خواتین کرکٹرز اور زچگی: تین کرکٹرز کی کہانی جنھوں نے بچوں کی پیدائش کے بعد بھی کھیل جاری رکھا

ایمی لوفٹ ہاؤس - بی بی سی سپورٹ


اگلے چھ گھنٹوں کے لیے سارہ ایلیئٹ کو اپنے ہاتھوں میں بیٹ اٹھا کر صرف اتنا سوچنا تھا کہ ایک گیند اُن کی طرف آ رہی ہے اور انھیں اسے کیسے کھیلنا ہے۔

وہ ایک آسٹریلوی کرکٹر ہیں جو انگلینڈ کے خلاف وومنز ایشز ٹرافی کھیل رہی تھیں۔ اس سے پہلے تو سارہ الیئٹ کی تمام تر توجہ کرکٹ پر ہوا کرتی تھی، مگر اب چیزیں تبدیل ہو چکی تھیں۔

اگست 2013 میں کرکٹ کھیلنے کے ساتھ ساتھ سارہ ایلیئٹ کو اپنے نو ماہ کے بیٹے کی بھی دیکھ بھال کرنا تھی۔

جب وہ میچ میں وقفے کے دوران گراؤنڈ سے باہر آتیں تو پہلے ڈریسنگ روم میں کوئی الگ تھلگ کمرہ ڈھونڈ کر اپنے بیٹے سیم کو دودھ پلاتیں۔

31 سالہ ایلیئٹ اس سکواڈ میں واحد ماں تھیں۔ وہ پہلی ایسی کرکٹر بن کر تاریخ رقم کر رہی تھیں جو ماں بننے کے بعد آسٹریلوی ٹیم کے ساتھ دورے کا حصہ تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں بھول گئی تھی۔۔۔ وہ بیچاری نوجوان لڑکیاں۔‘

’یہ سب ان کے لیے تعلیم سے کم نہیں تھا۔ انھیں اس بارے میں معلوم نہیں تھا کہ ایکسپریس مِلک کیا ہوتا ہے، یا بچوں کی دیکھ بھال کیسے کرتے ہیں۔‘

’بریسٹ پمپ استعمال کرنے پر اس سے ایک خوفناک آواز آتی تھی۔ تو میں اسے ایک تولیے کے نیچے چھپا دیتی تھی لیکن آپ پھر بھی یہ آواز سن سکتے تھے۔ میں خاموشی والی جگہ ڈھونڈا کرتی تھی مگر بعض اوقات، جیسے چائے کے وقفے کے دوران، صرف 20 منٹوں میں ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا تھا۔‘

کسی خاتون کھلاڑی کے حاملہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اب ان کا کیریئر ختم ہو گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ماضی میں ایسا کئی بار ہوا ہے۔

مگر اب خواتین کے کھیلوں میں پیشہ ورانہ معیار متعارف کرانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اور کھلاڑیوں کو اپنے خاندان کی پرورش کے لیے کھیل چھوڑنے کی ضرورت نہیں۔

ایک وقت تھا جب خواتین کے کرکٹ کھیلنے کے خیال کو سابق انگلش کرکٹر لین ہٹن نے یہ کہہ کر رد کر دیا تھا کہ ’یہ بات مضحکہ خیز ہے۔ یہ ایسا ہے جیسے مرد کپڑوں کی بُنائی شروع کر دیں۔‘

مگر اب اس کھیل میں زچگی کی صورت میں بہتر سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ مختلف ملکوں کے کرکٹ بورڈز نے حاملہ پلیئرز کے لیے نئی پالیسیاں اپنائی ہیں جن میں کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ دوبارہ کرکٹ کھیلنا شروع کریں، اور ایسے میں خواتین ماں بننے کے مرحلے کو ایک مختلف زاویے سے دیکھنا شروع ہو گئی ہیں۔

میگن شوٹ کی مثال ہی لے لیں۔ آسٹریلیا کی یہ فاسٹ بولر دنیا کے بہترین بولرز میں سے ایک ہیں۔ ان کا لمبا قد ہے اور وہ دائیں بازو سے بولنگ کرواتی ہیں۔ وہ ایسے گراؤنڈ میں بھی سوئنگ ڈھونڈ لیتی ہیں جہاں دیگر بولر ایسا نہیں کر پاتے۔

جب ایلیئٹ کرکٹ کھیلنے کے ساتھ سیم کی دیکھ بھال کر رہی تھیں تو ڈریسنگ روم میں موجود میگن کی عمر صرف 20 سال تھی۔

میگن کی عمر اب 28 سال ہے۔ وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں کہ سارہ ایک سنچری بنا کر (ڈریسنگ روم) آئیں اور جب میں نے ان کی طرف دیکھا تو وہ اپنے بچے کی دیکھ بھال میں مصروف تھیں۔‘

میگن

میگن اس وقت آئی سی سی کی ون ڈے میں بہترین بولرز کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہیں

’میری عمر کافی کم تھی۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی، جب میری نظر ان کی چھاتی پر پڑی اور میں نے ہنسنا شروع کر دیا۔ لیکن اس لمحے میری نظر میں ان کی عزت بڑھ گئی۔‘

’میں پہلے بھی ان کا احترام کرتی تھی کیونکہ میں دیکھ سکتی تھی کئی روز تک وہ کتنی تھکاوٹ کا شکار ہوتی تھیں۔ مجھے معلوم تھا کہ سیم کی وجہ سے وہ پوری رات سو نہیں پاتیں۔ میں سوچا کرتی تھی کہ خدا! یہ کیا خاتون ہیں۔‘

جب میگن کی اپنی اہلیہ جیس سے شادی ہوئی تو انھوں نے فوراً بچوں کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔ ہم جنس پرست جوڑے کی حیثیت سے ان کے پاس محدود راستے تھے۔ میگن کو ڈر تھا کہ ’بچے کی اصل ماں کی طرح شاید وہ اس کے ساتھ روابط قائم نہیں کر پائیں گی۔‘

اس جوڑے نے ریسیپروکل آئی وی ایف (ان ورٹو فرٹیلائیزیشن) کے راستے کا انتخاب کیا۔ اس میں ایک پارٹنر فرٹیلائیزیشن کے لیے بیضہ عطیہ کرتی ہے اور دوسری پارٹنر ایمبریو حاصل کرتی ہے۔ یہ کوئی آسان طریقہ نہیں ہے۔

بین الاقوامی کرکٹر کی حیثیت سے میگن کو کئی روز ٹریننگ کرنا پڑتی ہے، دوروں پر دوسرے ممالک روانہ ہونا پڑتا ہے اور پورے سال کے دوران کرکٹ کی سرگرمیاں بڑھ چکی ہیں۔ انھوں نے جیس کے ساتھ مل کر پہلے سپرم (نطفے) کا انتخاب کیا، جسے امریکہ سے آرڈر کیا گیا۔ پھر جنوری میں میگن نے کہا ‘سب کام چھوڑو، چلو پہلے اسے شروع کرتے ہیں۔‘

اگلی ماہواری کے دوسرے روز میگن نے یہ مرحلہ اپنے جسم میں ہارمون داخل کر کے شروع کیا جس سے ہر رات ایک بیضے کی پیدائش کو تیز کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے ایسا چار دن تک کیا اور پھر ان ٹیکوں کو دن میں دو مرتبہ تک لے گئیں تاکہ اچانک اوولیشن کو روکا جا سکے۔

میگن کا کہنا ہے کہ ’ایک انجیکشن آسان تھا مگر دوسرا نہیں۔ میں مانتی ہوں کہ مجھے لگا تھا یہ بہت مشکل ہے۔‘

’دوسری سوئی زیادہ موٹی ہوتی ہے اور اس میں موجود مادہ گاڑھا ہوتا ہے۔ آپ اسے اپنی جلد کے اندر محسوس کر سکتے ہیں۔ یہ ذہنی رکاوٹ تھی جسے عبور کرنا تھا۔‘

بیضوں کی نگرانی کے لیے ڈاکٹر روز خون کے ٹیسٹ کرتے ہیں اور انھیں نکالنے کے آپریشن سے 36 گھنٹے قبل میگن کو آخری انجیکشن دیا گیا۔

وہ ان لوگوں میں سے ہیں جنھیں اپنی تحقیق کرنے کی عادت ہے۔ انھوں نے اس پورے طریقہ کار کی ویڈیوز پہلے ہی دیکھ لی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ کوئی بہترین تیاری نہیں تھی۔ بیضوں کو انفرادی طور پر باہر نکالنے کے لیے وجائنا (اندام نہانی ) کی دیوار میں چھید کیے جاتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے اتنا معلوم تھا کہ میرے اندر 22 سوراخ کیے جائیں گے۔‘ اس لمحے وہ ڈری ہوئی تھیں۔

میگن کو بے ہوشی کی دوا دی گئی اور ڈاکٹروں نے انھیں بتایا کہ وہ ان کے ہاتھ پر لکھ دیں گے کہ انھوں نے کتنے بیضے نکالے ہیں۔ وہ جاگ کر یہ دیکھ سکیں گی۔ جب وہ اٹھیں تو انھوں نے دیکھا کہ دائیں ہاتھ پر کچھ نہیں لکھا ہوا۔ مگر بائیں پر 28 لکھا ہے۔

وہ ہنستے ہوئے یاد کرتی ہیں کہ ’میرے اندر کم از کم 28 بار چھید کیے گئے۔ ان 28 میں سے 27 بیضے معیاری تھے۔ 27 میرا پسندیدہ نمبر بھی ہے۔ یہ کافی عجیب بات بھی ہے۔ اور اس کے بعد وہ انھیں فرٹیلائیز کرتے ہیں۔‘

’قریب پانچ دن بعد انھوں نے فون کیا اور بتایا کہ وہ نو ایمبریو حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو کہ بہت اچھا ہے۔ پھر انھیں جیس کے اندر داخل کرنے سے قبل منجمد کر دیا گیا تھا۔‘

میگن کو توقع تھی کہ انھیں سرجری کے بعد آرام کا وقت ملے گا۔ انھیں یہ پسند نہیں تھا اور انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کے لیے صحتیابی کا مرحلہ کتنا مشکل ہو گا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میری بیضہ دانی کافی بڑی تھی اور یہ درد میں مبتلا تھی۔‘

یہ بھی پڑھیے

پی سی بی کی نئی پالیسی: ’فیملیز کو مثبت پیغام جائے گا کہ لڑکیاں شادی کے بعد بھی کھیل سکتی ہیںʹ

’کچن میں کھانا بنانے والی خاتون مجھے نہ بتائے کس کا فٹ ورک اچھا ہے‘

قدامت پسند گھرانے کی ’آل راؤنڈر لڑکی‘ جو بیڈمنٹن کی دنیا پر چھا گئی

گوادر کرکٹ سٹیڈیم: جس کی تیاری کے لیے گوجرانوالا کی 90 ٹن مٹی منگوائی گئی

’ان کا کہنا تھا کہ یہ ماہواری میں ہونے والے درد جیسا تھا۔ لیکن اس میں کریمپس نہیں ہوتے بلکہ مسلسل درد رہتا ہے۔ اس کے بعد چیزیں اٹھانے میں مشکل پیش آتی ہے۔ مجھے گھر کی شکل تبدیل کرنا پسند ہے۔ ہم نے حال ہی میں ایسا کیا تھا لیکن میرے لیے محض ڈبے اٹھانا مشکل ہو گیا تھا۔ میں نے سوچا یا خدا! میں اب یہ نہیں کر سکتی۔‘

جنوبی آسٹریلیا کے لیے ان کے پہلے ٹریننگ سیشن میں انھیں تیز بھاگنا تھا۔ ’ہر راؤنڈ کے آخر میں مجھے لگتا تھا کہ مجھے قے آ جائے گی۔‘

’مجھے لگتا ہے بھاگنے سے یہ درد دوبارہ شروع ہو گیا تھا۔ ہر بار میں بیٹھ جاتی اور سوچتی کہ بس بہت ہو گیا، مجھے قے آ رہی ہے۔ پھر میں واپس جاتی اور آہستہ آہستہ اسے دہراتی۔‘

انھیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ بولنگ کرانا قدرے آسان تھا۔ لیکن وہ سرجری کے بعد تین ہفتوں تک ’100 فیصد تر و تازہ‘ محسوس نہیں کر رہی تھیں۔

مئی کے آخر میں میگن اور جیس نے اعلان کیا کہ ستمبر میں ان کے ہاں بیٹی کی پیدائش ہو گی۔

اگر اس جوڑے نے ایک اور بچے کا ارادہ کیا تو اس بار میگن اسے اپنے پیٹ میں پالیں گی۔ وہ مذاق میں کہتی ہیں کہ ’میں نے جیس کو حاملہ ہونے کے بعد دیکھا اور فیصلہ کیا کہ نہیں، یہ میرے لیے نہیں ہے!‘

میگن نے سوچا ہے کہ وہ آسٹریلیا کے لیے کھیلتے ہوئے ایک اور بچہ پیدا نہیں کریں گی۔ مگر سٹیٹ کرکٹ کھیلنے کے دوران ایسا ممکن ہے۔ یہ سب کرکٹ آسٹریلیا کی نئی پریگننسی پالیسی سے ممکن ہوا ہے جس میں حمل اور زچگی کے دوران خواتین کھلاڑیوں کی مدد کی جاتی ہے۔

آسٹریلیا میں کرکٹرز کے ریاستی، قومی اور بگ بیش معاہدوں میں انھیں بچوں کی پیدائش یا بچے گود لینے پر 12 ماہ کی چھٹیاں دی جاتی ہیں جس میں معاوضہ بھی ملتا رہتا ہے۔ اگلے سال ان کے معاہدے میں توسیع کی جاتی ہے۔

نیوزی لینڈ میں کرکٹ بورڈ کی ایسی ہی پالیسی ہے۔ بلے باز ایمی سیٹرویٹ کے ہاں جب جنوری 2020 میں ان کی بیٹی گریس کی پیدائش ہوئی تو انھیں حاملہ ہونے کے بعد مرکزی کنٹریکٹ میں برقرار رکھا گیا۔ اور انھیں اپنی مکمل سالانہ تنخواہ بھی ملتی رہی۔

پاکستان نے بھی حال ہی میں نئی ہدایات جاری کی ہیں جن کے تحت معاوضے کے ساتھ 12 ماہ کے لیے زچگی کی چھٹیاں دی جائیں گی۔ اس میں چھٹیوں کے آغاز سے قبل کھیلنے کے علاوہ کسی دوسری تعیناتی کی بھی پیشکش کی گئی ہے۔

سارہ ایلیئٹ

سارہ ایلیئٹ 2013 میں اپنے بیٹے سیم کے ساتھ ایشز دورے پر

ڈیلی ٹیلی گراف کو دیے گئے جواب میں انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ نے بتایا تھا کہ بچے کی پیدائش کے بعد خواتین کھلاڑیوں کو پہلے 12 ہفتوں تک مکمل تنخواہ دی جاتی ہے اور اگلے 20 ہفتوں تک 90 فیصد تنخواہ دی جاتی ہے۔

یہ واضح طور کافی اہم اقدامات ہیں۔ اس میں حاملہ ہونے سے بچے کی پیدائش تک مالی معاونت اور مدد شامل ہے۔

نوٹنگھم ٹرینٹ یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر کرسٹی ایلیئٹ سیل کا کہنا ہے کہ ایسی ایتھلیٹس جو مائیں بنی وہ ’سپر سٹار‘ ہیں اور انھیں ’اہم تبدیلیوں کے لیے خود کو تیار کرنا ہو گا۔‘

ایسی کوئی تبدیلی یکساں پوری دنیا میں نہیں گئی مگر ڈاکٹر کرسٹی کو معلوم ہوا ہے کہ وزن اور دیگر تبدیلیاں کافی عام ہیں۔ ﭘﯾﻟوﯾک ﻓﻟور ڈﺳﻔﻧﮐﺷن (شرونی میں درد) ’طویل دورانیے کا مسئلہ بن سکتا ہے۔‘

ایلیئٹ سیم کو جنم دینے کے دو ہفتے بعد جِم میں تھیں۔ جب اس کی عمر چھ ہفتے تھی تب انھوں نے اپنا پہلا میچ کھیلا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’تمام والدین کو کام اور بچوں کی پرورش ایک ساتھ کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ اور مجھے لگتا ہے کہ صورتحال مختلف ہوتی ہے جب دیکھ بھال کے لیے آپ کا مرکزی کردار ہوتا ہے، یعنی آپ ہی اسے خوراک دیتے ہیں۔‘

’یہ جسمانی تھکاوٹ کا باعث ہوتا ہے جب آپ کا جسم صحتیاب ہو رہا ہو۔ یہ اصل چیلنج ہے۔’‘

سنہ 2014 میں جب ایلیئٹ کا دوسرا بیٹا جیک پیدا ہوا تو انھوں نے ریٹائرمنٹ لینے کے بارے میں سوچا تھا۔ لیکن اس وقت خواتین کی پہلی بگ بیش لیگ ہونے جا رہی تھی۔ انھیں میلبورن رینیگیٹس کی کپتانی کی پیشکش کی گئی تھی۔ یہ لیگ اب خواتین کی بہترین ٹی ٹوئنٹی لیگز میں سے ایک بن چکی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’واپسی کے لیے پہلے دو ٹریننگ سیشن بہت مشکل تھے، خاص کر فٹنس کے لیے۔‘

’صبح اٹھ کر بھاگنے کے دوران میں سوچتی تھی ‘آخر میں کیا کرنے کی کوشش کر رہی ہوں؟ میں یہاں آئی ہی کیوں؟’ لیکن جب آپ ٹیم اور میچوں کے ماحول میں داخل ہوتے ہیں تب سب آسان ہو جاتا ہے۔‘

جیک کی پیدائش کے چھ ماہ بعد ایلیئٹ بطور کپتان واپس آ چکی تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘ظاہری بات ہے میں اس وقت اتنی پُرجوش نہیں تھی۔’

‘میں کچھ تھکی ہوئی تھی اور میرا دھیان بٹا ہوا تھا۔ یہ مشکل مرحلہ تھا لیکن مجھے اپنے ٹیم کے ساتھیوں، کوچنگ سٹاف، خاندان اور شوہر روب کی حمایت حاصل رہی۔‘

ویسٹرن سٹورم کی سپنر کلیئر نکولس اس وقت اپنے دوسرے بچے کے ساتھ حاملہ ہیں۔ وہ ٹیچر کے عہدے پر کام کر رہی ہیں اور آئی وی ایف کے دوران ان کی ٹیم نے ان کی حمایت کی تھی۔

کلیئر نکولس

کلیئر نکولس کو دی ہنڈرڈ کے افتتاحی سیزن میں کھیلنا تھا مگر انھیں اس معاہدے سے دستبردار ہونا پڑا

اس موسم گرما میں انھوں نے دی ہنڈرڈ کے افتتاحی سیزن میں ویلش فائر کے لیے کھیلنا تھا۔ انھیں اس معاہدے سے دستبردار ہونا پڑا مگر ٹیم نے واضح کیا ہے کہ وہ مستقبل کے منصوبوں کا حصہ ہوں گی۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘مجھے اپنے جسم کی بات سُننا پڑی ہے۔ میں خود پر زور دینا چاہتی ہوں لیکن جب ایک انسان آپ کے اندر پرورش پا رہا ہوتا تھا تو آپ کو معلوم ہو جاتا ہے کہ کب رکنا ہے اور مجھے مشکل سے اس کی عادت ہو چکی ہے۔‘

یہ تینوں خواتین کرکٹر ایلیئٹ، میگن اور نکولس کے تجربات مختلف رہے ہیں۔ لیکن ان کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ماں بننے کے بعد کرکٹ میں واپسی کی اب حمایت کی جا رہی ہے۔

نکلوس نے انگلینڈ اور ویلز میں کرکٹ کی بڑھتی سرگرمیوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ نئے معاہدوں کا مطلب زیادہ پیسے اور زیادہ مالی معاونت ہے۔

میگن یہ تسلیم کرتی ہیں کہ وہ نوجوان کھلاڑیوں کو سکھانا چاہتی تھیں کہ پیشہ ورانہ کرکٹر ہونے کے ساتھ آپ ماں بھی بن سکتے ہیں۔ ان کے مطابق یہیں سے آئی وی ایف کے طرف ان کا رجحان بڑھا اور یہیں سب نے ایک دوسرے کی حمایت شروع کی۔

گذشتہ نومبر 2020 میں بگ بیش کے دوران کھلاڑیوں کو بائیو سکیور ببل میں رکھا گیا۔

یہاں ایمی، ان کی اہلیہ اور نیوزی لینڈ کی کھلاڑی لی تاہوہو اپنے بیٹی گریس کے ساتھ موجود تھے۔ میگن یہ یاد کرتے ہوئے مسکراتی ہیں۔ ‘یہ منظر نہایت خوبصورت تھا۔’

‘ہر لمحے ان کی مدد کے لیے لوگ تیار تھے۔ مجھے پتہ ہے اس سے بہت سی لڑکیوں کا دن سنور گیا تھا۔ شاید کسی دن آپ میچ ہار جائیں یا دن برا گزرے، مگر گریس کو دیکھ کر آپ کے لیے چیزیں واضح ہوجاتی تھیں۔’

ایلیئٹ کا کہنا تھا کہ انگلینڈ کے دورے پر ان کے ساتھ سیم کے ہونے سے انھیں مزید سوچنے کا موقع ملا۔ اس نے ان کی مدد کی تاکہ کرکٹ ان کا تمام وقت نہ لے۔

وہ تھکی ہوئی تھیں اور ایشز ٹیسٹ سے قبل رات کے وقت چار بار اٹھنا پڑا تھا۔ مگر ان کے خاندان نے ان کی مدد کی۔ سیم وہیں موجود تھا جب ان کی والدہ نے ایشز کی عظیم سنچریوں میں سے ایک مکمل کی۔

ایلیئٹ کہتی ہیں کہ ’اب سیم ساڑھے آٹھ سال کا ہے اور اسے کچھ بھی یاد نہیں۔‘

’مگر بعض اوقات اسے کوئی تصویر نظر آ جاتی ہے یا کوئی اسے بتا دیتا ہے کہ ہم نے آپ کی تصویر آپ کی والدہ کے ساتھ دیکھی تھی۔‘

’یہ بہت سی خوشگوار یادیں ہیں۔ اور وہ یہ دیکھ کر لطف اندوز ہوتا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp