آپ اپنی لہجے کے ذریعے خود کو مزید پُرکشش کیسے بنا سکتے ہیں؟
فرانسیسی بولنے والے اسے ’ووا ڈی شومبا آ کوشی‘ کہتے ہیں جس کا مطلب ہے بے انتہا گہری اور جنسی خواہشات ابھارنے والی ’بیڈروم وائس‘ جس کی مدد سے اکثر افراد کو اپنے ساتھی کو جنسی تعلق کی جانب مائل کرنے میں مدد ملتی ہے۔
اس آواز کو بیان کرنا بھی انتہائی آسان ہے۔ کچھ افراد کی آواز دوسرے لوگوں سے زیادہ پُرکشش ہوتی ہے اور کیونکہ اس حوالے سے قواعد پوری دنیا میں ایک جیسے ہی ہوتے ہیں اس لیے یہ ہماری ارتقائی تاریخ کے ایک اہم حصے کو اجاگر کرتا ہے۔
ہم لوگوں کے بارے میں اپنی رائے قائم کرنے سے قبل انھیں اُن کے لہجوں کی بنیاد پر پرکھتے ہیں۔ ایسے افراد جن کی آواز یا لہجہ پُرکشش ہو وہ ہمارے نزدیک زیادہ اہل، رحم دل اور قابلِ بھروسہ ہوتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم کسی شخص کی صرف ایک خصلت (آواز) کے ذریعے اُس کی شخصیت کا غلط اندازہ لگا بیٹھتے ہیں جسے ‘ہیلو ایفکٹ’ کہتے ہیں۔
تو وہ کیا خاص بات ہے جو کچھ لہجوں کو انتہائی پُرکشش بناتی ہے؟
یونیورسٹی آف مونٹپلیئر میں لسانیات پر تحقیق کرنے والی میلیسا بیرکٹ-ڈیفراڈس کا کہنا ہے کہ آواز کی کشش ایک ایسی چیز ہے جو کہیں بھی اور کسی بھی شخص کو متاثر کر سکتی ہے۔ ’کوئی بھی ثقافت ہو، کوئی بھی خاتون چاہے اس کا تعلق جاپان سے ہو، امریکہ سے یا فرانس سے یا دنیا کے کسی ملک سے بھی، انھیں بھاری آوازیں اور لہجے زیادہ متاثر کُن لگتے ہیں۔‘
بھاری اور پرکشش لہجے والے مردوں کے ساتھ جنسی تعلق استوار کرنے کی خواہش ایمازون اور تنزانیہ میں صدیوں سے مقیم قدیم قبائل کی خواتین میں بھی پائی گئی ہے اور اس کی متعدد مغربی اور غیر مغربی مثالیں بھی موجود ہیں۔ لوگ بھاری آوازوں کو شکار کرنے کی صلاحیتوں، کریئر میں کامیابی اور طاقت سے جوڑتے ہیں۔
ہم ایسے سیاست دانوں کو جن کی آوازیں بھاری ہوتی ہیں زیادہ سنجیدگی سے لیتے ہیں اور اپنی نمائندگی کا اہل سمجھتے ہیں، وہ سیاستدان چاہے مرد ہو یا عورت۔
نوکری کے امیدوار مرد اور خواتین جن کی آوازوں کی پچ کم ہوتی ہے یعنی ان کی آوازیں بھاری ہوتی ہیں انھیں نوکری ملنے کا چانس بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اگر آپ بولنے میں اہل ہیں تو یاد رکھیں کہ بھاری لہجے ہونے کے عوض آپ کو پیسے بھی مل سکتے ہیں۔
تو اس عالمی طور پر اچھا سمجھے جانے والی خصلت (بھاری آواز) آپ کے کردار کے بارے میں کیا بتاتی ہے؟ اور کیا اوپر بیان کیا گیا مفروضہ کبھی غلط بھی ثابت ہوا ہے؟
بالغ ہوتے ہی خواتین اور مردوں دونوں کی آواز کی پچ کم ہونے لگتی ہے۔ لیکن ایک سات سالہ بچے کی آواز کی پچ سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پوری زندگی ان کی آواز کی پچ کیسی رہے گی۔
سنہ 1960 کی دہائی میں نشر ہونے والی برطانوی ٹی وی سیریز ’سیون اپ!‘ کے دوران بچوں کے ایک گروہ کی آوازوں کو ہر سات سال کے وقفے سے ریکارڈ کیا جاتا تھا۔ اس ریکارڈ کی مدد سے یونیورسٹی آف لیون کی ٹیم کو وہ مواد ملا جس کے ذریعے وہ ان بچوں کی زندگیوں کے مختلف حصوں میں ریکارڈ کی گئی آوازوں کی پچ کا اندازہ لگا سکتے تھے۔
انھیں معلوم ہوا کہ بلوغت سے قبل ان بچوں کی آواز کی پچ اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے انتہائی مؤثر تھی کہ ان کی آوازیں ادھیڑ عمری میں کیسی ہوں گی۔
ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ آواز کی پچ کا تعلق جسم میں موجود ٹیسٹوسٹیرون کی مقدار سے بھی ہے جو رومانوی وجوہات کے باعث بھی انتہائی اہم ہے کیونکہ اس کے ارتقائی پہلو پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ طاقتور مردوں سے خواتین کا جنسی تعلق قائم کرنے کا زیادہ دل کرتا ہے۔
تنزانیہ کے شکاریوں کی مثال دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ اُن کی بھاری آواز دراصل ان کی دیگر صلاحیتوں کے لیے پراکسی کا کام کر رہی تھی جن میں ٹیسٹوسٹیرون کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔
آپ کی آواز کی پچ کا بذاتِ خود کوئی مطلب نہیں ہوتا لیکن اس سے یہ اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ ایک شکاری دراصل کتنا باصلاحیت ہے اور یہ کہ وہ اپنے بچوں کو کس حد تک یہ فن منتقل کر پائے گا اور کیا مستقبل میں یہ صلاحیت اس کے بچے آگے آنے والی نسلوں میں منتقل کر پائیں گے۔
مردوں کے ٹیسٹوسٹیرون لیولز کی مقدار کا اندازہ ان کی ماؤں کے اینڈروجنز (یعنی ہارمونز کا وہ گروہ جس میں ٹسٹوسٹیرون شامل ہیں) سے ہوتا ہے جو حمل کے آٹھویں سے 24ویں ہفتے کے دوران ترتیب پاتا ہے۔ پسانسکی کہتے ہیں کہ جو چیز ادھیڑ عمر تک ہمارے ساتھ رہے گی اور ہماری بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت میں اہم کردار ادا کرے گی اس کا تعلق دراصل اس چھوٹے سے عرصے سے ہے جس دوران ہم اپنی ماں کے پیٹ میں ہوتے ہیں۔
مردوں کی خواتین کے حوالے سے ترجیحات خاصی پیچیدہ ہوتی ہیں۔
ایک عرصے تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ مردوں کو ایسی خواتین پسند ہوتی ہیں جن کی آوازیں باریک ہوتی ہے۔ (وقت کے ساتھ آوازوں کے بھاری ہونے کی صورت میں یہ ہمیں خاتون کی جوانی اور وہ کتنے سال تک بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اس حوالے سے بتاتی ہے)۔ اگر اسے صرف بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت کے نظریے سے دیکھا جائے تو یہ دراصل مردوں کے لیے فائدہ مند سمجھا جاتا ہے کہ وہ ایسی خاتون سے شادی کر لیں جو زیادہ بچے پیدا کر سکے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسی خواتین جن کی آوازیں زیادہ بھاری ہوتی ہیں انھیں زیادہ قابلِ اعتماد اور اہل سمجھا جاتا ہے۔ اس بات سے پسانسکی اور بیرکٹ ڈیفریڈس کو ایک دلچسپ خیال آیا۔ کیا ہم اپنی پچ کو موقع کی مناسبت سے بدل سکتے ہیں؟
آپ شاید یہ سوچتے ہوں گے کہ دو مختلف رویے ایک ڈیٹ میں کیسے نظر آتے ہوں گے
آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ دو مختلف رویے ایک ڈیٹ میں کیسے نظر آتے ہوں گے۔ آپ یہی سوچتے ہوں گے ایک اچھی ڈیٹ یعنی کسی دوسرے کے لیے کشش پیدا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے درمیان اچھی گفتگو ہو۔
تاہم ایک ڈیٹ کے دوران ہم اپنی آواز کی پچ اپنے ساتھی کی آواز سے ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔
جب دو افراد کے درمیان مزیدار گفتگو ہو رہی ہوتی ہے اس وقت ہم اپنی آواز کی پچ ان سے ملا لیتے ہیں لیکن جب ہم انھیں اپنی طرف مائل کرنا چاہتے ہیں تو ہم دوسرا حربہ استعمال کرتے ہیں۔ پسانسکی کے مطابق خواتین اچھی گفتگو کو دوسرے کو اپنی جانب مائل کرنے پر فوقیت دیتی ہیں جبکہ مردوں میں کہانی اس کے الٹ ہوتی ہے۔
اپنی آواز کی پچ کو کم یا زیادہ کرنا دراصل اس بات کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ ہمیں ڈیٹ پر آنے والا شخص کتنا پرکشش لگا ہے لیکن یہ دوسرے شخص کو ہماری طرف بھی کچھینچ لیتی ہے۔ ہم اپنی پچ کے ذریعے دوسروں کو دھوکہ بھی دے سکتے ہیں۔
تاہم خواتین کو جب کوئی مرد پرکشش لگتا ہے تو وہ اپنی آواز کی پچ کو کم کر لیتی ہیں، خاص طور پر اگر یہی مرد دوسری خواتین میں زیادہ مقبول ہو۔
یہ بھی پڑھیے
وہ خصوصیت جو خواتین کے کیریئر کی راہ میں حائل ہو سکتی ہے
’خاتون سربراہ کو مرد ناپسند نہیں کرتے‘
سپیڈ ڈیٹنگ کے دوران خواتین اپنی آواز کی پچ اس وقت کم کرتی ہیں جب وہ مقبول مردوں کے ساتھ ہوں۔ پسانسکی کے مطابق یہ سیاستدانوں کے جیسا ہی ہے جو اپنے مخالفین سے زیادہ سنجیدہ اور کم بیوقوف دکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جب ہماری کسی سے اچھی بات چیت ہوتی ہے تو آواز کا اُتار چڑھاؤ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مگر ہمیں کوئی پُرکشش لگتا ہے تو اس سے الٹ ہوتا ہے۔ مردوں کے لیے آواز کی پِچ کم ہو جاتی ہے مگر خواتین کی پچ بڑھ جاتی ہے۔ یہ عام طور پر ذہنوں میں پنپنے والے صنفی تصورات سے مطابقت رکھتا ہے۔ ہمیں کوئی جتنا اچھا لگتا ہے، آواز کی گہرائی میں اتنا ہی فرق ہوتا ہے۔
فرانسیسی بالغ افراد پر سپیڈ ڈیٹنگ کے ایک تجربے میں یہ دیکھا گیا کہ مردوں کو ایسی خواتین پسند آتی ہیں جن کی آواز میں گہرائی ہو۔ پسانسکی کے مطابق یہ بدلتے رویوں کی علامت ہے جس میں اب مرد ایسی خواتین میں دلچسپی لے رہے ہیں جو زیادہ سنجیدہ ہیں اور اپنے کیریئر پر دھیان دیتی ہیں۔
پسانسکی کہتی ہیں کہ ‘شاید اب خواتین مردوں کی طرح بولنا چاہتی ہیں، یعنی زیادہ قابل اور بااثر لگنے کے لیے۔ خواتین ابھی مدھم آواز میں بول رہی ہیں۔’
‘اور شاید کچھ ثقافتوں میں مرد ایسی خواتین میں دلچسپی لیتے ہیں جو پختگی اور قابلیت میں یقین نہیں رکھتیں، بلکہ جوانی اور زرخیزی کو اہم سمجھتی ہیں۔’
برکت دفرادس اس سے اتفاق کرتی ہیں مگر کہتی ہیں کہ ایسا صرف فرانسیسی بالغ افراد میں دیکھا گیا ہے۔ ‘فرانس میں باقی دنیا کے مقابلے مرد ایسی خواتین کو ترجیح دے رہے ہیں جن کی آواز مدھم ہو۔’
شاید ‘بیڈ روم کی آواز’ میں کوئی بات ضرور ہے۔ ہو سکتا ہے باقی دنیا کے مقابلے میں فرانس میں مردوں کو ایسا مخصوص لہجہ پسند ہو جو باقی دنیا سے مختلف ہے۔
یا پھر فرانسیسی لوگوں میں کچھ الگ ہوتا ہے۔۔۔ جس طرح یہ لوگ بات کرتے ہیں؟
غیر سائنسی لہجوں کی رائے شماری میں اسے اکثر اعلیٰ درجہ ملتا ہے۔ برکت دفرادس کہتی ہیں کہ فرانسیسی شہری بولنے کے دوران زیادہ پاؤٹ کرتے ہیں (یعنی دونوں ہونٹوں کو ملا کر انھیں آگے کی طرف دھکیلنا)۔ امکان ہے کہ اسے پُرکشش تصور کیا جاتا ہے۔
ہوسکتا ہے فرانسیسی زبان بولنے والوں کو فرانس کی سافٹ پاور کے تناظر میں دیکھا جاتا ہو۔ جیسے وہاں کے کھانے، شراب، پیرس یا ان سے منسوب کیے جانے والے رومانوی خیالات۔ فرانس کے اپنے شہریوں کے لیے یہ مماثلت لہجے پر زیادہ مبنی ہے۔
لیکن کیا زبان و بیان کا کوئی نیا لہجہ اپنانے سے آپ نوجوان یا طاقتور بن سکتے ہیں؟
پسانسکی کہتی ہیں کہ انسانوں کے پاس آواز کی رینج بہت زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن ان میں یہ صلاحیت بھی ہوتی ہے کہ بناوٹی لہجے کی نشاندہی کر سکیں اور اس حوالے سے کسی کو آسانی سے دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔
وہ اس حوالے سے اپنی غیر شائع شدہ تحقیق کا حوالہ دیتی ہیں۔ ‘اگر ہم اپنی آواز سے لوگوں کو دھوکہ دیتے رہیں تو مواصلات کا پورا نظام ٹوٹ پھوٹ جائے۔’
پسانسکی کے مطابق نوجوان امریکی خواتین کی جانب سے شاید اس لیے اپنا لہجہ تبدیل کیا جاتا ہے کیونکہ وہ قابل دکھنے کی خواہش رکھتی ہیں۔ اسے ’ووکل فرائی‘ کہتے ہیں جس میں آواز کی پچ قدرتی سطح سے کم ہو جاتی ہے اور یہ پھر ہموار سنائی نہیں دیتی۔
پسانسکی کے مطابق ‘یہ اس کا نتیجہ ہے کہ خواتین مدھم مگر متاثرکن آواز میں بولتی ہیں۔ لیکن قدرتی طور کچھ حدود موجود رہتی ہیں۔’
‘اسی لیے ووکل فرائی مردوں سے زیادہ خواتین میں عام ہے۔ مردوں کی آواز مزید کم ہو سکتی ہے۔’
وہ کہتی ہیں کہ ‘حالیہ کام سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس سے خواتین زیادہ ذہین نہیں لگتیں، کم از کم ان تحقیقات میں جو میں نے دیکھی ہیں۔’
مثال کے طور پر اگر آپ کی آواز کم ہو جائے تو ووکل فرائی سے آپ کی نوکری خطرے میں پڑ سکتی ہے کیونکہ مصنفین کے مطابق جب خواتین ناہموار آوازوں سے بات کرتی ہیں تو روایتی طور پر انھیں کم سنجیدہ سمجھا جاتا ہے۔
اگر آپ کو بناوٹی لہجے سے گریز کی ایک اور وجہ چاہیے تو اس بات کے بھی کافی شواہد موجود ہیں کہ غیر معمولی نہ ہونے کے کچھ قدرتی فوائد ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ جن کی شکل صورت اور آوازیں غیر معمولی نہیں ہوتیں ان میں ہٹرو زائگس میجر ہسٹو کمپیٹیبلٹی کمپلس ہوتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ وہ وبائی امراض سے زیادہ بہتر انداز میں نمٹ سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
مدھم مدھم لہجے میں دنیا دکھانے والا جادوگر
کیا جنسی کشش کے بغیر دوستی ممکن ہے؟
خواتین کی مخصوص جسامت کا بچے پیدا کرنے کی صلاحیت سے کوئی تعلق ہے؟
یہ ڈی این اے کا وہ حصہ ہے جو خلیات کی سطح پر پروٹین کو تشکیل دیتا ہے۔ یہ اس حوالے سے مدافعتی نظام کی معاونت کرتا ہے کہ جسم میں کون سے خلیات ہمارے اپنے ہیں اور کون سے باہر سے داخل ہوئے ہیں۔
یہ صلاحیت ہونے سے ہمارا جسم جلدی بیماریوں کی نشاندہی کر سکتا ہے اور انھیں ختم کر سکتا ہے۔ اسی لیے ایسے افراد جو غیر معمولی نہیں ان کے پاس زیادہ امکانات ہیں کہ وہ صحت مند مدافعتی نظام کے لیے بہتر جینز آگے دے سکیں۔
عام لہجے والے لوگوں کی بات سمجھنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ کیونکہ ہم کسی غیر معمولی لہجے کے مقابلے میں ایسی آواز سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ برکت دفرادس کے مطابق ‘ہمیں وہ چیز پسند نہیں آتی جو ہمیں سمجھ نہ آئے۔’
یہ تحقیق زیادہ تر مخالف جنس کی طرف رغبت رکھنے والے افراد پر کی گئی ہے کیونکہ محققین یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ہمارے آباؤ اجداد کو کس مخصوص دباؤ کا سامنا تھا جس سے ارتقائی عمل میں جدید انسان کے رویے قائم ہوئے ہیں۔
اس تھیوری کے مطابق ماضی کی خواتین نے مردوں کی خصوصیات کی خواہش رکھی کیونکہ طاقتور مرد خاندان کا بہتر انداز میں خیال رکھ پاتے تھے۔ جبکہ مرد ان نوجوان خواتین کی خواہش کرتے تھے جن کے پاس بچے پیدا کرنے کی صلاحیت زیادہ ہو۔
پسانسکی اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ مردوں کی آوازوں پر تحقیق کرنے میں تعصب شامل ہے۔ ہم جنس پرست لوگوں پر تحقیق میں مردوں کی خصوصیات کو دیکھا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا ہے کہ ہم جنس پرست مردوں کو ایسے مرد ہی پسند ہوتے ہیں جیسا کہ کسی عام خاتون کو پسند ہوں۔ دریں اثنا ہم جنس پرست خواتین پر اتنی تحقیق نہیں کی گئی۔
ان تھیوریز کی بنیاد پُرکشش ہونے کی سائنسی وضاحت ہے۔ لیکن کیا یہ نتائج موجودہ دور سے مطابقت رکھتے ہیں؟ صرف اس صورت میں جب آپ کسی سے اس مقصد سے تعلق قائم کرتے ہوں کہ اس سے آپ کے بچوں کو اچھے جینز ملیں گے۔ باقی لوگ شاید کسی خوش گفتار انسان سے ویسے ہی مطمئن ہو جاتے ہیں۔
- مرنے سے قبل چند افراد کو اپنے وہ پیارے کیوں دکھائی دیتے ہیں جو پہلے ہی مر چکے ہوتے ہیں؟ قریب المرگ افراد کے تجربات - 18/04/2024
- یوکرین جنگ میں 50 ہزار روسی فوجیوں کی ہلاکت: وہ محاذِ جنگ جہاں روسی فوجی اوسطاً دو ماہ بھی زندہ نہیں رہ پا رہے - 18/04/2024
- دنیا کے دوسرے مصروف ترین دبئی ایئرپورٹ کی کہانی: ’یہاں حالات بدترین نہیں بلکہ خطرناک ہیں، ہمیں جانوروں کی طرح رکھا گیا ہے‘ - 18/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).