تم سے ہائی کورٹ کا جج ہینڈل نہیں ہوتا: سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سب بتا دیا


سابق جج اسلام آباد ہائی کورٹ شوکت عزیز صدیقی نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ لیفٹننٹ جنرل فیض حمید نے بطور ڈی جی سی آئی ایس آئی دو مرتبہ مجھ سے میرے گھر پر ملاقات کی۔ ان ملاقاتوں میں انہوں نے یقین دہانی چاہی کہ نواز شریف کی 25 جولائی 2018 کے انتخابات سے پہلے ضمانت نہ ہو سکے، پہلی ملاقات 26 جون 2018 کو ہوئی جب کہ دوسری ملاقات 19 جولائی 2018 کو ہوئی۔ جنرل فیض حمید انہیں اسلام آباد انتظامیہ کی نمبر پلیٹ والی گاڑی میں ملنے آتے رہے

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ کے روبرو شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان نے شوکاز نوٹس میں جوابات پڑھتے ہوئے ملاقاتوں کی تفصیلات بتائیں۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ پانامہ کیس احتساب عدالت میں 7 نومبر دو ہزار سترہ کو داخل ہوا۔ 19 اکتوبر 2017 کو احتساب عدالت نے ریفرنسز کو اکٹھا سننے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔ اس فیصلے کے خلاف اپیل ہائی کورٹ میں آنا تھی۔ اس وقت میں ڈویژن بینچ ون کی سربراہی کر رہا تھا اور 17 اکتوبر 2017 کو اچانک نیا روسٹر جاری کر دیا گیا اور ڈی بی تبدیل کر کے مجھے اس سے نکال دیا گیا۔ اور حیرت کی بات تھی کہ اس کے بعد مجھے کسی ڈی بی کا حصہ نہیں بنایا گیا کہ کہیں غلطی سے بھی پانامہ کیس کی اپیلیں میرے سامنے نہ لگ جائیں۔

سابق جج کے بیان میں کہا گیا ہے کہ جنرل فیض حمید پہلی مرتبہ مجھے 29 جون 2018 اور دوسری مرتبہ 19 جولائی 2018 کو میرے گھر پر ملنے آئے۔ اس کی وجہ ہائی کورٹ کا وہ حکم نامہ تھا جس میں آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر کے سامنے راستہ صاف کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ یہاں یہ بات بتانا بھی ضروری ہے کہ ایک دن پہلے بریگیڈیئر عرفان رامے مجھے ملنے آئے اور خواہش کا اظہار کیا کہ آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر کے سامنے روڈ خالی کرنے کے اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کریں۔ میرے انکار پر وہ ناراض ہو گئے۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس روز میرے گھر پر کچھ مہمان بھی تھے جو مجھے عمرہ کی مبارک باد دینے آئے تھے یہ ان کے سامنے واقعہ پیش آیا۔

شوکت صدیقی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ میجر جنرل فیض حمید نے 29 جون 2018 کی ملاقات میں پہلے مجھ سے اپنے ماتحت بریگیڈیئر عرفان رامے کے رویے کی معافی مانگی۔ اور کہا کہ کوئی راستہ بتائیں یہ آئی ایس آئی کے وقار کا معاملہ ہے۔ میں نے کہا کہ آپ کو عدالت کے حکم پر عمل کرنا ہوگا بطور جج میں قانون سے باہر نہیں جا سکتا۔ ہائی کورٹ کا حکم سپریم کورٹ ہی تبدیل کر سکتی ہے یا ختم کر سکتی ہے۔ انہوں نے مجھے یہ یقین دہانی کرائی کہ ان کی اسٹیبلشمنٹ قانون کے مطابق عمل کرے گی۔

اس موقع پر انہوں نے کمرے میں موجود لوگوں کو باہر جانے کا کہا شاید وہ اکیلے میں کوئی بات کرنا چاہ رہے تھے۔ جب لوگ کمرے سے نکل گئے تو جنرل فیض حمید نے مجھ سے پوچھا کہ اگر احتساب عدالت وزیر اعظم نواز شریف و دیگر کو سزا دے دے تو ہائی کورٹ میں اپیل کا کیا طریقہ کار ہوتا ہے۔ شوکت صدیقی بیان میں کہتے ہیں کہ یہ بات میرے لیے حیرت کا باعث تھی کہ جنرل فیض ملزمان کی سزائوں کے بارے میں اتنے یقین سے کیسے کہہ رہے ہیں لیکن میں نے تحمل کا مظاہرہ کیا اور کوئی تاثر نہ دیا۔

میں نے ان سے کہا کہ آپ عدالتی طریقہ کار سے پوری طرح آگاہ ہیں اور ٹرائل کا کیا نتیجہ نکلے گا اس کا بھی یقین ہے۔ تو آپ مجھ سے یہ سب کیوں پوچھ رہے ہیں۔ تو جنرل فیض نے سیدھا سوال کیا اگر فیصلے کے خلاف اپیلیں آپ کے سامنے لگیں تو آپ کا کیا رویہ یا موقف ہوگا؟ میں نے کہا کہ جج کے حلف کے مطابق میں مقدمے کا فیصلہ میرٹ پر ہی کروں گا۔ کیونکہ مجھے اللہ کو جواب دینا ہے۔ اس پر جنرل فیض نے رد عمل میں جو تبصرہ کیا وہ میرے لیے مایوس کن اور دھچکے کا باعث تھا۔ جنرل فیض نے کہا ”اس طرح تو ہماری دو سال کی محنت ضائع ہو جائے گی“۔

شوکت صدیقی بیان میں کہتے ہیں کہ میں نے انہیں کہا کہ آئی ایس آئی کا تو یہ کام نہیں ہے کہ وہ اس طرح کے معاملات میں ملوث ہو۔ لیکن ان کا خیال اس کے برعکس تھا۔ ان الفاظ کے ساتھ جنرل فیض حمید نے یہ کہتے ہوئے مجھ سے اجازت چاہی کہ وہ میرے خلاف زیر التوا ریفرنسز کا خیال رکھیں گے اور اشارہ کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف بھی ریفرنس ہے شاید وہ اس وجہ سے یا خراب صحت کے باعث استعفا دے دیں تو ایسی صورت میں میں نومبر کے بجائے ستمبر میں ہی چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ بن سکتا ہوں۔ شوکت صدیقی کہتے ہیں کہ ان صاحب کے اس دعوی سے مجھے سخت دھچکا لگا کہ وہ اس پوزیشن میں ہیں اور سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی پر اتنا اثر رکھتے ہیں۔

شوکت صدیقی اپنے بیان میں مزید کہتے ہیں کہ 19 جولائی 2018 کی دوسری میٹنگ میں جنرل فیض حمید نے مجھے بتایا کہ 18 جولائی 2018 کے آرڈر کے بعد انہیں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مجھے طلب کیا ہے اور میری نوکری دائو پر لگی ہوئی ہے کیونکہ جنرل باجوہ اس بات پر سخت ناراض ہیں کہ میں یہ کام بھی نہیں کر سکا کہ ہائی کورٹ کے ایک جج کو ہینڈل کر سکوں۔ شوکت صدیقی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ جنرل فیض حمید کے بیان کے مطابق چیف آف آرمی اسٹاف نے مجھے ہدایت کی ہے کہ میں آپ سے ملوں اور یہ معلوم کروں ”کہ جج صاحب کیا چاہتے ہیں“ ؟ اس سوال کے جواب میں میں نے کہا کہ میں سوائے اس بات کے کچھ نہیں چاہتا کہ ریاست کے تمام ادارے آئین اور قانون کے مطابق اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کریں۔

شوکت صدیقی بیان میں کہتے ہیں کہ اس کے جواب میں جنرل فیض نے کہا ”سر’ بہتر ہو گا کہ تلخی چھوڑیں اور در گزر سے کام لیں، ماسوائے چند افراد کے مسلح افواج کے رینکس میں آپ کی شہرت راست گو اور سچے پاکستانی کی ہے۔ لہذا ہمارے مابین اچھے تعلقات کار پاکستان کے مفاد میں ہوں گے۔ تو اس پر میں نے کہا کہ اگر ایسی بات ہے تو جیسے ہی پانامہ مقدمات کے فیصلے ہائی کورٹ میں آنا شروع ہونا تھے تو انہوں نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے مجھے ڈویژن بینچ کی سربراہی سے کیوں ہٹوا دیا۔

شوکت صدیقی کہتے ہیں جنرل فیض حمید نے اس موقع پر بڑے کھلے انداز میں کہا کہ جو ٹیم پانامہ کیسز سے ڈیل کر رہی ہے ان کا خیال ہے کہ جسٹس صدیقی پرو ڈیفینس ہیں، جب میں نے یہ پوچھا کہ انہوں نے نواز شریف کیس کے فیصلے کے حوالے سے کیسے بینچ بنوا لیے تو جنرل فیض حمید نے مجھے بتایا کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس انور خان کاسی کو ان کے مشترکہ دوست کے ذریعے سے رابطہ کیا گیا اور کہا کہ ایسا بینچ بنایا جائے جس میں جسٹس شوکت صدیقی شامل نہ ہوں۔ جس کے جواب میں انور کاسی کے جواب سے آگاہ کیا گیا کہ ایسا بینچ بنے گا جس سے آپ لوگ مطمئن ہوں۔

شوکت صدیقی اپنے بیان میں مزید کہتے ہیں کہ جنرل فیض حمید نے کہا کہ وہ یہ یقین دہانی چاہتے ہیں کہ 25 جولائی 2018 کے انتخابات سے پہلے نواز شریف کی ضمانت نہ ہو۔ اور اس عدالتی کارروائی کو قابل اعتماد بنانے کے لیے میری سربراہی میں قائم بینچ کے روبرو سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔ سابق شوکت صدیقی کا کہنا ہے کہ اس بات پر میں نے انہیں جواب دیا کہ اگر میں رکارڈ پر موجود مواد سے مطمئن ہوا کہ سزا میں اضافہ ہونا چاہیے تو میں سزا میں اضافہ کا نوٹس جاری کرنے میں ذرا سا بھی تامل نہیں کروں گا۔ لیکن اگر فیصلہ قانون کی نظر میں درست نہ ہوا تو میں کسی کی دنیا کے لیے اپنی آخرت خراب نہیں کروں گا۔

شوکت صدیقی کا کہنا ہے کہ جنرل فیض میرے اس جواب سے خوش نہیں ہوئے اور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ میرے گھر سے چلے گئے۔ ان دونوں مواقع پر جنرل فیض حمید اسلام آباد انتظامیہ کی سرکاری گاڑی میں بیٹھ کر میرے گھر آئے۔ شوکت صدیقی کہتے ہیں کہ صرف یہی نہیں اور بھی کئی مواقع ہیں جب ان پر اثر انداز ہونی کی کوشش کی گئی۔ فیض آباد دھرنا کیس میں مظاہرین کے ساتھ معاہدے میں جنرل فیض حمید کے دستخط ہیں۔

شوکت صدیقی کہتے ہیں آئی ایس آئی کے ایک اور بریگیڈئیر فیصل مروت نے بول ٹی وی کے کیس میں یہ کہتے ہوئے عدالتی کارروائی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی کہ یہ آئی ایس آئی کا پراجیکٹ ہے۔ شوکت صدیقی کہتے ہیں کہ بریگیڈئیر فیصل مروت اور بریگیڈئیر عرفان رامے نے عامر لیاقت کے حق میں فیصلہ کے لیے اثر انداز ہونے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments