اندیشہ


مارچ دو ہزار بیس میں جب یہ اعلان کیا گیا کہ پاکستان میں تعلیمی ادارے کرونا کی وبا کی وجہ سے ایک غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیے جائیں گے اور تمام تعلیمی سرگرمیاں آن لائن موڈ پر آ جائیں گی تو بحیثیت ایک ٹیچر کے میرے ذہن میں یہ تشویش لاحق نہیں ہوئی کہ تعلیمی ادارے کب دوبارہ سے کھلیں گے بلکہ میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ آیا آئندہ آنے والی نسلیں پاکستان کی معیشت، سائنس و آرٹس اور دوسرے تمام شعبوں میں اپنی کوئی کنڑیبیوشن کر پائیں گیں؟

اور پھر وہ ہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ ہائیر ایجوکیشن میں کاپی پیسٹ کا جو بازار گرم ہوا وہ آج تک اسی رفتار سے جاری و ساری ہے۔ آئن لائن ایجوکیشن نے تعلیمی اداروں اور طلباء کے عزائم کا اصل چہرہ بے نقاب کر دیا۔

اگر تعلیمی اداروں کی آن لائن کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو اس کا بھر پور فائدہ نجی یونیورسٹیوں اور کالجوں نے بہت احسن طریقے سے اٹھایا۔ کچھ نجی یونیورسٹیاں ایسی بھی ہیں جنہوں نے آئن لائن ایجوکیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک استاد پر پانچ سو سے سات سو تک کے طلباء کا بوجھ ڈال دیا۔ یعنی اگر کیمپس میں ایک ٹیچر ساٹھ طلباء کو بیک وقت پڑھاتا تھا تو اب چھ سو طلباء کا بوجھ ایک استاد پر ڈال دیا گیا۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ اس کو چھ سو طلباء کی امتحانی کاپی کے لیے تین دن کی ڈیڈ لائن بھی دے دی گئی۔ یہاں آپ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ استاد نے امتحانی کاپی جانچنے میں کتنا انصاف کیا ہوگا؟

دوسری طرف طلباء کے گوشۂ اذہان میں یہ بات پیوست کردی گئی کہ آن لائن ایجوکیشن میں کسی کو فیل نہیں کیا جاتا اور ایک جذباتی فکری مغالطہ کہ ہم ایک وبائی دور سے گزر رہے ہیں کا پوری جذباتی توانائی کے ساتھ فائدہ اٹھایا گیا۔ اور یوں طلبا نے اپنے امتحان نہ دینے کی مختلف وجوہات بتا کر تعلیمی اداروں کے کرتا دھرتا اور اساتذہ کی ہمدردی بٹور کر اپنے آپ کو کامیابی سے ہم کنار کیا۔ امتحانات کے دوران جتنا وکی پیڈیا ویب سائٹ کا استعمال کیا گیا اس کی بھی مثال ڈیجیٹل تاریخ میں کہیں نہیں ملتیں۔ طلباء کی کثیر تعداد نے اپنے پرچے وکی پیڈیا کے ذریعے ہی حل کئیے اور خوب بہتی گنگا میں ہاتھ صاف کیا۔

اب دس سال بعد اگر کسی انجنئیر کے بنائے ہوئے پل میں دراڑیں پڑیں تو ہمیں شکوہ نہیں کرنا چاہیے، اگر کسی ڈاکٹر کی دوا یا غلط انجیکشن سے کوئی مریض دنیا سے رخصت ہو جائے تو ہمیں صبر کرنا پڑے گا اور اگر کوئی استاد جدیدیت کے فلسفے کی غلط تاویلیں پیش کرتا ہوا نظر آئے تو ہمیں اسے سچ سمجھ کر تسلیم کرنا پڑے گا۔

خرابی آئن لائن ایجوکیشن میں نہیں بلکہ ہمارے سوچنے کے معیار میں ہے۔ بحیثیت قوم ہم نے اپنے آپ کو ہمیشہ موقعے کی تلاش میں سرگرداں پایا ہے۔ تعلیم ہو یا مذہب، معیشت ہو یا ثقافت، دین ہو یا دنیا ہم نے ہمیشہ شارٹ کٹ کو ترجیح دی ہے اور جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں جہاں ترقی اور کامیابی کی رفتار قوموں کے مثبت مستقبل کا تعین کرتے دکھائی دیتی ہیں۔

اب شاید آئندہ دس سالوں میں ہمیں کوئی ڈاکٹر ادیب رضوی، ڈاکٹر عبدالقدیر، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم، اور ڈاکٹر عطا الرحمان اور طلعت حسین جیسی نامور شخصیات نہ مل سکیں۔ میری خواہش ہے کہ میرا یہ اندیشہ غلط ثابت ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments