مغربی ادب: افلاطون سے پوسٹ مارڈن ازم تک



مغرب کی موجودہ جداگانہ تہذیبی شکل سے تعارف کے لیے ضروری ہے کہ ہم مغربی ادب کے تاریخی سفر سے کسی حد تک ضرور واقف ہوجائیں ورنہ دوسری صورت میں ہمارے قیاس و خیال محض یک طرفہ شکل میں ہمارے ذہن کا حصہ بن کر رہیں گے اور ایک علمی توازن کے ہمیشہ محتاج رہیں گے۔ مغربی تہذیب نے درحقیقت دو قطعی مختلف اور مخالف قدیم ترین مذہبی اور غیر مذہبی روایتوں کے درمیان مستقل ٹکراو سے پرورش پائی ہے جس کے اثرات دور حاضر تک مغربی سماج میں ہمیں نظر آتے ہیں۔ یہ دونوں قدیم ادبی روایتیں بالترتیب ہیبریک اور ہیلینک روایتیں کہلاتی ہیں جس میں ہیبریاک روایت کا تعلق بائبل کی ایک آئیڈل تصور زندگی سے ہے جبکہ ہیلنک روایت کا تعلق زندگی کے ان زمینی حقائق سے ہے جو قدیم یونانی اساطیر کے پس منظر میں وجود میں آئیں۔ صدیوں کے ارتقائی سفر میں بالآخر ان دونوں روایتوں کے اثرات مغربی تہذیب کے آرٹ اور سائنس دونوں ہی علمی دنیاوں کی بنیادوں میں نہ صرف پنپتے چلے گئے بلکہ آنے والے زمانوں میں پیدا ہونے والی جنریشنز کے دائیں اور بائیں دماغوں کی جنیٹکس کا بھی حصہ بن گئے۔ آئیں ان دونوں تہذیبی روایتوں کے مطالعے کے خاطر تاریخ کی بھولی بسری گلیوں میں کچھ دیر کے لیے چہل قدمی کرتے ہیں۔

ہیبریک روایتوں کے پس منظر کو جاننے کے لیے جب ہم تاریخ کے صفحات کی ورق گردانی کرتے ہیں تو ہماری انگلیاں چند لمحوں کے لیے حضرت عیسی سے تین سے چار ہزار برس قبل مصری، سومیرین، بیپی لو نین اور ایسایئرین سلطنتوں پر آ کر ٹھر جاتیں ہیں جنہیں ہم قدیم مشرقی تہذیب کہتے ہیں۔ اس تاریخی سفر کے دوران ہماری نظروں میں صحرائی عرب میں ہبرو بولنے والے وہ یہودی قبائل آ جاتے ہیں جو برس ہا برس سے حضرت موسی کے انتظار میں کنان کی وادیوں میں پہنچنے کا خواب دیکھتے ہوئے بھٹکتے پھر رہے تھے۔

اس دوران ان میں سے کئی ایک قبائل مصر میں ہی بس گئے تھے مگر خدا کے وعدے کے پورا ہونے کے بھی منتظر تھے۔ بالاخر ایک دن ان کا خواب پورا ہوا اور چالیس برسوں کی وادی سینا میں ریاضت رنگ لے لائی اور وہ حضرت موسؑی کی پیغمبرانہ رہنمائی میں کنان کی زرخیز وادیوں میں پہنچ کر آباد ہوئے اور یوں ان کا قدیم مذہب موسوی یہودیت سے بدل گیا۔ موسوی شریعت کا یہ تہذیبی سفر بالآخر ایک دن تاریخ میں عیسائیت کی تخلیق کا سبب بنا بلکہ مغربی ادب اور تہذیب و تمدن کی بنیاد بھی بن گیا۔

تاریخ کے اس طویل سفر میں ان تابعدار یہودیوں کی بدلتی ہوئی سیاسی و سماجی اشکال بھی خوب ہی دلچسپ رہی۔ کبھی تو یہ یہودی قبائل حضرت داود اور سلمانؑ کے دور میں (یعنی نو سو قبل المسیح) خوب ہی سیاسی طاقت بن کر چمکے تو کبھی ایسایئرین اور بیپی لو نین تہذیبوں کے دوران سخت ترین اسیری کا شکار ہوئے، کبھی تو فارس کے سارس دی گریٹ کی وجہ سے انہیں خوب ہی شاندار معاشی خوشحالی نصیب ہوئی تو کبھی رومن اور یونانی ادوار کے ابتدائی عہد میں خوب ہی سختیاں جھیلنی پڑیں۔

ہبرو زبان بولنے والے ان یہودیوں کا بنیادی تصور ادب سراسر مذہبی عقائد کے اطراف ہی بسا ہوا تھا۔ ان کے نزدیک خدا کائنات کا خالق اور انسان اس کی پسندیدہ ترین تخلیق تھا۔ وہ اخلاقی نظریات کو توحید کے تصور سے جوڑتے تھے اور ایمان، تقدس، انصاف، رحم اور عاجزی کو انسانیت کے بنیادی جواہر قرار دیتے تھے۔ اس قدیم ترین یہودی تہذیب کی نمائندگی ان کی الہامی کتاب بائبل سے ہوئی جس کی ادبی تحریروں میں تاریخی مذہبی قصے، پیغمبروں کی سوانح حیات، قدیم ترین مذہبی ادوار کے لوک قصے و کہانیاں، افسانے، طربیہ نظمیں اور ڈرامے شامل ہیں جو سراسر مذہبی اخلاقیات کا احاطہ کرتے ہیں۔ ہیبرک روایتوں کے اس ارتقائی تصور حیات نے مغربی ادب کی بنیادوں میں ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

تاریخ کی کتاب کے اگلے صفحات جوں جوں ہمیں حضرت عیسی کی پیدائش سے ایک ہزار برس قبل کے مصر اور فلسطین کی طرف سے یونان کی طرف لاتے ہیں تو ہمیں مغربی تہذیب کی بنیادوں میں پنپنے والی ان ہیلینک روایتوں سے آشنائی نصیب ہوتی ہے جو ہیبریک روایتوں کے بالکل متوازی مگر مخالف سمت میں گامزن تھیں۔ اس دور کا یونانی ادب موسوی شریعت سے گھرا ہو نے کے باوجود قدرے انسانی اشکال میں ڈھلا ہوا تھا۔ ان کے دیوی و دیوتاؤں کے کردار انسانوں کی طرح کہیں بہادر تو کہیں شہوت پرست، کہیں پرجوش تو کہیں جیلس، کہیں وفا پرست تو کہیں مشتعل اور انتقامی تھے۔

دیومالائی کہانیوں کے یہ دیوی دیوتاؤں کے اساطیری کردار یونانیوں کے ادبی و تہذیبی ہیروز اور ولنز تھے جو عموماً انسانی خوبیوں اور خامیوں سے بھرے پرے تھے۔ اس قدیم یونانی تہذیب کی نمائندگی جن قصوں کہانیوں سے ہوتیں تھیں وہ زمینی حقائق اور فطری انسانی مزاج سے جڑی ہوئیں تھیں۔ موسوی شریعت سے متاثر ادبی تحریروں کے بجائے ہمیں اس دور کا یونانی ادب قدرے سیکولر اور انسانی قدروں سے آراستہ نظر آتا ہے۔ گو کہ اس دور میں شامل روایتیں، داستانیں اور قصے کہانیاں بھی خداوں اور دیوی دیوتاؤں سے ہی منسوب تھیں مگر ان کا تصور سراسر تشبیہی یا میٹافوریکل تھا جو ایپک نظموں کی صورت میں بیان کیا جاتا تھا۔ ہیلینک روایتوں کے اس ارتقائی سفر نے ہیبریک روایتوں کے مقابل مغربی ادب کی بنیادوں میں اہم کردار ادا کیا۔

(جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments