پارٹنر ( شریک حیات ) ملنے مشکل ہوئے


میں اتوار کے روز ایک معاصر اخبار میں ”ضرورت رشتہ“ کے اشتہار ضرور دیکھتا ہوں۔ ایسا کرتے ہوئے مجھے چالیس پینتالیس برس ہو چکے ہیں یعنی یہ سلسلہ میرے اپنے بیاہ سے بھی پہلے کا چل رہا ہے۔ دوستوں نے کئی بار اس علت کا سبب جاننا چاہا، میں نے اکثر ہنس کر یہ کہتے ہوئے ٹال دیا کہ شاید کوئی بہتر رشتہ مل جائے۔ ظاہر ہے ایسا کہنا مذاق کے علاوہ اور کچھ نہیں مگر مجبوری میں اس نوع کا مذاق کرتے ہوئے دل واقعی خون کے آنسو روتا ہے۔ درحقیقت ”ضرورت رشتہ“ کے اشتہار پورے معاشرے کے حالات کا عکس ہوتے ہیں جو کسی ملک کی سیاست، معیشت، معاشرت اور نفسیات کو ظاہر کرتے ہیں۔

جب سے میں یہ اشتہار پڑھ رہا ہوں ان میں وقت کے ساتھ ساتھ بہت بار تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ ویسے تو بیاہ ماسوائے تجارت کے اور کچھ ہے ہی نہیں جس میں ہر فریق اپنے ”مال“ کی اچھائیاں بیان کرتا ہے اور دوسرے کے ”مال“ سے اپنے ”مال“ کو فائدہ پہنچانا چاہتا ہے۔ معاف کیجیے یہ چند فقرے کچھ زیادہ ہی ظالمانہ اور غیر انسانی سے ہو گئے ہیں۔ خیر اس بات کو چھوڑیے بعض اوقات زیادہ حقیقت پسندی سے کام لیا جانا تکلیف دہ ہوا کرتا ہے۔

بحث کرنے والے تو اس پر بھی بحث کرنے لگیں گے لیکن ہم کسی ”مباحثے“ میں شریک نہیں ہیں۔ میں بات کر رہا تھا وقت کے ساتھ ساتھ ”ضرورت رشتہ“ کے اشتہاروں میں آنے والی تبدیلیوں کی۔ پہلے ایسے اشتہاروں میں لڑکی کے سگھڑاپے اور تربیت کے دیگر عوامل کے علاوہ، خاندان کے اوصاف بیان کیے جاتے تھے۔ لڑکے کے پیشے، عہدے، خاندانی وقار اور کبھی کبھار آمدنی کا ذکر ہوتا تھا۔ اب لڑکی کی تعلیم، عہدہ، رنگ اور نقوش کا ذکر کر کے ہم پلہ سے بڑھ کر، مثلاً امریکہ یا برطانیہ کی شہریت کا حامل ہو، مطالبہ کیا جاتا ہے۔

اب تو کچھ مرد حضرات کی جانب سے بیاہ کا اشتہار ایسے دیا جاتا ہے جس میں وہ باقاعدہ رہائش کی فراہمی کے متقاضی ہوتے ہیں۔ بعض اوقات چپڑی اور دو دو کے مصداق اپنے چند بچوں کے ہمراہ مکان کی مالکہ کے رشتے کی تلاش کی جا رہی ہوتی ہے۔ کسی ایک ستم ظریف بے گھر نے تو باقاعدہ بیوی بچوں سمیت کسی ایسی خاتون سے عقد ثانی کی درخواست کی جو ان کی پہلی بیوی اور بچوں کو بھی اپنے ساتھ رکھنے پر معترض نہ ہو۔ کچھ اشتہارات میں لڑکی اور لڑکے کے ایسے ایسے اوصاف بیان کیے جاتے ہیں جیسے زیادہ سے زیادہ بولی لگوائے جانے کی سعی کی جا رہی ہو۔ اس کے برعکس کچھ اشتہارات ایسے ہوتے ہیں جن میں لجاجت سے کام لیا جاتا ہے اور کچھ تو مطالبے سے بڑھ کر استدعا یا بھیک مانگنے کے مترادف ہوتے ہیں۔

ہم اس بحث میں نہیں پڑیں گے کہ بیاہ کیا ہے، کیوں کیا جاتا ہے اور اس کی ابتدا کیسے ہوئی البتہ ہم یہ ضرور دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ کیا بیاہ کے اشتہارات کسی معاشرے کی مختلف جہات کا اظہار ہوتے ہیں یا نہیں؟ دیکھیے جب ایسے اشتہارات کی بھرمار ہو جائے تو اس کا ایک مطلب ہوتا ہے کہ رشتے ملنے دشوار ہو چکے ہیں۔ جہاں خواتین بھی ہوں اور مرد بھی وہاں رشتے ملنے میں دشواری ہونا چہ معنی؟ یہاں ایک پہلو کو مدنظر رکھنا ہوگا۔

جن معاشروں میں مرد و خواتین اپنی آرزو یا ضرورت پوری کرنے میں آزاد ہو چکے ہیں وہاں بھی ایسے اشتہارات ہوتے ہیں لیکن وہ ”شریک حیات“ کی تلاش کے لیے ہوتے ہیں، جن میں فریقین اپنے خصائص اور وسائل کا تبادلہ کرنے کا سودا کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس جن معاشروں میں ”شریک حیات“ کی تلاش میں عورتیں تو کم و بیش بالکل ہی آزاد نہیں ہیں اور مردوں کے لیے بھی ایسا کرنے میں شدید دشواریاں حائل ہیں۔ یہ دشواریاں رسوم و رواج، روایات، ذات پات اور اقتصادی عدم توازن کے باعث وجود پاتی ہیں۔

چنانچہ ”رشتے“ ملنے مشکل ہونے کا معنی یہ ہے کہ ایسے معاشروں میں بیاہ دو افراد کا باہمی رشتہ یعنی ”شراکت حیات“ نہیں بلکہ دو گھرانوں کے مابین تنیاں تانے جانے کا نام ہے۔ معیشت کا عدم توازن دوسرے معانی میں آمدنیوں کا تفاوت ان تنیوں کو تانے جانے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ لڑکی کے مناسب ہونے میں اب اس کا پڑھا لکھا ہونا اور وہ بھی کسی پیشہ ور ادارے سے جیسے میڈیکل یا بزنس مینیجمنٹ کے ادارے سے، اس کا کسی ایسے عہدے پر ہونا جو مستقبل میں زیادہ آمدنی، زیادہ رسوخ اور زیادہ وقار کا باعث بنے پھر کہیں جا کر اس کا جسمانی طور پر متناسب ہونا اور خوبصورت نہ سہی قبول صورت ہونا آتا ہے۔

لڑکے کے لیے با روزگار، با وسائل، اچھے خاندان والا ہونا بہتر ہوتا ہے۔ تقاضے کی اس ہی شش و پنج میں لڑکیوں کی شادیوں کی عمریں گزر جاتی ہیں۔ لڑکی کی بیاہ کی عمر 18 سے 23 برس تک ہے تاحتٰی مغرب میں بھی 25 سال کے بعد لڑکی کو مذاق سے ”آنٹی“ کہا جانے لگتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کی بیاہ کی عمر گزر گئی۔ اٹھائیس سے بتیس برس کی عمر کی خواتین کی شادیاں بہت کم ہوتی ہیں، بتیس سال کی عمر کے بعد مغرب میں بھی جہاں اپنی پسند سے ”شریک حیات“ منتخب کرنے کی آزادی ہے، لڑکیوں کے بیاہ ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔

ایک اور سماجی تبدیلی جو ”ضرورت رشتہ“ کے معاصر اشتہارات سے مترشح ہوتی ہے وہ بڑی عمر کے مردوں اور کسی حد تک عورتوں کا تنہا ہو جانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج سے پندرہ بیس سال پہلے کی نسبت آج ساٹھ سے اوپر کی عمر والے مردوں اور پچاس سے زیادہ والی عمر کی عورتوں کے رشتوں کے لئے اشتہارات بارہا دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب مشترکہ خاندانی نظام ٹوٹ رہا ہے اور بڑی عمر کے لوگوں کو تنہائی ڈس رہی ہے۔

مذکورہ اشتہارات کا ملکی سیاست سے بندھن بھی واضح ہوتا ہے۔ آپ کو عجیب لگے گا کہ بیاہ کا ملکی سیاست سے بھلا کیا بندھن ہو سکتا ہے۔ ملکی سیاست ملک کے معاشی اور سماجی توازن اور استحکام کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ غیر ملک میں مقیم لوگوں کے رشتوں کی احتیاج کا بڑھ جانا جن کے ساتھ بیاہ کر کے دوسرے فریق کو چاہے وہ کسی بھی صنف سے ہو، اس غیر ملک کی شہریت ملنے میں سہولت ہو سکے اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ بچے بچیوں کے والدین ملک کے سیاسی و معاشی حالات سے مطمئن نہیں ہیں۔

انہوں نے تو اپنی عمر جیسے تیسے کاٹ لی پر وہ اپنی اولاد کو کسی طریقے سے اس ملک سے نکال کر اپنے خیال میں کسی اچھے ملک میں بھیجنا چاہتے ہیں۔ ویسے ایسا خیال بیشتر بار سراب ثابت ہوتا ہے۔ دوسر ملکوں میں بھی زندگی کانٹوں کی سیج نہیں ہوتی لیکن ایک بات بہرحال ہے کہ زندگی کا تحفظ اور انسانی تعظیم بہر طور میسر آ جاتی ہے۔

اگر آنکھیں کھولنی ہیں تو آپ بھی میری طرح ”ضرورت رشتہ“ کے اشتہار دیکھا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments