر سیاسی اور سماجی EUPHORIA کا شکار ہو گئے تھے۔ بائیں بازو کے دانشوروں نے بھٹو کی سنگین سیاسی غلطیوں کو نظرانداز کر دیا۔

ڈاکٹر خالد سہیل: اس کی کوئی مثال دیں۔

ڈاکٹر شیر شاہ : جس دن پاکستان کا آئین پاس ہوا اسی رات انسانی حقوق کو معطل کر دیا گیا اور اس کے بعد جن سیاسی شخصیتوں کو گرفتار کیا گیا ان میں ولی خان مفتی محمود اور معراج محمد خان جیسی شخصیتیں بھی شامل تھیں۔ یہ حالات دیکھ کر مختار رانا اور محمد علی قصوری جیسی شخصیات نے پیپلز پارٹی کو خدا حافظ کہہ دیا۔

میں سمجھتا ہوں کہ ان حالات میں بائیں بازو کے دانشوروں کو جو کرنا چاہیے تھا وہ انہوں نے نہیں کیا۔ صرف چند آوازیں ایسی تھیں جنہوں نے بھٹو پر بے لاگ تنقید کی۔

ڈاکٹر خالد سہیل: میں نے جب عزیز الحق کے مضامین پڑھے تو مجھے اندازہ ہوا کہ انہوں نے ادب ’فلسفہ اور سیاست کا گہرا مطالعہ کیا تھا اور اپنی تخلیقات میں SECULARISM، SOCIALISM AND EXISTENTIALISM پر سیر حاصل گفتگو کی تھی۔ انہوں نے آزاد خیالی کے حق میں اور مذہبی شدت پسندی کے خلاف آواز اٹھائی۔ بدقسمتی سے عزیز الحق کے دوست اور شاگرد ان کی LEGACYکو آگے نہ بڑھا سکے۔ آپ کی پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کی روایت کے بارے میں کیا رائے ہے؟

ڈاکٹر شیر شاہ: پاکستان میں تنقیدی سوچ اور سوال کرنے کی روایت کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ بھٹو کے بعد جب ضیا الحق برسر اقتدار آیا تو جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور انسانی حقوق کی روایت کو پامال کیا۔ اس دور میں یونیورسٹیوں سے آزاد خیال دانشوروں اور پروفیسروں کو اور اخباروں سے آزاد خیال جرنلسٹوں کو نکال دیا گیا۔

آپ تصور ہی نہیں کر سکتے کہ کس طرح حکومت نے حکم دیا کہ سب نماز پڑھیں۔ نماز کی اذان ہوتی تو ہسپتالوں میں ڈاکٹر اور ڈائرکٹر سب بھاگے بھاگے جا کر نماز پڑھتے کیونکہ ہر ادارے میں مخبر مقرر کر دیے گئے تھے جو حساب کتاب رکھتے کہ کون نماز پڑھتا ہے اور کون نماز نہیں پڑھتا۔

دکھ کی بات یہ ہے کہ ضیا الحق نے جو بلند مذہبی عمارت تعمیر کی اس کی بنیادیں خود بھٹو نے رکھی تھیں بھٹو نے

جمعے کی چھٹی شروع کی
شراب پر پابندی لگائی اور
احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔
یہ سب کام بھٹو کے دور میں ہوئے۔

ڈاکٹر سہیل: آپ کے ذہن میں ریاست کا کیا تصور ہے؟

ڈاکٹر شیر شاہ: دیکھیں جیسے کوئی ریسٹورانٹ نہ ہندو ہوتا ہے نہ مسلمان اسی طرح ریاست نہ ہندو ہوتی ہے نہ مسلمان۔ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ریاست کا کام یہ ہے

سب شہریوں کو برابر کے حقوق ملیں
سب شہری صاف پانی پئیں
ان کے بچوں کو تعلیم ملے
بیوی حاملہ ہو تو علاج میسر ہو

لیکن ہماری ریاست شہریوں کے حقوق کا تحفظ دینے کی بجائے اس چیز میں الجھ گئی کہ کون کتنی نمازیں پڑھتا ہے۔

میں نے جب پبلک سروس کا انٹرویو دیا تو مجھ سے پوچھا گیا۔
تیسرا کلمہ سنائیں۔

میں نے کہا مجھے یاد نہیں۔ مجھے جاب تو مل گئی لیکن میں یہ سوچتا رہا کہ انہیں یہ سوچنا چاہیے تھا کہ کوئی گائناکالوجسٹ

مریضوں کا کتنا خیال رکھتا ہے
رات کو مریضوں کے لیے تیار ہوتا ہے
شاگردوں کو کتنا اچھا پڑھاتا ہے
اس کے شاگرد امتحان میں پاس ہوتے ہیں یا نہیں
یہ سب جاننے کی بجائے پوچھتے ہیں کہ تیسرا کلمہ سناؤ۔

بھٹو صاحب خود اپنے روشن خیال اور ترقی پسند دوستوں سے دور ہٹ گئے۔ انہوں نے ایک اور غلط کام کیا کہ جامعہ ملیہ کراچی جیسے تعلیمی اداروں کو نیشنلائز کر دیا۔

ضیا الحق نے جو مذہبی روایت شروع کی اور ذہنوں کی TALIBANIZATION کی وہ اب تک جاری ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل: اگر ہم انسان دوستی ’انسانی حقوق اور آزادی اظہار و گفتار کے حوالے سے پاکستان کی پچھلی نصف صدی کی تاریخ کا جائزہ لیں تو آپ کے خیال میں پاکستان نے ترقی کی ہے یا ترقی معکوس۔ PROGRESSIONہوئی ہے یا REGRESSION؟

ڈاکٹر شیر شاہ: پاکستان میں پچھلی نصف صدی میں ترقی معکوس ہوئی ہے۔ جب ہم طالب علم تھے تو لوگ آزاد خیال ہوا کرتے تھے۔ یونیورسٹیوں میں PHILOSOPHICAL CLUBS ہوا کرتے تھے۔ مجھے ایک دفعہ چند طلبا و طالبات نے اپنے ATHESIT CLUBمیں آنے کی دعوت دی۔ اب ہم اس کا تصور ہی نہیں کر سکتے۔ اب سیکولر ہونا تو دور کی بات لبرل ہونا بھی گالی بن گیا ہے۔

ڈاکٹر سہیل: عظمیٰ صاحبہ آپ کچھ کہا چاہ رہی ہیں

عظمیٰ عزیز: ڈاکٹر شیر شاہ جب میرے ڈیڈی کا قتل ہوا اس سے پہلے وہ بھٹو کے خلاف ہو گئے تھے وہ اپنے کامریڈ دوستوں اور شاگردوں سے کہا کرتے تھے کہ بھٹو نے الیکشن سے پہلے جو وعدے کیے تھے وہ پورے نہیں کیے۔ میرا خیال ہے کہ وہ قتل ہونے سے پہلے مختار رانا کے جلسے سے واپس لوٹ رہے تھے۔ ڈیڈی پر، ان کی دوست رابعہ سنبل پر اور ان کے شوہر سعید صاحب پر بھی بھٹو حکومت کا دباؤ تھا۔ سعید صاحب ایک سرمایہ دار تھے اور ان کے گھر میں ان کی بیوی اپنے بائیں بازو کے دوستوں کے ساتھ سوشلزم کے حوالے سے میٹنگز کرتی تھیں۔

ڈاکٹر شیر شاہ: آپ صحیح کہہ رہی ہیں۔ جو بھٹو کے ساتھ نہیں تھے ان پر کافی سیاسی دباؤ تھا۔ میں مختار رانا سے بھی ملا تھا۔ بھٹو سے جو بھی اختلاف کرتا تھا اس کا حشر اچھا نہیں ہوتا تھا۔

ڈاکٹر سہیل: ڈاکٹر شیر شاہ میں نے جب عزیز الحق کے قتل پر غور کیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ وہ حادثہ اپنے نفسیاتی اور سیاسی حوالوں سے ایک گمبھیر حادثہ تھا۔ وہ قتل اس دور کے تضادات کا استعارہ بن گیا تھا اسی لیے میں اس کو سمجھنے اور اس کا تجزیہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔

ڈاکٹر شیر شاہ : آپ کی کاوش بہت اچھی ہے۔ آپ کے مضامین پڑھ کر بہت سوں کا بھلا ہوگا۔ پچاس سال پیشتر اس سانحے کے بعد سب ساقط ہو گئے تھے لیکن اب آپ کا ’ہم سب‘ پر مضمون پڑھ کر پرانے زخم تازہ ہو گئے ہیں۔ میں آپ کی جو بھی مدد کر سکا ضرور کروں گا۔

ڈاکٹر سہیل: بہت بہت شکریہ
عظمیٰ عزیز: آپ دونوں کا شکریہ کہ آپ نے میرے انقلابی دانشور ڈیڈی کے سانحے کو اتنی اہمیت دی۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments