یہ ایک ٹسٹ کالم ہے


کینیڈا میں پاکستانی مہاجر خاندان کے ساتھ ہونے والے ظلم پر کینیڈا کا قومی پرچم سرنگوں ہے۔ ساتھ ساتھ کینیڈین قوم، کابینہ اور وزیراعظم افسردہ اور شرمندہ ہے۔ یہ بدقسمت پاکستانی خاندان اپنے ملک سے بہتر زندگی کی تلاش میں اور لاکھوں تارکین وطن کی طرح، کینیڈا گیا تھا۔ لیکن وہاں پر بھی اس آگ سے نہ بچ سکا جو ساری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف مسلمانوں کے مفاد پرست ”بڑوں“ نے بھڑکائی ہوئی ہے۔ پہلے کسی مسلمان کی اپنے ملک اور حکومت میں زندگی گزارنی مشکل ہوجاتی تو تنگ آ کر مغرب اور امریکہ میں سر چھپا لیتا تھا۔ اب مذہبی شدت پسندی کی وجہ سے وہاں بھی پناہ لینا ناممکن ہے۔

عرب بدؤوں کے امریکہ پر حملوں سے پہلے مسلمان کم از کم مغرب اور امریکہ میں اپنی حکومت کی جبر سے محفوظ تھے۔ وہاں پر معاشی اور سیاسی نا انصافی سے پناہ لے سکتے تھے، خود سیٹل ہو کر اپنے والدین اور بھائی بہنوں کو وہاں سیٹل کروانے میں مدد کرتے اور ساتھ اپنے ملک کی ڈوبتی ہوئی اکانومی کو ڈوبنے سے بچانے کے لئے ہارڈ کیش بھیجتے رہتے۔ نائن الیون کے حملے بظاہر تو امریکہ پر کیے گئے تھے لیکن اس کا اصل نشانہ مسلمان اور ان کے ملک تھے۔

امریکہ پر حملوں کے بعد اسی مسلم دشمن گروہ نے سپین اٹلی جرمنی لندن غرض یہ کہ جہاں بھی مسلمان کو عزت اور سکون سے زندگی گزارنے کا موقع مل سکتا تھا، وہاں پر بم دھماکے کیے اور ان علاقوں میں جہاں پر عالمی سیاست کے اتنے شدید اثرات نہیں تھے جیسے سکینڈی نیویا تو وہاں پر توہین آمیز خاکوں کی مدد سے مسلمانوں کے خلاف نفرتیں پیدا کیں۔ یہاں تک کہ نیوزی لینڈ جیسے الگ تھلگ ملک تک نفرت پہنچی اور مسجد کو مسلمانوں کے خون سے رنگین کیا گیا۔ اور اب کینیڈا جیسے پرامن ملک میں یہ خونی واقعہ ہوا۔

ان سارے حملوں میں حقیقی نقصان مسلمانوں کا ہوا اور خصوصاً ان مسلمانوں کا جن کا اسلامی سیاست سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ جو مدتوں سے اپنے ممالک چھوڑ کر یورپ اور امریکہ میں مذہبی سیاسی اور معاشی پناہ گزین تھے۔

ان حملوں کی وجہ سے مسلمانوں پر ویزوں اور بین الاقوامی آمد و رفت کی پابندیاں لگیں، وہ واچ لسٹ پر ڈالے گئے، مشکوک قرار دیے گئے، جس کی وجہ سے دوسرے ممالک اور اقوام کی مناسبت سے مسلمان عموماً اور پاکستانی مسلمان خصوصاً بین الاقوامی برادری کی نظروں میں مشکوک ہو کر ایک لاینحل صورت حال میں پھنس گئے۔ مشین ریڈیبل پاسپورٹ، نادرہ کی رجسٹریشن اور باہر جانے کے لئے نائیکوپ کارڈ اسی کے تدارک اور بین الاقوامی مطالبات کو پورا کرنے کی سعی ہے۔

اپنے ملک میں کرنے کو کچھ ہے نہیں، جان و مال کی ڈر کے مارے نہ لکھ سکتے ہیں نہ بول سکتے ہیں نہ اونچی آواز میں سوچ سکتے ہیں باہر کے راستے بند ہو گئے ہیں، ساری دنیا کے سارے دہشت گردی کے الزامات ہم پر لگتے ہیں اور حقیقت میں دہشت گرد یہاں پر پکڑے اور مارے بھی جاتے ہیں۔ چند بڑے عہدیداروں کے علاوہ (جن کو ملک اور قوم سے زیادہ اپنے ذاتی مفادات کی فکر ہے) باقی پاکستانی ساری دنیا میں پرسونا نن گراٹا (ناپسندیدہ شخصیت) قرار دیے گئے ہیں۔

کیونکہ مدرسوں میں پڑھنے والے بارودی مسلمانوں کو تو ایک طرف کریں، فیصل شہزاد جو امریکی پاسپورٹ ہولڈر اور ائر فورس کے اعلیٰ ترین افسر کا بیٹا تھا جب اس نے بھی وہی کچھ کرنا چاہا جو ایک درمیانی سوجھ بوجھ کے بیشتر پاکستانی کرنے پر ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں تو پھر ہمارے ساتھ یہی ہونا تھا۔ لیکن پاکستانیوں پر بیرون ملک پابندیوں کی ذمہ داری عام پاکستانی کی وجہ نہیں لگی، بلکہ اس کی ذمہ داری انہی بڑے عہدیداران پر عائد ہوتی ہے جو تہتر سال سال سے اس ملک کے مالک بنے ہوئے ہیں۔

کیونکہ ہم دہشت گرد ہیں نہ ہم نے دہشت گرد پالے تھے، جو کچھ ہو رہا ہے یہ سب ان کی حرص پر مبنی پالیسیوں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے بھٹو صاحب کے دور تک ہماری گلیوں میں دنیا بھر کے ہپیوں کے غول چرس خریدنے آتے تھے۔ جبکہ آج مغرب کے باشندے ہم سے ڈرتے ہیں اور ہم ان سے ان کے شہروں میں محفوظ نہیں۔ ہمارے یہی کرتا دھرتا، جو بیرونی ممالک میں ہمارے سفارتکار نامزد کرتے ہیں، ہماری اندرون ملک اور بیرون ملک پالیسیاں ترتیب دیتے ہیں، ہمارا قومی بیانیہ نشر کرتے ہیں، جب بیرون ملک جاتے ہیں تو ہمارے بارے میں باہمی میٹنگز میں بتاتے ہیں کہ پاکستانی مذہبی جنونی قوم ہے، جن کی وجہ سے آپ کے شہری اور ملک سخت خطرے میں ہیں، اگر آپ ہمیں امداد دے دیں گے تو ہم اس مذہبی جنونیت پر قابو پا سکتے ہیں۔

اور اپنے اس دعوے کی حقیقی شکل دکھانے کی خاطر مختلف اقلیتوں اور ممالک کے خلاف گاہے بگاہے مذہبی جلوس احتجاج اور تھوڑ پھوڑ کا بندوبست بھی کرتے ہیں۔ جس میں ان کے ساجھے دار مذہبی سیاستدان اپنا کٹ لے کر ان کی بھرپور مدد کرتے ہیں، یوں امداد ملتی ہے، دعوتیں، گرانٹ، ٹریننگز، سیمینارز، ٹورز سب چلتا رہتا ہے اور پاکستانی، دن بدن بین الاقوامی اچھوت بنتا جا رہا ہے۔ جس کے بدلے میں ہم وطن مہاجر لوکل جنونیوں کا شکار بنتے ہیں۔

خدارا ہم پر اور اس ملک پر رحم کریں۔ ہم شدت پسند ہیں نہ مذہبی جنونی، ہم بھی دنیا کے باقی مسلمانوں کی طرح پرامن عزت والی اور خوشحال زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ ہمیں اس ملک میں عزت کے ساتھ جینے دیں گے تو اس ملک سے بہتر کوئی ملک نہیں۔ ہمیں باہر جانے، ہجرت کرنے اور ذلیل ہو کر مرنے پر مجبور ہونے کی ضرورت ہی نہیں۔ مہاجر کی کہیں عزت نہیں ہوتی۔ یقین نہیں آتا تو اپنے اپنے اردگرد موجود افغانی بھائیوں کو دیکھیں۔ کیا آپ ان کی عزت کرتے ہیں؟ یقین کریں یہ اپنے ملک کے معزز ترین لوگ تھے۔

سٹیون کووی نے اپنے مشہور زمانہ کتاب دی سیون ہیبٹس آف موسٹ ایفیکٹیو پیپلز میں ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ وہ واقعہ میں آپ کے ساتھ یہاں شیئر کرتا ہوں پھر آپ خود اپنا تجزیہ کریں کہ آپ دردمند دل رکھنے والے ایک پیارے انسان ہیں یا نفرتوں بھرا مذہبی شدت پسند، کالم پڑھنے کے بعد ایمانداری سے اپنا شخصی تجزیہ تبصرہ کی صورت میں لکھیں۔

سٹیون کووی لکھتا ہے کہ چھٹی کے دن سائلنس زون (وہ علاقہ جہاں پر شور بات چیت ہارن بجانا ممنوع ہوتا ہے ) والی پارک میں ایک کار آ کر رک گئی۔ تین بچے سکول یونیفارم میں کار سے اترے اور کسی طوفان کی طرح شور مچاتے ہوئے سارے ماحول کو اتھل پتھل کرتے، وہاں پر خاموشی انجوائے کرنے، مطالعہ اور دھوپ سینکنے کی خاطر آئے ہوئے لوگوں کو سخت ڈسٹرب کرتے ہوئے شور مچانے لگے۔ کسی کا اخبار پھاڑتے ہوئے بھاگے تو کسی کا کافی کا فلاسک گرایا اور کسی کی کتاب۔

لیکن ان سب سے بے خبر ان کے ساتھ آیا ہوا شخص ایک بنچ پر گم سم ان کی بدتمیزی سے صرف نظر کرتا ہوا بیٹھا رہا۔ کووی سے رہا نہیں گیا، اٹھ کر کار والے کے پاس جھنجھلاہٹ اور غصے میں گیا اور اسے بتایا کہ آپ جانتے ہیں کہ یہ سائلنس زون ہے، ہم یہاں خاموشی کے لئے آئے ہیں، آپ کے بچوں نے یہاں کا سارا ماحول خراب کر دیا ہے، آپ ان کو سمجھاتے کیوں نہیں؟

بنچ پر گم سم بیٹھے ہوئے شخص نے چونکتے ہوئے کہا کہ میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ ان کو کیسے سمجھاؤں، ان کی والدہ کئی مہینوں سے ہسپتال میں پڑی کینسر سے لڑ رہی تھی، ابھی ابھی مجھے ہسپتال سے فون آیا کہ آپ کی بیوی فوت ہو گئی ہے میں ان کو سکول سے لے تو آیا لیکن اب نہیں جانتا کہ ان کو کیسے بتاؤں کہ ان کی ماں مر گئی ہے۔ سٹیون کووی لکھتا ہے کہ جن بچوں پر میں غصہ میں تلملا رہا تھا اب انہی بچوں کے لئے میرے اندر اچانک محبت اور ہمدردی کا ایک طوفان امڈ آیا۔

آخری پیراگراف لکھ کر میں اپنے کالم کا اختتام کروں گا، فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے۔ جو کچھ ہم ان مغربی ممالک کے بارے میں اکثر کہتے ہیں، لکھتے ہیں، سوچتے ہیں اور عملاً ان کو تباہی کی بد دعائیں دیتے ہیں، وہ سب اسے جانتے ہیں، اور اس کے باوجود بھی ہمیں پناہ دیتے ہیں، اپنا جھنڈا ہمارے ساتھ کیے گئے ظلم پر سرنگوں کرتے ہیں، جہاں پر ہم بے یار و مددگار گر کر آخری سانسیں لیتے ہیں وہاں چھوٹے بڑے آ کر عقیدت کے پھول رکھتے ہیں۔ دیے جلاتے ہیں، خاموش کھڑے ہو کر آنسو بہاتے ہیں۔ ہمارے جیسے نہیں ہوتے کہ قاتل کو ہیرو، عاشق اور لیڈر بنا کر اس کے گلے میں ہار ڈالتے ہیں۔ اس کے لئے چندے کرتے ہیں نہ عدالتوں میں کیس لڑتے ہیں، اور نہ ججوں اور حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لئے جلوس نکالتے ہیں۔ کیا کبھی ہمارا جھنڈا بھی کسی ہندو سکھ عیسائی یا احمدی کے ساتھ روا رکھے گئے ظلم پر سرنگوں ہوتا ہے؟

یقیناً پاکستانی خاندان کی ظالمانہ موت پر آپ کے دل رو رہے ہیں، میری بھی یہی حالت ہے لیکن اس کالم کا آخری جملہ پڑھنے کے بعد کیا آپ قاتل کا خون آلود ہاتھ چوم کر اسے شاباشی دینا چاہو گے یا اسی ذہنی حالت میں رہ کر بیدردی سے مقتولین کے ساتھ ہمدردی کرو گے؟ تبصرے میں دلی کیفیت لکھیں۔ اگرچہ مقتول خاندان کے احمدی ہونے کی اطلاع درست نہیں لیکن آپ فرض کر لیں کہ مرنے والے احمدی تھے۔

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments