بلوچستان میں پہلی بار سائبر کرائم مقدمے میں سزا، لڑکی کے والدین کو بلیک میل کرنے والے شخص کو تین سال قید

محمد کاظم - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ


سائبر کرائم

پاکستان کے صوبے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ایک عدالت نے ایک لڑکی کی نازیبا تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے کے جرم میں ایک ملزم کو تین سال قید اور 45 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے مطابق بلوچستان میں چائلڈ پورنوگرافی یعنی بچوں کی فحش اور نازیبا تصاویر اور ویڈیوز کے حوالے سے سائبر کرائم کے کسی مقدمے میں یہ پہلی سزا ہے۔ ایف آئی اے کے حکام کا کہنا ہے ملزم ان نازیبا ویڈیوز اور تصاویر کے ذریعے لڑکی کے والدین کو بلیک میل کر رہا تھا۔

خیال رہے کہ لڑکی کے والد کی شکایت پر مقدمہ درج کر کے ملزم کو گذشتہ سال گرفتار کیا گیا تھا۔

ایف آئی اے کے اہلکار نے بتایا کہ تفتیش مکمل ہونے کے بعد ملزم کے خلاف جوڈیشل مجسٹریٹ احترام الحق کی عدالت میں مقدمے کا چالان دائر کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سماعت مکمل ہونے کے بعد عدالت نے منگل کو مقدمے پر فیصلہ سنا دیا۔

چائلڈ، فحش مواد

ملزم کون ہے اور وہ کیا چاہتا تھا؟

سزا پانے والے ملزم علاﺅالدین کا تعلق بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ کے علاقے مسلم باغ سے ہے۔ اس مقدمے کے تفتیشی افسر اسرار اللہ تاج نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزم نے ضلع قلعہ سیف اللہ سے تعلق رکھنے والی ایک 15 برس کی لڑکی کی نازیبا تصاویر کو فیس بک میسینجر پر شیئر کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ لڑکی کے والد کی شکایت پر ملزم کے خلاف 21 ستمبر 2020 کو مقدمہ درج کیا گیا۔ یہ مقدمہ 2016 کے سائبر کرائم ایکٹ جسے پیکا ایکٹ بھی کہتے ہیں کی مختلف دفعات کے تحت ایف آئی اے کوئٹہ کی سائبر کرائم ونگ میں درج کیا گیا۔

تفتیشی افسر نے بتایا کہ ملزم ٹیکسی ڈرائیور تھا اور اسے کوئٹہ کے ٹیکسی سٹینڈ سے گرفتار کیا گیا۔

انھوں نے بتایا کہ لڑکی کی جن تصاویر اورویڈیوز کو ملزم نے فیس بک میسینجر پر شیئر کیا تھا وہ ملزم کے موبائل فون میں بھی موجود تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تفتیش کے دوران ملزم نے وائرل کی گئی تصاویر کے بارے میں سب بتایا کہ وہ کہاں کہاں اور کس کس سے شیئر کی گئی تھیں۔

یہ بھی پڑھیے

سائبر کرائم قوانین کی کمزوریاں

’سوشل میڈیا پر بدنامی نے زندگی تباہ کر دی‘

فاسٹ یونیورسٹی: ’نازیبا اور فحش میمز‘ کا الزام اور طلبا کو سزاؤں کا معاملہ

ایف آئی اے کے اہلکار نے بتایا کہ ملزم یہ تصاویر جن لوگوں کو بھیجتا تھا ان میں لڑکی کے بھائی اور ماموں بھی شامل تھے۔

تفتیشی افسر نے بتایا کہ تفتیش کے دوران یہ معلوم ہوا کہ ملزم اس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا لیکن لڑکی کے والدین اور دیگر رشتے دار اس کے لیے راضی نہیں تھے۔

انھوں نے کہا کہ لڑکی کے رشتہ داروں نے ملزم کو منع کیا تھا کہ وہ ان تصاویر کو دوسرے لوگوں کے ساتھ شیئر نہ کرے کیونکہ یہ ان کی عزت کا مسئلہ ہے لیکن ملزم نے ان کی بات نہیں مانی جس پر لڑکی کے والد نے بالاخر ملزم کے خلاف ایف آئی اے کی سائبر کرائم ونگ سے رجوع کیا۔

انھوں نے بتایا کہ لڑکی کے والدین ملزم سے لڑکی کی شادی پر اس لیے راضی نہیں تھے کہ ملزم پہلے سے شادی شدہ تھا اور اس کے بچے بھی تھے۔

لڑکی کے رشتے سے انکار پر ملزم ان کے والدین اور رشتہ داروں کو بلیک میل کر رہا تھا اور ان پر دباﺅ ڈال رہا تھا کہ کسی طرح وہ ان کے ساتھ لڑکی کی شادی پر راضی ہوجائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp