محمد بن سلمان کون ہوتا ہے؟


سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے حال ہی میں ایک عرب ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ احادیث ماخذ دین نہیں اس لئے ان کی بنیاد پر قانون سازی نہیں کی جا سکتی۔ ان کے اس بیان کے بعد شیخ الازہر نے بھی ان کے اس بیان کی حمایت کی ہے اور امام کعبہ نے بھی انہیں اس صدی کا مجدد قرار دیا ہے۔ بیان کے بعد سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک انگریزی زبان کی ویڈیو میں یہ کہا گیا ہے کہ سعودی ولی عہد کے اس بیان سے نوے فیصد احادیث مشکوک ہو گئی ہیں اور اسلامی دنیا کے علما سکون کا سانس لے رہے ہیں کیونکہ اس فیصلے کے بعد اسلام کی تشکیل نو اور اجتہاد کا عمل شروع ہوگا اور یوں اسلام بھی جدید دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل پائے گا۔

پاکستان جہاں عام طور پر مذہبی معاملات پر باقی اسلامی دنیا کے مقابلے زیادہ حساسیت اور جذباتی رد عمل دیکھنے میں آتا ہے محمد بن سلمان کے اس بیان کے بعد مکمل خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ اس دوران کسی بھی نمایاں عالم دین نے نہ کوئی بیان جاری کیا ہے، نہ کوئی جلوس نکالا گیا ہے اور نہ ہی جلوس کی کال دی گئی ہے لیکن سوشل میڈیا پر لوگ بار بار یہ سوال کر رہے ہیں کہ محمد بن سلمان کون ہوتا ہے؟ سعودی ولی عہد کون ہوتا ہے کہ بیک جنبش لب نوے فیصد احادیث پر خط تنسیخ کھینچ دے۔

سوشل میڈیا پر بار بار پوچھے جانے والے اس سوال کا مختصر، سیدھا اور آسان جواب یہ ہے کہ ’محمد بن سلمان‘ کون یا کچھ نہیں بہت کچھ ہوتا ہے۔

اب اس پر سوال کیا جائے ’وہ کیسے؟‘ تو سوال کا جواب کچھ یوں ہوگا۔

اسی کی دہائی کے اوائل تک مذہب عالمی سطح پر سیاسی مباحث کا حصہ نہیں رہا تھا اور یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ مذہب کبھی ان مباحث کا حصہ نہیں بن سکے گا کیونکہ وقت مذہب سے ایک قدم آگے نکل آیا ہے اور دنیا سیکولر ہو چکی ہے۔ باقی دنیا تو کیا عرب دنیا بھی جمال عبدالناصر کی قیادت میں سیکولر ہو چکی تھی۔ اس لئے کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ مذہب ایک بار پھر عالمی سیاسی منظرنامے پر طلوع ہو کر مباحث میں اپنی جگہ بنا لے گا۔ تاہم اس دوران کچھ ایسے واقعات پیش آئے کہ عالمی ایوانوں میں ایک بار پھر مذہب زیر بحث آنے لگا۔

ان اہم واقعات کے سلسلے کا پہلا واقعہ عرب اسرائیل جنگ تھی جس میں عربوں کو بری طرح شکست ہوئی۔ شکست کے بعد اس کی تزویراتی وجوہات جاننے کی بجائے یہ بات عام کردی گئی کہ اگر ہم اچھے مسلمان ہوتے تو اسرائیل سے کبھی شکست نہ کھاتے۔ اچھا مسلمان بننا ہمارا کام ہے اور ہمیں جنگی محاذ پر فتح یاب کرنا خدا کا۔ یہ بات عام کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ عام لوگ حقائق کی نہیں فسانے کی زبان سمجھتے ہیں۔ عام لوگ توہم پرست واقع ہوئے ہیں اور ان کی توہم پرستی ان کی نکیل ہے جس کی مدد سے ان کے ذہنوں کو قابو میں کیا جاسکتا ہے۔ شکست کی وجہ اچھا مسلمان نہ ہونا بتانے والے سعودی حکمران تھے اور ان کا یہ پروپیگنڈا کامیاب ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔

اگرچہ جمال عبدالناصر سیکولر تھا اور اگر جنازوں میں شامل لوگوں کی تعداد سے کوئی فیصلے ہوتے ہیں تو ان کا جنازہ عرب دنیا کا ایک بڑا جنازہ تھا لیکن پھر بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا خیال تھا کہ اسرائیل سے شرمناک شکست کی وجہ مرحوم کا سیکولر ہونا ہے۔ اسی دوران سعودی عرب میں تیل نکلنے کے معاشی اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے اور پھر سعودی عرب کا پھیلایا گیا یہ افسانہ زبان زد عام ہو گیا۔

تاہم عرب اسرائیل جنگوں میں عربوں کی شکست اور تیل نکلنا ابھی دو واقعات تھے۔ اسی عشرے میں وقوع پذیر ہونے والے دو اور واقعات جو سیکولر دنیا میں مذہب کی از سر نو آمد کا باعث بنے ابھی باقی تھے۔ تیسرا واقعہ نام نہاد انقلاب ایران اور چوتھا واقعہ افغانستان میں روسی افواج کا داخلہ ہے۔

انقلاب ایران کے بعد سعودی عرب اور ایران میں سرد جنگ کا آغاز ہوا تو امریکہ اور روس کے درمیان جاری سرد جنگ عروج پر پہنچ گئی۔ اس دوران کیا ہوا، سعودی ولی عہد اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں بتا چکے ہیں کہ روس کو افغانستان سے نکالنے کے لئے امریکہ کی ساتھی طاقتوں کے ساتھ مل کر اسلام کی تشدد پسند اور عسکری تشریح عام کی گئی اور یہ کہا جاتا ہے کہ جتنے وسائل سعودی عرب نے اسلام کی یہ تشریح عام کرنے پر خرچ کیے اتنے پیسے امریکہ اور روس نے سرد جنگ پر بھی خرچ نہیں کیے۔ پاکستان میں اس وقت پائی جانے والی مذہبی حساسیت اور جذباتیت بھی ہرگز نامیاتی یا خود رو نہیں بلکہ انہی وسائل کی مدد سے پیدا کی گئی ہے۔

لہٰذا حیرت میں یہ سوال پوچھنے والے کہ ’محمد بن سلمان کون ہوتا ہے؟‘ یہ جان لیں کہ اگر کچھ نظریات سرکاری سرپرستی میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل رہے ہوں تو ان پر بے پناہ وسائل خرچ کیے جا رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جب ہمارے قصبے میں کچھ پرجوش اور غضب ناک لوگ احادیث کی کتب لے کر مناظرہ کرنے آئے تو لوگوں کے علاوہ ہمارے مولوی صاحب کو پہلی بار علم ہوا کہ کچھ لوگ احادیث کو بھی مذہبی علم کا ماخذ اور سرچشمہ مانتے ہیں۔ اور اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ علما تو علما عام لوگ بھی شیوخ الحدیث بن گئے۔ یہ سب کیسے ہو گیا؟ وسائل کی مدد سے۔ وسائل فراہم کرنے والے کون تھے؟ وہی جن سے آپ جیسے سادہ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ آپ کون ہوتے ہیں۔

زرا غور کریں وہ کون ہوتے ہیں!

صرف آج نہیں۔ قبل از اسلام عرب میں وہ خاندان سب سے زیادہ طاقتور اور معزز سمجھا جاتا تھا جس کا کعبہ پر کنٹرول ہوتا تھا اور قریش کو یہ کنٹرول چوتھی صدی کے اواخر میں حاصل ہوا۔ پاکستان میں لوگ مذہب کے لئے جتنے بھی جذباتی ہو جائیں، دنیا میں اسلام کی نمائندگی پاکستانی نہیں عرب ہی کریں گے کیونکہ حرمین کی چابیاں کل قریش کے پاس تھیں تو آج ان کے پاس ہیں۔ اسی لئے دنیا میں اسلام کے حوالے سے جو بھی واقعہ پیش آئے، جو بھی سوال اٹھے، دنیا ہماری طرف نہیں ان کی طرف دیکھتی ہے۔

دنیا ادھر ڈرون اور جنگی طیارے بھیجتی ہے تو ان سے پوچھتی، ان سے سوال کرتی ہے۔ اسلامی تاریخ ان کی تاریخ ہے۔ ہم اپنی تاریخ بھول کر لاکھ ان کی تاریخ میں غرق ہو جائیں، چاہے کتنے سنجیدہ ہوجائیں، زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیں مگر اپنی تاریخ کو درست سمت اور شکل دینے کا اختیار ہمارے نہیں ان کے پاس ہے۔ اگرچہ جمال خشوگی کے قتل کا واقعہ انہیں عالمی سطح پر ایک متنازع لیڈر ثابت کرتا ہو مگر یوں لگتا ہے کہ محمد بن سلمان تاریخ سے سبق سیکھنے اور وقت کے ساتھ قدم ملا کر چلنے والے لیڈر ہیں۔ ہمیں خبر ہو نہ ہو انہیں خبر ہے کہ وہ کون ہیں اور کیا کر سکتے ہیں۔ ان کے اس بیان کے بعد پاکستان کے مذہبی حلقوں پر چھائی ہوئی خاموشی بھی چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ مذہب کی تشریح اور تجدید کا حق کس کے پاس ہے۔ وہ کون ہیں اور محمد بن سلمان کون ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments