نام ہے جس کا بشر اس میں ہے شر دو بٹے تین



\"satya\"
داغ دہلوی کے شاگرد، جوش ملسیانی، جالندھر ضلع کے ایک گاوں ملسیاں میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ بات الگ ہے کہ داغ دہلوی کے شاگردوں کی جو فہرست مرتب کی گئی ہے اس میں ان کے نام کے ساتھ سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔ لیکن جوش مرحوم کے نکودر کے مکان کی بیٹھک میں ان کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک غزل اور اس پر داغ کی تصحیح کی تصویر دیوار پر آویزاں تھی ، جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ زیادہ نہیں تو کم از کم ایک غزل پر داغ دہلوی نے انہیں اصلاح سے نوازا تھا۔

جوش ملسیانی پچاس سے ساٹھ تک کی دہائی میں ایک ایسے استاد تھے جن کے شاگرد پنجاب میں تو تھے ہی، لیکن پنجاب نژاد وہ لوگ بھی تھے جو دہلی اور اس کے قرب و جوار میں آباد تھے۔ ان کی بیٹھک میں ہفتہ وار نشستیں جمتی تھیں جن میں اس ہفتے کی طرحی غزلیں سنائی جاتی تھیں۔ وہ مشکل سے مشکل قوافی اور ردیفیں مصرع طرح میں ایسے جڑتے تھے کہ حیرت ہوتی تھی۔ (پریم وار برٹنی اور میں نے بھی ایک زمین میں طبع آزمائی کی تھی، جس کی ردیف تھی: ’دو بٹا تین!‘ لیکن ہمار ا نتیجہ ہمت افزا نہیں تھا)

ہم دونوں نے کبھی جوش ملسیانی کے سامنے زانوئے تلمذ تہ نہیں کیا۔ جوش صاحب نظم نہیں لکھتے تھے اور ہم دونوں نظم کے شاعر تھے۔ لیکن انہوں نے ہمیں اپنے حلقے میں قبول کیا تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ ہم جو کچھ لکھ رہے ہیں، وہ روایتی غزل سے بدرجہا بہتر ہے۔ آزاد نظموں کو نا پسند کرتے تھے اس لیے پریم اور میں ہمیشہ ان کی محافل میں پابند نظمیں یا مسلسل غزل کے فارمیٹ میں لکھی ہوئی نظمیں ہی پیش کرتے تھے۔

ہوتا یہ کہ پریم شام کو چوک گھنٹہ گھر لدھیانہ میں پہنچ جاتے۔ میرے ساتھ چلتے۔ ان کے پاس سوائے پہنے ہوئے کپڑوں اور ایک بیاض کے اور کچھ نہ ہوتا، اور وہ صبح کو نہانے کے عادی بھی نہیں تھے اور شاید دانتوں کے برش سے بالکل نا آشنا تھے۔ اس لیے رات پینے کے بعد میرے اقبال گنج کے گھر کی بیٹھک میں کاو¿چ پر سو جاتے۔ صبح اٹھ کر ، منہ ہاتھ دھو کر اور ناشتے سے فارغ ہو کر میرے ساتھ بس اڈے کی طرف چل پڑتے۔ بس اڈا بھی چوک گھنٹہ گھر کے قریب سبزی منڈی کے ساتھ ہی منسلک تھا۔ وہاں سے ہم نکودر کی بس پکڑتے اور یہ بس ہمیں بیس پچیس میل کا راستہ ایک گھنٹے میں طے کرنے کے بعد نکودر لا پٹختی۔

ہم لوگ پیدل چلتے ہوئے ہی جوش صاحب کے مکان تک پہنچ جاتے۔ بیٹھک کا دروازہ ہمیشہ نیم وا ہوتا ، لیکن اس پر پردے کی صورت میں اور دھول سے بچنے کے لیے ایک چق پڑی ہوتی۔ ہم لوگ چق اٹھا کر اندر داخل ہوتے۔ عموماً ہم جوش صاحب کو گاو¿ تکیے کے سہارے دری اور سفید براق چادر کے فرش پر، سامنے اندرون گھر کے دروازے کے ساتھ بیٹھا ہوا دیکھتے۔ ہم لوگ آداب بجا لاتے۔ جوتے اتارتے اور ادب سے بیٹھ جاتے۔ ایک دو اصحاب پہلے ہی پہنچے ہوئے ہوتے۔ ہم دونوں کو دیکھ کر جوش صاحب کی آنکھیں جیسے چمک اٹھتیں۔ وہیں سے اندر دروازے کی طرف رخ کر کے آواز دیتے، ’ارے بھائی کچھ شربت وربت لاو¿، لدھیانہ سے دو نوجوان شاعر آئے ہیں۔‘ جوش صاحب چائے سے پرہیز کرتے تھے اور چائے پیش بھی نہیں کرتے تھے۔

محفل جمنا شروع ہو جاتی۔ جالندھر اور ہوشیارپور سے بھی ہمیشہ کچھ اصحاب حاضر ہوتے تھے۔ کچھ شاگردان تحفے بھی لاتے۔ پھل، خشک میوے، نئے فاو¿نٹین پین۔ مٹھائی، لڈو ووغیرہ تو وہیں بانٹ دیے جاتے، لیکن دیگر تحائف وہ اندر بھجوا دیتے۔سوہن حلوہ بہت پسند کرتے تھے اس لیے کچھ شاگردان کسی مقامی حلوائی سے ایک سیر کا ڈبہ لاتے توسب کو تھوڑا تھوڑا بانٹ دیا جاتا۔ آنے والوں میں کئی نام تھے جو آج تک یاد ہیں، آزاد گورداسپوری، تلک راج تشنہ ، ہر بھگوان شاد ، دینا ناتھ فاضل، ہما ہرنالوی،…. کبھی کبھی جوش صاحب کے فرزند اور مشہور شاعر بالمکند عرش ملسیانی بھی دہلی سے تشریف لاتے۔ دہلی میں وہ جوش ملیح آبادی کی ادارت میں شائع ہونے والے مرکزی حکومت کے اردو رسالے ’آجکل‘ میں سب ایڈیٹر تھے۔ ان کے ساتھ ساحر ہوشیار پوری بھی ہوتے تو مزہ دو چند ہو جاتا۔’ ساحر‘ تخلص کے گنہ گار دو اور اشخاص بھی تھے۔ ایک ساحر کپورتھلوی تھے جو ہمیشہ نشے میں مدہوش رہتے تھے۔ ایک ساحر سنامی تھے جو تحصیلدار تھے اور بڑے ٹھاٹ باٹ سے آتے تھے، ان کے ساتھ ایک باوردی اہلکار بھی ہوتا تھا۔

جوش صاحب اپنی پشت پر دیوار کے ساتھ ایک لمبی چھڑی رکھتے تھے۔ یہ چھریری سی، دراز قد چھڑی کسی شہتوت سے کاٹی ہوئی تھی اور اب اپنی رنگت کھو چکی تھی۔ جب کوئی شاگر د وزن سے خارج شعر پڑھتا تو اس کی طرف ، خشمگیں نظروں سے نہیں، شفقت کی نظروں سے دیکھتے، چھڑی کو کھینچ کر نکالتے اور اس شاگرد کے ٹخنے پر ہلکی سی چوٹ لگاتے۔ کس کی مجال تھی کہ کوئی ہنسے؟ سب رعبِ ادب سے خاموش بیٹھے رہتے۔

میرا اندازہ ہے کہ کل ملا کر پریم صاحب اور میں جوش صاحب کے نیاز حاصل کرنے کے لیے پندرہ بیس بار گئے ہوں گے۔ اس دوران میں ہمیں جالندھر کے اردو اخباروں سے وابستہ جوش صاحب کے شاگرد پہچاننے لگے کہ یہ دونوں مختلف قسم کے شاعر ہیں۔ ان میں ہر بھگوان شا د اور ہما ہرنالوی تھے جو دو الگ الگ اخباروں میں سب ایڈیٹر تھے۔اپنے سنڈے ایڈیشن کے شعری کالموں کے لیے انہوں نے ہم سے اصرار کرنا شروع کیا کہ ہم بھی اس میں شامل ہوں۔ پریم تو ہمہ وقت تیار تھے البتہ تب تک مجھے اپنے نام کی اہمیت کا احساس ہو چلا تھا اور یوں بھی میں ان نشستوں میں کچھ سیکھ نہیں سکتا تھا، اس لیے میں نے ہمیشہ ٹال مٹول سے کام لیا اور سنڈے ایڈیشنوں میں شرکت کو اپنے ادبی قد سے کمتر سمجھا۔

چھہ سات بار ان کے دولت کدے پر محافل میں شریک ہونے کاایک فائدہ یہ ہوا کہ صنف غزل سے میری بیزاری اگر پہلے پچاس فی صد تک تھی اب بڑھ کر سو فی صد ہو گئی۔ پریم تو اس کے بعد بھی غزلیں کہتے رہے، کیونکہ مالیر کوٹلہ کے ہی کچھ مبتدی شاعر ان سے غزلیں لکھوا کر کچھ معاوضہ دیا کرتے تھے، لیکن میں نے تو جیسے توبہ کر لی کہ اپنے استاد منشی تلوک چند محروم کی ہدایت کے باوجود میں مشاعروں میں پڑھنے کے لیے غزل کے اشعار موزوں کرنے سے باز نہیں آتا، جس واقعے نے ہم دونوں کی طبیعت کو مکدر کیا، وہ یہ تھا۔جوش صاحب نے ایک مصرع طرح اپنے شاگردوں کو دیا کہ ان کی بیٹھک میں سالانہ مشاعرہ کے لیے اس پر غزلیات لکھ کر لائیں اور یہ بھی ارشاد فرمایا کہ سب سے اچھی غزلوں پر شہر کے ایک رئیس دو دو سو روپے کے تین انعامات دیں گے۔پریم تو جھٹ پٹ تیار ہو گئے، اور چونکہ شراب کے ایک آدھی بوتل کے بعد ان کی طبیعت کو موزوں ہونے میں دیر نہیں لگتی تھی، جوش صاحب کے گھر سے نکلنے کے بعد اور بس کے اڈّے سے ملحقہ ’ٹھیکہ شراب دیسی‘ سے سنگترہ مارکہ شراب کا ادھا خرید کر، اور وہیں بیٹھ کر پینے کے بعد بس میں ہی انہوں نے دونوں قوافی پر اپنی غزلیں مکمل کر لیں۔

ایک مصرع طرح یہ تھا : جس کو کہتے ہیں نڈر، اس میں ہے ڈر دو بٹے تین

قافیہ: ڈر، بر ، ہر، گھر، وغیرہ۔۔۔ردیف: دو بٹے تین۔

دوسرے مصرع طرح میں ردیف کو نہیں بدلا گیا تھا، لیکن قافیہ بدل دیا گیا تھا۔ قافیہ

تھا : دم، غم، ہم، رم وغیرہ

پہلے مصرع طرح میں جوش ملسیانی کی اپنی غزل کے تین اشعار میرے پاس اب تک لکھے ہوئے ہیں۔

راگ میں آگ ہے پوشیدہ مگر دو بٹے تین
نام ہے جس کا بشر اس میں ہے شر دو بٹے تین

ملک الموت سے دنیا میں ہراساں نہیں کون
جس کو کہتے ہیں نڈر اس میں ہے ڈر دو بٹے تین

فی صدی صد نہیں امید بر آنا ، لیکن
دیکھ لو سو کے عدد میں ہے صفر دو بٹے تین

دوسرے قافیہ پر کہی گئی پریم وار برٹنی کی غزل پر انعام تو نہیں دیا گیا لیکن اس کو بھی سراہا گیا۔ جوش صاحب نے یہاں تک کہا کہ پریم کی غزل ان کے پائے کی غزل سے کم نہیں ہے۔ مجھے اس کے بھی کچھ اشعار یاد ہیں۔

فکر کیا ہند میں بھوکے ہیں جو ہم دو بٹے تین
دیکھئے، آپ شکم میں بھی ہیں کم دو بٹے تین

ناتوانی سے چلا ہی نہیں جاتا ظالم
کیا کریں ہم کہ قدم میں بھی ہے دم دو بٹے تین

میری فریاد سے پتھّر بھی پگھل جاتے ہیں
اور ادھر میرے صنم میں بھی ہے نم دو بٹے تین

ایک امر جو قابل ذکر ہے، وہ اسی زمانے میں مطبوعہ جوش ملسیانی صاحب کی ’شرح دیوان غالب‘ کے بارے میں ہے۔ اسے پنجاب یونیورسٹی نے ادیب فاضل کے امتحان کے لیے امدادی کتب کی فہرست میں رکھا ہوا تھا۔ میں نے بھی ایک جلد خرید رکھی تھی۔ کچھ دیگر شارحین کی شرحیں بھی میرے پاس تھیں، خصوصی طور پر حیدر آباد دکن سے چھپی ہوئی نظم طباطبائی کی شرح جو میرے ادبی دوست شاذ تمکنت نے مجھے بھجوائی تھی۔ یہ شرح جوش صاحب کی شرح سے بہت پہلے چھپی تھی۔ کچھ اشعار کی شرحوں کے تقابلی مطالعے سے یہ صاف ظاہر ہوتا تھا کہ جوش صاحب غالب کی استعارہ سازی کی مدوریت اور ملفوفیت کو پوری طرح اس لیے نہیں سمجھتے تھے کہ وہ اسلامی عقیدوں کو بہ احسن و خوبی نہیں جانتے تھے اور اپنی مرضی سے غالب کے اشعار کے ساتھ اپنی شرح کو منسلک کر دیتے تھے۔ مجھے حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی ہوا کہ ایک استاد شاعر کیسے ان فرو گذاشتوں کا مجرم ہو سکتا ہے۔ پریم سے رائے مانگی تو اس نے کہا، تم بیشک کسی دن محفل میں ذکر کرو کہ تم نے نظم طباطبائی کی شرح میں ایک شعر کے معنی اس طرح دیکھے ہیں اور کیا جوش ملسیانی صاحب ارشاد فرمائیں گے کہ ان کی شرح میں معنی مختلف کیوں ہیں؟

میں نے(وکالت کی زبان میں) اپنے’کیس‘ کا ’بریف‘ پوری طرح تیار کیا اور ایک دن غالب کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے میں نے یہ شعر پڑھا۔

تیرے ہی جلوے کا ہے یہ دھوکا کہ آج تک
بے اختیار دوڑے ہے گل در قفائے گل

میں نے کچھ دیگر شارحین کی کتابوں میں بھی مصرع ثانی میں’گل‘ کی تکرار کا جواز تلاش کر لیا تھا۔ سبھی شارحین تو متفق نہیں تھے ، لیکن بیشتر کا موقف یہ تھا کہ جس’ گل‘ کے دوڑنے کا اشارہ ہے، اس سے مراد ”چراغ کی بتی یا ماچس کی تیلی کا جلا ہوا یا جلتا ہوا سرا “ ہے۔ ایک شارح نے تو ’گل‘ سے مراد یہ لی تھی کہ یہ وہ نشان ہے جو دھات گرم کر کے جسم پر دیتے ہیں۔ اور سحر کا شعر بھی پیش کیا تھا، ’ کیا حرارت ہے مری نبض میں سوز غم سے : ہاتھ پر گل تیرے چھّلوں کے ہیں مرجھائے ہوئے۔ مطلب یہ ہوا کہ بجھتی ہوئی شمع کی طرح پھول کی زبان میں (قفا ’ زبان یا ’گدّی‘ کو کہتے ہیں) اس کا ’گل‘ دوڑ رہا ہے (کہ کہاں شرم سے منہ چھپائے ) کیونکہ تیرے (معشوق کے) جلوے نے اسے یہ دھوکا دیا ہے۔(کہ معشوق کے جلوے کے مقابلے میں وہ ہیچ ہے)

جب میں نے یہ شعر پڑھا تو موصوف (جوش صاحب) نے اندر سے اپنی تحریر کردہ شرح منگوا لی۔ شعر نکالا اور اس کی شرح جوں کی توں پڑھ دی اور میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ میں نے عرض کیا، ”نظم طباطبائی کی شرح میں ….“

ابھی میں کچھ اور کہہ بھی نہ پایا تھا کہ موصوف نے مجھ سے پوچھا، ’نظم طباطبائی ؟‘ جیسے وہ ’نظم‘ بطور تخلص اور ’نظم‘ بطور صنف سخن میں تمیز نہ کر پائے ہوں۔

اور پھر جیسے سمجھ کر کہا ،’کئی لوگ ہیں شرحیں لکھنے والے! میں نے تو ان کا نام بھی نہیں سنا۔ ہوں گے کوئی، نظم طبا طبائی! ‘ انہوں نے چبا چبا کر یہ نام لیا، اور پھر آخری جملہ کسا، ’ہندوستان بھرا پڑا ہے غالب شناسوں سے!!‘

اس کے بعد پریم صاحب اور میں نے ان کی ’زیارت‘ کی خاطر جانا بند کر دیا۔سوچا جو شخص جیتے جی قبر میں دفن ہو، اس سے ہمارا کیا لینا دینا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments