طالبان نے امریکہ، نیٹو افواج اور سفارتخانوں کے افغان مترجمین کو عام معافی دے دی


طالبان نے امریکی اور نیٹو افواج و دیگر داروں اور سفارت خانوں کے لیے کام کرنے والے مترجم حضرات کے لئے عام معافی کا اعلان کر دیا ہے

پیر، 7، جون کو جاری کردہ اعلامیے میں طالبان نے باضابطہ عام معافی کا اعلان کر دیا ہے کہ وہ غیر ملکی افواج کے سابقہ ​​افغان مترجموں پر حملہ نہیں کریں گے۔

جب کہ ہزاروں غیر ملکی مترجموں اور عملے نے ملنے والی دھمکیوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا کہ افغانستان سے غیر ملکی فوجیں انخلا کے بعد ان کا مستقبل کیا ہوگا، طالبان نے تحریری بیان میں کہا ہے کہ افغانی مترجم معمول کی زندگی گزار سکتے ہیں اور طالبان کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں۔ غیر ملکی فوج رواں سال 11 ستمبر 2021 تک افغانستان سے روانہ ہوگی۔

بیان میں کہا گیا ہے، ”امارت اسلامیہ کا ان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، لیکن انہیں دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی معمول کی زندگیوں میں واپس آئیں اور اگر وہ اس میں مہارت حاصل کریں تو اپنے ملک کی خدمت کریں ہمیں ان کی طرف سے کوئی خطرہ نظر نہیں آتا ہے۔“

اعلامیے میں مزید کہا، ”اگر کوئی شخص کسی بہانے کو بطور خطرہ استعمال کرتا ہے اور بیرون ملک جانے کے لئے کوئی مجبوراً بہانے بازی کرتا ہے تو، یہ ان کا اپنا مسئلہ ہے۔“

قبل ازیں، کابل میں فرانسیسی فوج کے درجنوں افغان مترجمین اور عملے نے کابل میں ایک ریلی میں کہا تھا کہ انہیں بڑھتے ہوئے خطرات کا سامنا ہے اور فرانسیسی حکومت کو ان کی سیاسی پناہ کی درخواستوں پر فوری کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔

افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کے انخلا کی آخری تاریخ 11 ستمبر 2021 کے نقطہ نظر کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان غیر ملکی فوجیوں کا کہنا تھا کہ غیر ملکی فوجیوں کا مکمل انخلا مکمل ہونے پر ان کی جانیں موت کے خطرہ میں پڑ جائیں گی۔

غیر ملکی افواج کے ان سابقہ ​​ملازمین میں سے کچھ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں رہنا ان کے لئے ایک ڈراؤنا خواب ہے کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ انہیں بار بار غیر ملکی افواج کے ساتھ کام کرنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔

ایک اور ریلی میں، افغان کینیڈا کے فوجی جوانوں کا ایک گروپ کابل میں کینیڈا کے سفارت خانے کے سامنے جمع ہوا اور کینیڈا کی حکومت اور اقوام متحدہ سے مغرب میں پناہ مانگنے کے لئے کہا۔

انہوں نے کہا ہے کہ انہیں متعدد بار جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی ہے اور وہ غیر ملکی فوج کے انخلا کے بعد افغانستان میں نہیں رہ پائیں گے۔

2001 میں افغانستان میں غیر ملکی فوجیوں کی آمد کے بعد سے ہزاروں افغان باشندے مختلف شعبوں میں افغان فورسز کے ساتھ کام کر چکے ہیں، لیکن ایسے اہلکاروں کی صحیح تعداد دستیاب نہیں ہے۔

افغانستان میں متعدد افغان مترجمین اور غیر ملکی افواج کے عملے کو مختلف گروپوں نے ان فورسز کے ساتھ تعاون کرنے کی دھمکی دی ہے۔

متعدد بیرونی ممالک جو گزشتہ 20 سالوں سے نیٹو کی چھتری تلے افغانستان میں کام کر رہے ہیں، نے اس خطرے سے بچنے کے لئے بہت سے افغان باشندوں کو تارکین وطن ویزا فراہم کیا ہے جن کے ساتھ انہوں نے کام کیا ہے

افغانستان میں نیٹو اور امریکی افواج کے ساتھ بطور مترجم کام کرنے والے بہت سے افغان شہری بین الاقوامی افواج کے انخلاء کے ساتھ خود بھی افغانستان چھوڑنا چاہتے ہیں۔ انہیں خوف ہے کہ طالبان انہیں قتل کر دیں گے۔

کئی مغربی ممالک کے سفارت خانوں نے ہزاروں افغان مترجمین اور ان کے اہل خانہ کو ویزے جاری کیے ہیں لیکن بہت سے مترجمین کے ویزوں کی درخواستوں کو مسترد بھی کر دیا گیا ہے۔ امریکی افواج کے ساتھ سن 2018 سے 2020 میں بطور مترجم کام کرنے والے عومد محمودی کا کہنا ہے، ”جب مسجد میں ایک امام محفوظ نہیں، سکول میں دس سالہ بچی محفوظ نہیں تو ہم کیسے محفوظ ہو سکتے ہیں؟“

محمودی کا کام اس وقت ختم کر دیا گیا، جب وہ ایک معمول کے پولی گراف ٹیسٹ میں فیل ہو گئے۔ اس بنیاد پر ان کے امریکا کے ویزے کی درخواست کو مسترد کر دیا گیا۔ سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ پولی گراف ٹیسٹ، جس کے ذریعے کسی انسان کے سچ یا جھوٹ بولنے کا اندازہ ہوتا ہے، ضروری نہیں کہ ہر بار درست نتائج دے۔ تاہم امریکا اس ٹیسٹ کو آج بھی استعمال کرتا ہے، خاص طور پر بہت زیادہ حساس نوکریوں پر بھرتیوں کے عمل میں بھی۔

ویزے کے حصول میں ناکام ہونے والے متعدد افغان شہریوں کا کہنا ہے کہ طالبان انہیں مجرم سمجھتے ہیں۔ محمودی کہتے ہیں، ”انہیں ہمارے بارے میں سب معلوم ہے، طالبان ہمیں معاف نہیں کریں گے، وہ ہمیں قتل کر دیں گے، ہمارے سر قلم کر دیں گے۔“

عمر نامی ایک مترجم نے امریکی سفارتخانے کے ساتھ دس سال کام کیا ہے لیکن ان کو بھی نوکری سے اس لیے فارغ کر دیا گیا کیوں کہ وہ پولی گراف ٹیسٹ میں فیل ہو گئے تھے۔ عمر کا کہنا ہے، ”مجھے امریکا کے لیے کام کرنے پر پچھتاوا ہے، یہ میری سب سے بڑی غلطی تھی۔ اب میرے اپنے رشتہ دار مجھے امریکی ایجنٹ سمجھتے ہیں۔“

گزشتہ ہفتے کابل میں ایک احتجاج کے دوران 32 سالہ وحید اللہ حنیفی کا کہنا تھا کہ فرانسیسی حکام کی جانب سے ان کی ویزے کی درخواست اس لیے مسترد کر دی گئی کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ میری زندگی کو کوئی خطرہ نہیں۔ حنیفی نے سن 2010 سے 2012 تک فرانسیسی فوج کے ساتھ کام کیا تھا۔ حنیفی کے مطابق، ”ہم افغانستان میں فرانسیسی فوجیوں کی آواز تھے لیکن اب انہوں نے ہمیں طالبان کے حوالے کر دیا ہے۔ اگر میں اس ملک میں رہا تو میرے بچ جانے کے کوئی امید نہیں، فرانسیسی فوج نے ہمیں دھوکا دیا ہے۔“

ایسے بھی بہت سے افغان شہری ہیں، جنہیں خود تو ویزا مل گیا ہے لیکن ان کے اہل خانہ کو ویزے نہیں دیے گئے۔ ایسی ہی کہانی 29 سالہ جمال کی ہے۔ جمال برطانوی افواج کے ساتھ بطور مترجم کام کرتے تھے۔ انہیں سن 2015 ء میں برطانیہ میں رہائش کی اجازت دی گئی تھی لیکن چھ سال گزرنے کے بعد اب ان کی اہلیہ کو برطانیہ آنے کی اجازت ملی ہے۔ جمال کے والد برطانوی فوجی اڈے پر کام کرتے تھے، وہ آج بھی افغانستان میں ہی ہیں۔ جمال کے مطابق، ”جب آپ برطانوی فوجیوں کے ساتھ ان کے شانہ بشانہ کام کرتے ہیں تو آپ ان سے امید لگا لیتے ہیں۔“

اسلم خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اسلم خان

محمد اسلم خاں گذشتہ تین دہائیوں سے عملی صحافت کے مختلف شعبوں سے منسلک رہے ہیں اب مدتوں سے کالم نگار ی کر رہے ہیں تحقیقاتی ربورٹنگ اور نیوز روم میں جناب عباس اطہر (شاہ جی) سے تلمیذ کیا

aslam-khan has 57 posts and counting.See all posts by aslam-khan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments