افغان بحران کا حل کیا ممکن ہو سکے گا؟


پاکستان، افغانستان سمیت پورے خطہ کی یا عالمی سیاست کی بڑا انحصار افغان امن معاہدہ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے عملی طور پر درست نشاندہی کی ہے کہ خطہ کی مجموعی سیاست میں سیاسی اور معاشی استحکام سمیت باہمی تعاون کے امکانات کا براہ راست تعلق اب بھارت کے طرز عمل اور افغان امن سے جڑا ہوا ہے۔ ان کے بقول پاکستان خطہ کے ممالک میں تعاون کے امکانات کو قائم اور بد اعتمادی کو کم کرنے یا خطہ کو جوڑنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔

پاکستان کے سامنے ایک بڑا چیلنج ستمبر میں امریکی فوجی انخلا کے بعد کی سیکورٹی کی صورت میں پیدا ہونے والی صورتحال ہے۔ پاکستان کی تشویش بجا ہے کیونکہ اس وقت افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان عملی طور پر جو طاقت کی لڑائی چل رہی ہے اس سے معاملات سلجھنے کی بجائے اور زیادہ بگاڑ کا شکار ہو رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا آنے والے دنوں میں افغان امن عمل کے حوالے سے کوئی بڑا بریک تھرو ممکن ہو سکے گا۔ کیونکہ سب کی نظریں افغان امن ماہدہ او راس سے جڑے عمل سے جڑا ہوا ہے کہ افغان امن کب، کیسے ممکن ہو سکے گا۔

اصولی طور پر افغان بحران کا حل کسی ایک ملک کے پاس نہیں۔ یہ ایک گلوبل یا عالمی مسئلہ بنا ہوا ہے۔ بالخصوص اس میں خطہ کے تمام ممالک کی مدد، تعاون اور معاملات کی سمجھ بوجھ سمیت تدبر کا امتحان بھی ہے۔ کیونکہ یہ سمجھنا کہ محض پاکستان تن تنہا افغان بحران کا حل نکال سکتا ہے ایک غلط مفروضہ ہے۔ جو لوگ افغان بحران کا سارا بوجھ پاکستان پر ڈال کر معاملات کو آگے بڑھانے چاہتے ہیں وہ مسئلہ کا حل کم او راس میں عملاً زیادہ بگاڑ پیدا کرنے کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔

افغان امن ماہدہ کی تشکیل اور مختلف مراحل سمیت مذاکرات کے کئی ادوار ہوچکے ہیں۔ 18 برس کے بعد افغان حکومت اور افغان طالبان کا ماہدہ بھی تاریخی ہے۔ لیکن ان تمام تر کوششوں کے باوجود معاملات کسی بڑے سیاسی تصفیہ کی طرف بڑھنے کی بجائے بداعتمادی کا ماحول پیدا کر رہے ہیں۔ امریکہ، افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جو مفاہمت کی سیاسی میز پاکستان نے سجائی ہوئی ہے وہ بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ موقع تھا کہ افغان امن سے جڑے تمام فریقین افغانستان اور خطہ میں پائیدار امن اور استحکام کو بنیاد بنا کر ایک جامع، ٹھوس اور وسیع تر سیاسی تصفیہ پر کام کریں۔

بڑا چیلنج افغان حکومت اور افغان طالبان ہیں۔ یہ دونوں فریق ایک دوسرے کے لیے بڑی سیاسی لچک پیدا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ دونوں فریق ایک دوسرے پر سیاسی سبقت لینا چاہتے ہیں اور اس سوچ کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں کہ ہم مخالف کو فتح کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

حالانکہ مسئلہ ایک دوسرے پر فتح حاصل کرنے کا نہیں بلکہ افغانستان میں امن عمل کو ترقی دینا ہے۔ لیکن لگتا یہ ہے کہ دونوں فریق کے لیے عملاً افغانستان کے امن سے زیادہ ذاتی مفاد اہم بن گیا ہے۔ پاکستان نے کوشش کی کہ عبوری حکومت کی طرف پیش قدمی کی جائے جو افغانستان کے صدر کی مخالفت کی وجہ سے ممکن نہ ہو سکی۔ حالیہ دنوں میں تشدد کی نئی لہر بھی صورتحال کو مزید بگاڑ رہی ہے اور اگر امریکی انخلا سے قبل تشدد کی یہ صورتحال ہے تو انخلا کے بعد افغان حکومت کی رٹ کہاں تک قائم رہ سکے گی او ر وہ کس حد تک اپنی صلاحیت کو دکھا سکے گی کہ ہم افغان امن کو قائم کر سکتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا سیاسی تصفیہ کے بغیر امریکی فوجیوں کا انخلا یا افغان حکومت اور طالبان کے درمیان پائی جانے والی بداعتمادی ختم ہو سکے گی، امکان بہت کمزور ہے اور خدشات بہت زیادہ ہیں۔ پچھلے دنوں پاکستان نے افغان حکومت کو واضح پیغام بھی دیا تھا کہ وہ افغانستان کے بارڈر کو کنٹرول کرے تاکہ افغان سرزمین یہاں دہشت گردی کا سبب پیدا نہ کرے۔ افغان طالبان سمجھتے ہیں کہ ستمبر میں امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں ان کی اہمیت بڑھ جائے گی اور افغان حکومت کی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر ہم افغانستان میں اپنی سیاسی برتری قائم کر سکتے ہیں۔

ماضی میں امریکہ کی جانب سے افغانستان سے مکمل طور پر لاتعلق ہونا ایک بڑی سیاسی غلطی تھی۔ اس سے افغانستان میں ایک خلا پیدا ہوا جسے انتہا پسندوں اور دہشت گردوں نے اپنی حمایت میں بڑھایا۔ یہ بات اب امریکہ، پاکستان سمیت دیگر بڑے ممالک کو انداز ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس بار امریکی انخلا کے باوجود امریکہ افغانستان کے سیکورٹی اور دیگر معاملات سے لاتعلق نہیں رہ سکے گا۔ اس کی ایک بڑی وجہ اس خطہ میں امریکہ کے حد سے زیادہ اسٹرٹیجک مفادات ہیں او راس تناظر میں جو بھی امریکہ حکمت عملی اختیار کرے گا اس میں افغانستان کو کلیدی طور پر حیثیت حاصل ہوگی اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ خود پاکستان کے مفاد میں بھی ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ ایک خاص گروپ جو افغانستان کے اندر سے بھی ہے او ران کے تانے بانے باہر بھی ہیں وہ حالیہ امن عمل کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ اس کی ایک شکل ہم نے لندن میں پاکستان ہائی کمیشن کے سامنے افغان مظاہرہ، توڑ پھوڑ کی بھی دیکھی ہے جو افغانستان میں جاری قتل عام کے خلاف مظاہرے کر رہے تھے۔ وطن گروپ نے اپنے فیس بک پیچ پر لندن میں افغان سفارت خانے کا ایڈریس شیئر کیا ہے۔ اسی طرح کا ایک احتجاجی مظاہرہ قطر کے سفارت خانے کے سامنے بھی کیا گیا ہے۔

یہ گروپ افغان امن میں پاکستان اور قطر کی شرکت اور امن کی معاونت پر بھی ناخوش ہیں۔ یہ لوگ کون ہیں اور کیا ان کو پاکستان سے پی ٹی ایم کی حمایت بھی حاصل ہے اور کون ان کی سرپرستی کر رہا ہے، غور طلب پہلو ہے۔ کیونکہ خود افغان حکومت کسی نہ کسی شکل میں پاکستان مخالف مہم کا حصہ بنی ہوئی ہے اور بلاوجہ پاکستان پر الزامات لگا کر خود کو داخلی بحران سے بچانے کی کوشش کر رہی ہے، جو دونوں ملکوں میں خلیج پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔

اگرچہ طالبان نے براہ راست پاکستان کا نام لیے بغیر پڑوسی ملک کی طرف اشارہ کر کے پیغام دیا ہے کہ وہ اپنی زمین غیر ملکی اڈوں کے لیے نہ دیں اور اگر ایسا کیا گیا تو ہمارا ردعمل سخت ہوگا۔ اگرچہ پاکستان اس کی کھل کر تردید کر رہا ہے لیکن بعض امریکی سابق سفارت کار اور عالمی میڈیا سمیت بہت سے لوگ پاکستان سے بھی یہ حوالہ دے رہے ہیں کہ اس طرز کی کوئی نہ کوئی گفتگو کہیں نہ کہیں ہو رہی ہے۔ کیونکہ امریکہ کی اسٹیبلیشمنٹ یا سیکورٹی احکام یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس صورت میں افغان طالبان کی طرف سے مسائل پیدا کرنے کی صورت میں ہم جوابی وار کرسکیں گے، وگرنہ دوسری صورت میں طالبان کو روکنا ممکن نہیں ہوگا۔

افغان امن میں بھارت کا کردار اہم ہے کیونکہ وہ اس وقت معاملات کا پرامن حل نہیں چاہتا۔ یہ جو افغانستان کے اندر سے پاکستان مخالف باتیں ہوتی ہیں یا الزامات لگتے ہیں اس کی وجہ بھی خود بھارت کا طرز عمل ہے جو افغان امن کو اپنے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔ پاکستان کی کوشش ہے کہ وہ امریکہ، افغان حکومت اور طالبان کی مدد سے ایسا سیاسی تصفیہ سامنے لائے جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔ اسی طرح پاکستان اپنی ان کوششوں میں روس اور چین، ترکی کی حمایت بھی حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کیونکہ پاکستان سمجھتا ہے کہ افغان امن کا براہ راست تعلق خود پاکستان کی سیاسی، معاشی اور سیکورٹی کی سلامتی سے جڑا ہوا ہے۔

امریکی فوجی انخلا کے بعد پاکستان کا کردار کلیدی ہوگا اور تمام فریقین کا انحصار بھی پاکستان پر ہی ہوگا۔ اچھی بات یہ ہے کہ امریکہ کی افغان پالیسی میں پاکستان کی اہمیت بڑھ رہی ہے اور پاکستان بھی امریکی مشاورت کا حصہ ہے۔ امریکہ کو سمجھنا ہوگا کہ اگر وہ پاکستان کو نظرانداز کی پالیسی اختیار کرے گا تو اسے سوائے نقصان کے کچھ نہیں ہوگا۔ اگر امریکہ پاکستان کی پشت پر کھڑا رہے گا تو افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مفاہمت اور کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر معاملہ سامنے آ سکتا ہے، لیکن اس کے لیے امریکہ سمیت دیگر بڑی قوتوں کو پاکستان پراعتماد، بھروسا اور فیصلوں میں کلیدی حیثیت دینی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments