انیل کمار چوہان: حیدرآباد کی مساجد میں خطاطی کرنے والے ہندو مصّور جو اردو اور عربی سمیت چھ زبانیں لکھنا جانتے ہیں

رضوان شفیع وانی - صحافی


انیل کمار چوہان

‘اردو ایک میٹھی اور شیریں زبان ہے۔ مجھے اس سے محبت ہوگئی اور اردو سیکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ میں نے دکانوں اور دفاتر کے سائن بورڈز اور بینرز سے نقل کر کے لکھنا شروع کیا۔ لکھتے لکھتے الفاظ کی شناخت ہو گئی اور اردو زبان پڑھنی لکھنی آ گئی۔’

انڈیا کے شہر حیدر آباد کے پرانے شہر میں اگر کوئی نعتیہ محفل سجتی ہے تو اس میں انیل کمار چوہان کو ضرور مدعو کیا جاتا ہے۔

پیشے کے لحاظ سے انیل ایک مصّور ہیں اور اردو، عربی، ہندی، انگریزی، تیلگو اور بنگالی لکھنا جانتے ہیں۔

آج کل وہ حیدرآباد کے گرد و نواح کی مساجد میں قرآنی آیات، احادیث اور ان کے اردو ترجمے سمیت دیگر اقسام کی خطاطی کا کام کر رہے ہیں۔

اس کے علاوہ انیل کو نعتیہ کلام پڑھنے کا بھی شوق ہے اور انھوں نے درجنوں نعتیں یاد کر رکھی ہیں۔

اس تعارف کے بعد اگر آپ کو انیل کے نام پر تعجب ہو رہا ہے تو پریشان نہ ہوں۔ یہ کہانی کسی مسلمان کے بارے میں نہیں، بلکہ حیدرآباد کی گنگا جمنی تہذیب کے سپوت ایک ہندو لڑکے کی ہے۔

انیل کمار چوہان

‘میں ایک ہندو ہوں اور مذہب میرا ذاتی معاملہ ہے لیکن میں ہر مذہب کا احترام کرتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ ہر کوئی بھائی چارے کے ساتھ رہے۔ ہمیں ملک میں محبت کے ساتھ رہ کر ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے۔’

انیل سے ہماری ملاقات حیدرآباد کی مشہور اسلامی یونیورسٹی جامعہ نظامیہ میں ہوئی۔ سادہ سے لباس میں ملبوس انیل کا حلیہ تو کسی سکالر جیسا ہے، یا شاید یہ ان کی بڑے بڑے شیشوں والی عینک کا کمال ہے۔

لہجے سے لگتا ہے کہ جیسے ان کا تعلق حیدرآباد کے کسی اردو بولنے والے گھرانے سے ہے۔

ان کے مطابق انھیں اردو زبان مکمل طور پر سیکھنے میں تقریباً آٹھ سال لگے لیکن عربی پر اب بھی انھیں باقاعدہ عبور حاصل نہیں۔

‘میرے اندر سیکھنے کی چاہت اور جستجو تھی اور میں نے فنِ مصوری میں ڈپلومہ کرنے کا ارادہ کر لیا اور حیدرآباد کے فائن آرٹس کالج میں داخلہ بھی لیا۔ لیکن پھر گھریلو مسائل اور دیگر وجوہات کی وجہ سے فن مصوری کا کورس مکمل نہیں کر سکا۔’

انیل کمار چوہان

انیل کمار چوہان

انیل نے 17 برس کی عمر میں خطاطی کا کام شروع کیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ مصوری انھیں وراثت میں ملی۔ اُن کی والدہ اور ماموں پینٹنگ کرتے تھے البتہ اردو خطاطی کرنے والے وہ اپنے خاندان کے پہلے فرد ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کے نانا بھی ایک بہترین آرٹسٹ تھے جنھوں نے نواب دکن میر عثمان علی خان اور دیگر اہم شخصیات کی تصاویر بھی بنائیں تھیں۔

تو مساجد میں خطاطی کا کام کیسے شروع کیا؟

انیل بتاتے ہیں کہ جب وہ حیدرآباد میں کام کرتے تھے تو ہر بورڈ پر اردو لکھی جاتی تھی۔ ‘کوئی لکھ کر دے گیا کہ فلاں جنرل سٹور یا کریانہ سٹور، ایسے نام میں لکھتا تھا۔ لکھتے لکھتے ہی مجھے اردو زبان کے الفاظ کی پہچان ہوگئی۔’

مساجد میں کلمہ طیبہ تحریر کرنا یا ‘اللہ اکبر’ جیسی عبارت لکھنے کام تو انیل نے پہلے ہی شروع کر دیا تھا تاہم انھوں نے اسے ذریعہ معاش کے طور پر نہیں لیا۔

ان کے مطابق انھوں نے اپنی عربی خطاطی کی ایک نمائش اپنے ذاتی خرچ پر لگائی لیکن اس سے ان کی زیادہ بِکری نہ ہو پائی۔ یہ تجربہ ان کے لیے مایوس کن تھا اور ان کے مطابق اس کے بعد انھیں خاصی جدوجہد کرنی پڑی۔

انیل کمار چوہان

‘میں نے سوچا کہ میرے پاس کوئی پیسہ تو نہیں کہ نئے فن پارے بنا کر بیچوں۔ پھر خیال آیا کہ مسجدوں میں قرآنی آیات مفت لکھوں۔ تو میں نے ایک دکان کے اوپر بورڈ لکھ کر لگا دیا کہ مساجد میں قرآنی آیات مفت لکھوائیے، بغیر معاوضے کے۔’

یہ کرنے سے انیل کے پاس کئی لوگ آئے اور ان کے مطابق وہ اب تک سو سے زیادہ مساجد میں بلامعاوضہ کام کر چکے ہیں۔ تاہم اب ان کا فن اتنا سدھر گیا ہے کہ وہ اپنے کام کا مناسب ہدیہ وصول کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

گاؤں جو پاکستان کا ’ویٹیکن سٹی‘ کہلاتا ہے

پرانی دلی کی ’مبارک بیگم مسجد‘ آج کل خبروں میں کیوں ہے؟

لاہور کی ’مسجد شب بھر‘، کیا یہ واقعی ایک رات میں تعمیر ہوئی تھی؟

جب انھوں نے مساجد میں قرآنی آیات اور خلفائے راشدین کے نام تحریر کرنے شروع کیے تو ان کے کام کو زیادہ تر پسند کیا گیا۔ تاہم چند حلقوں نے اُن کے وہاں کام کرنے پر اعتراض کیا۔

کچھ لوگوں نے اعتراض کیا کہ غیر مسلم ہونے کے ناطے انیل پاکیزگی کے اصولوں سے واقف نہیں۔

وہ بتاتے ہیں ‘میری اسلام سے مکمل واقفیت نہیں تھی لیکن یہ ضرور جانتا تھا کہ پاکیزگی کے بغیر مسجد میں قرآنی آیات نہیں لکھ سکتا۔ میرے اندر ذوق تھا اور اللہ کے گھر میں کام کرنے کی چاہت تھی۔’

انیل کمار چوہان

اس مسئلے کے حل کے لیے انھوں نے جامعہ نظامیہ سے رجوع کیا جہاں کے ذمہ داروں نے چھان بین کے بعد انیل کے حق میں فتویٰ صادر کیا تاہم مسجد کے احترام کی تاکید کرتے ہوئے طہارت کر کے اور باوضو مسجد میں داخل ہونے کا مشورہ دیا۔

انیل آج بھی اس اصول پر سختی سے عمل کرتے ہیں۔

ان کے بقول مساجد کی انتظامیہ کمیٹیوں کی جانب سے انھیں جو بھی ہدیہ دیا جاتا ہے وہ اسے بخوشی قبول کرتے ہیں۔

روشن خیالات کے مالک انیل کمار کہتے ہیں کہ وہ اپنے فن کو بلاتفریق مذہب و ملت پھیلانے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ مساجد کے ساتھ ساتھ وہ مندروں میں بھگوانوں کی تصاویر بھی بناتے ہیں۔

‘میں بحیثیت مصور و خطاط پورے ادب و احترام کے ساتھ اپنے فن کو پیش کرتا ہوں۔’

وہ کہتے ہیں کہ گھر والوں اور دیگر رشتے داروں نے اس کام پر اعتراض کرنے کے بجائے اُن کی حوصلہ افزائی کی۔

انیل بتاتے ہیں کہ مساجد میں کام کرنے کے دوران انھیں دینی محفلوں میں بھی شرکت کرنے کا موقع ملا اور اُن میں اسلامی تعلیمات اور تہذیب کے متعلق ان کی دلچسپی بڑھنے لگی۔

انیل کمار چوہان

‘میں نے درجنوں نعتیہ کلام بھی یاد کیے ہیں۔ پرانے شہر میں جہاں کہیں بھی نعت خوانی کی مجلس منعقد کی جاتی ہے، وہاں مجھے بھی وہاں مدعو کیا جاتا ہے۔’

انیل کمار کے مطابق اس فن کی وجہ سے انھیں کافی شہرت ملی ہے۔ ‘میں نے حیدرآباد کے علاوہ کرناٹک، بنگال اور دیگر ریاستوں میں بھی کام کیا ہے۔ مسلمان بھائیوں کی طرف سے بے حد پیار ملتا ہے۔’

ان کہنا ہے کہ یہ کام کرنے سے انھیں دِلی سکون ملتا ہے۔

مزید پڑھیے

دوستی نے مندر اور مسجد کے طرزِ تعمیر کا فرق مٹا دیا

کیا بابری مسجد کسی مندر کی باقیات پر بنائی گئی تھی؟

بابری مسجد کے انہدام سے بی جے پی نے کیا کھویا کیا پایا؟

حال ہی میں انیل نے سورہ یٰسین کو ایک چھ فٹ لمبے اور چار فٹ چوڑے کینوس پر دلکش انداز میں تحریر کیا ہے، جو آج کل جامعہ نظامیہ میں لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

انیل کمار چوہان

انیل کمار چوہان نے حال ہی میں حیدرآباد کے بالا پور علاقے میں واقع مسجد قبا میں اپنے فن کے نقوش چھوڑے ہیں۔ یہاں کی کمیٹی کے صدر محمد مُعِز کا کہنا ہے کہ انیل نے اب تک سینکٹروں مساجد میں کام کیا ہے۔

‘حیدرآباد گنگا جمنی تہذہب کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے اور ہندو مسلم رواداری اور بھائی چارہ یہاں کی تاریخ کا حصہ ہے۔ انیل کمار حیدرآبادی گنگا جمنی تہذیب کے فروغ کا ذریعہ بن رہے ہیں۔’

بوئن پلی مسجد کے باہر لگے بورڈ پر انیل ہر جمعرات کو ایک نئی حدیث اور اس کا ترجمہ تحریر کرتے ہیں۔ اس مسجد کی کمیٹی کے رکن محمد خلیل کا کہنا ہے کہ جس عقیدت و احترام کے ساتھ انیل قرانی آیات کی خطاطی کا کام کر رہے ہیں، وہ قابل تعریف ہے۔

‘ملک میں اکثریتی طبقے کے چند مفاد پرست عناصر فرقہ واریت کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فرقہ پرستی اور مذہبی منافرت کو مٹانے کے لیے محبت کا پیغام بہت ضروری ہے جو کہ انیل کمار بخوبی نبھا رہے ہیں۔’

وہ کہتے ہیں کہ انیل کمار اپنے فن کے ذریعے بھائی چارے کو فروغ دے رہے ہیں جس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp