گجرات شہر میں خواتین کے سرکاری کالجز کا المیہ


گجرات سٹی کے چار کالجز ( مرغزار کالونی کالج، فوارہ چوک کالج، سرسید کالج اور سائنس کالج جی ٹی روڈ ) جو 2005 سے پہلے پنجاب ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ( ایچ۔ ای۔ ڈی ) کے زیر انتظام تھے اور جہاں پنجاب گورنمنٹ کا ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ سٹاف کام کر رہا تھا۔ ان اداروں کو 2005 میں سٹاف سمیت یونیورسٹی آف گجرات کی تحویل میں دے دیا گیا۔ کیونکہ اس وقت تک یو۔ او۔ جی گجرات کا اپنا کوئی کیمپس نہیں تھا۔ اب ایک ایچ۔ ای۔ ڈی کی طرف سے لکھے گئے مراسلے سے معلوم ہوا ہے کہ ایچ۔

ای۔ ڈی اپنے ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ سٹاف کو ان اداروں سے واپس بلا کر پنجاب حکومت کے زیر انتظام چلنے والے کالجز میں تعینات کرنا چاہتی ہے۔ ان چار کالجز میں سے تین خواتین کے کالجز ہیں جہاں انٹر اور گریجوایشن کی سطح پر بچیاں تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ اگر ایچ۔ ای۔ ڈی پنجاب نے اپنے ملازمین کو ان کالجز سے نکال کر کہیں اور پوسٹ کیا تو خواتین ٹیچنگ سٹاف اور انٹر کی طالبات کے لیے مسائل پیدا ہو جائیں گے کہ اب اور آئندہ وہ کہاں پڑھنے اور پڑھانے کے لیے جائیں گے۔

جبکہ گجرات شہر میں اب خواتین کے لیے پنجاب حکومت کا کوئی اور ادارہ نہیں۔ معتبر ذرائع کے مطابق یو۔ او۔ جی نے سیکرٹری ایجوکیشن ( ایچ۔ ای۔ ڈی) پنجاب کو اس کے ایک تحریر کردہ مراسلہ کے جواب میں ایک مراسلہ لکھا ہے۔ اس مراسلے کے متن سے ایچ۔ ای۔ ڈی اور گجرات یونیورسٹی کے مابین ایک باہمی کشاکش کی صورت سامنے آ رہی ہے۔ دراصل یونیورسٹی آف گجرات ان ملازمین کو کالجز میں انٹر کلاسسز چلانے کے لیے واپس نہیں کرنا چاہتی جبکہ پنجاب حکومت اپنے ان ملازمین کو واپس لینا چاہتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس آفیشل کشمکش میں آخر ان اداروں کا مستقبل کیا ہوگا؟

اس کشاکش کی اصل وجہ بدانتظامی سے پیدا ہونے والی معاشی صورت حال ہے۔ دونوں طرف کی اتھارٹیز اپنے کندھوں سے ان اداروں کا بوجھ اتارنا چاہتی ہیں۔ یونیورسٹی ( یو۔ او۔ جی گجرات ) نے اپنے خط میں اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ ایچ۔ ای۔ ڈی کے اساتذہ کے جانے سے ہمیں مجبوراً ان اداروں سے انٹر کی کلاسسز کو ختم کرنا پڑے گا۔ جس سے خطے میں تعلیمی صورت حال خراب ہوگی۔

اب سوال یہ ہے کہ ایچ۔ ای۔ ڈی اور یو۔ او۔ جی کی اس باہمی کشمکش میں طلبہ خصوصاً انٹر کی طالبات کا آئندہ مستقبل کیا ہوگا۔ جبکہ تیس جون 2021 تک پنجاب حکومت ان کالجز میں موجود اپنے ملازمین کو واپس لینا چاہتی۔ کیونکہ ڈی۔ ڈی۔ سی آفس گجرات کے معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ایچ۔ ای۔ ڈی نے ایک مراسلہ لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جو اساتذہ اور نان ٹیچنگ سٹاف مذکورہ کالجز میں کام کر رہے ہیں انھیں مرحلہ وار تیس جون تک یونیورسٹی کے ان اداروں کو چھوڑ کر ایچ ای۔ ڈی کے زیر انتظام چلنے والوں قریبی اداروں میں آنا ہوگا۔ دوسری صورت میں ایچ۔ ای۔ ڈی کے ملازمین کی تنخواہ کی ادائیگی کی ذمہ داری جولائی 2021 سے ایچ۔ ای۔ ڈی کی نہیں ہوگی۔

زیادہ مسئلہ ایچ۔ ای۔ ڈی کی خواتین اساتذہ اور طالبات کا ہے کیونکہ گجرات سٹی کے اندر خواتین کے لیے پنجاب حکومت کا کوئی بھی سرکاری کالج نہیں کہ جہاں وہ جا سکیں۔ چاہیے تو یہ کہ پنجاب حکومت اپنے ان اداروں کو واپس لے اور خود چلائے۔ کیونکہ یونیورسٹی کا اب اپنا شاندار کیمپس بن چکا ہے اور ویسے بھی کوئی یونیورسٹی انٹر کی کلاسسز کو ڈیل نہیں کرتی۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے گجرات کے سیاسی قائدین اور سول سوسائٹی سامنے آنا چاہیے تاکہ اس صورت حال کا کوئی مناسب حل تلاش کیا جا سکے اور گجرات شہر کی طالبات اور خواتین ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ سٹاف کو نہ صرف ریلیف مل سکے بلکہ اہل گجرات اپنی بچیوں کو سستی اور معیاری سرکاری تعلیم کے زیور سے آراستہ کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments