دولے شاہ کا چوہا


آج دفتر سے واپسی پر گھر پہنچا تو سیدھا اپنے کمرے میں داخل ہو کر بیڈ پر اوندھے منہ لیٹ گیا۔ دل بہت اداس تھا اور وجہ میری سمجھ سے بالاتر تھی۔ شاید میں تھک گیا تھا ایک مکمل انسان بننے کی ہر ہر کوشش سے، فکر اور غموں کی نوکری کرتے کرتے، اپنی پلکوں پر جلتے خوابوں کی راکھ سنبھالتے، ایک کے بعد دوسری امید پر آس لگاتے یا شاید پھر اپنے آپ میں سے گرز کر زندگی کو ایک انجانے مدار میں گھومتے دیکھ کر۔ آج مجھے اپنے اندر کئی صدیوں کا سناٹا سنائی دے رہا تھا اور اس خاموشی کی گود میں سر رکھ کر نجانے کب میری آنکھ لگ گئی۔

ابھی شام کا پردہ گرا ہی تھا کہ بیک وقت محلے کی ہر مسجد سے مغرب کی اذان کی صدا گونجنے لگی۔ سعادت کے حصول میں شفاعت اور کرم کی اس داستان کو ہر فرقے کا مؤذن ایک الگ وسعت پر لے جانے کی کوشش میں تھا۔ اس دوڑ میں خیرالعمل کی جانب حر کو بلانے والی اذان کی صدا کون سی مسجد سے آ رہی تھی میرے لیے یہ اندازہ لگانا مشکل تھا مگر اشہد سے توحید کی منادی کرانے والے ہر مؤذن کی صدا پر میرا دل رب کی طرف کچھ ایسا کھچتا کہ بالآخر میں اٹھا اور وضو کر کے اپنے مخصوص فرقے والی مسجد کی جانب دوڑ پڑا جو کہ گھر سے قدرے فاصلے پر تھی۔

جلدی میں گھر سے نکلتے ہوئے اپنی مسجد کی مخصوص نیلے رنگ کی ٹوپی پہننا بھول گیا تھا۔ مگر سامنے سے اپنے پرانے بیلی قاسم کو اپنی مسجد سے نکلتے دیکھ کر میں نے شرارتاً، قدرے بے تکلفی سے اس کی مخصوص لال رنگ کی ٹوپی اس کے سر سے سرکائی اور اسے پہن کر اپنی مخصوص مسجد میں پہنچ کر نماز ادا کرنے لگا۔ سلام پھیرتے ہی میری ٹوپی پر نگاہ ڈالے تمام نمازی بشمول امام صاحب قدرے متعجب اور احتجاجی نظروں سے مجھے گھورنے لگے۔

یہ نگاہیں میرے اندر کچھ اس شرمندگی کا احساس پیدا کر گئیں کہ میں دعا مانگے بغیر ہی گھر کی طرف چل دیا۔ میرا دل؛ رب کی ماننے والوں کا ایسا رویہ ماننے کے لیے ہرگز تیار نہ تھا۔ میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ اچانک میرا راستہ مالو نے روک لیا۔ ننگے پاؤں ننگے سر، چھوٹی آنکھیں، لمبی ناک، بڑے کان اور مخصوص سا چھوٹا سر۔ بوسیدہ اور بدبودار سبز چوغے میں ملبوس، گلے میں رنگ برنگی مالا لٹکائے، مٹی سے اٹا ہوا مجذوب مالو عرف دولے شاہ کا چوہا آج بھی اپنے پاس آنے والوں کی روح کے ہر ایک گرد آلود کونے کو صاف کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔

محلے کے بزرگوں کے بقول اس کی پیدائش اس منت کی دین تھی جو ایک وعدہ ٹھہرا۔ پہلی بار شاہ دولہ کے مزار پر مالو کے والدین جب حاضر ہوئے تو رواج کے مطابق منت مانگی کہ اگر بابا جی کی دعا اور کرامت سے انہیں اولاد کی نعمت سے نوازا گیا تو شرط کے مطابق پہلی اولاد مزار کی خدمت گاری کے لیے سپرد کر دی جائے گی۔ وقاص احمد عرف مالو کی پیدائش کے فوراً بعد ہی رسم کے نام پر اور عقیدت کی دلیل پر اسے مزار سے وابستہ مخصوص گروہ کے حوالے کر دیا گیا جنہوں نے اپنے رواجوں کا پالم کرتے ہوئے اس کی نومولودگی میں ایک مخصوص فولادی سانچہ اس کے سر پر نصب کر دیا۔

وقت کے ساتھ ساتھ مالو کا جسم تو پرورش پاتا رہا مگر اس کا دماغ اسی ایک سانچے تک محدود ہو کر رہ گیا۔ اس کے ذہن کے ساتھ ساتھ اس کی سوچ، اس کی فکر اور اس کا تدبر ایک حق سمجھ کر سلب کر لیے گئے۔ ان پر وہ تالے لگا دیے گئے کہ فطری ضرورتوں کے تقاضے کے لیے مالو کے پاس چند الفاظ اور اشاروں کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ سلب کرنے والے یہ بھول چکے تھے کہ مالو کے پاس ایک دل بھی تھا اور ایک روح بھی جن پر تالہ لگانا شاید ان کے بس میں نہیں تھا۔

وقت کے ساتھ جب کبھی احساس کی دلیلیں مالو کو تنگ کرتیں تو دل میں بسی ہر خاموشی اس کی چیخیں بن کر مزار میں گونج اٹھتیں مگر دنیا والوں کو پھر بھی سنائی نہ دیتیں تھیں، وہ بس اسے عجیب نظروں سے گھورتے۔ شاہ دولہ کے اس چوہے کے منہ سے ٹپکتی ہوئی رال، بے وجہ اس کے چہرے کی وہ بے رنگ سی ہنسی اور بے چین سے آنسو، اس کی خالی نظریں جو اس وقت بس مجھے تکتے جا رہی تھی اور نجانے کیا سوال کر رہی تھیں؟ میں نے جیب سے چند روپے نکالے اور مالو کے ہاتھ میں تھما دیے۔

اس نے جھٹ سے وہ روپے ساتھ کھڑے مالک کو پکڑا دیے۔ ناسمجھی کے اندھیرے میں بھٹکتا ہوا وہ دیوانہ، تسلیم کی قبا اوڑھے، اپنے ”رانجھے“ کے ایک اشارے پر ہاتھ اٹھا کر میرے لیے دعا میں ہر امید بر آنے کی روشنی مانگنے لگا۔ میں نے گھر کی راہ لی۔ پہنچ کر ابھی پوری طرح سے سانس بھی نہ لے پایا تھا کہ دروازے کی گھنٹی بجی۔ باہر نکلا تو سامنے والی مسجد سے وابستہ بچے مخصوص لباس اور مخصوص پگڑیاں پہنے مسجد کے لیے چندا مانگنے لگے۔

میں نے جیب ٹٹولی تو چند روپے ہی ہاتھ لگے۔ میں نے پیسے بچوں کو پکڑائے تو سامنے سے فراٹے بھرتی ہوئی نئی ماڈل کی گاڑی نے ہم سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لی۔ وہ بچے ایک دم با ادب، سر جھکائے دیوار کے ساتھ ایک لائن میں سیدھے کھڑے ہو گئے۔ معلوم پڑا کہ گاڑی تو مسجد کے منتظم صاحب کی ہے۔ گاڑی کا قریب سے گزرنا ہی تھا کہ رستے میں کھڑا گٹر کا پانی اچھل کر میرے اور بچوں کے کپڑے ناپاک کر گیا۔ بچوں نے اپنے امیر صاحب کی اس حرکت پرایک پر معذرت سی نظر میری طرف کی اور پھر آگے کی طرف چل دیے۔ میں بس سوچتا ہی رہ گیا کہ موسموں کی سختیوں کے عادی، اپنے وجود کے احساس سے عاری یہ معصوم بچے تعظیم کی قبا اوڑھے سارا دن خدا کے کس گھر کے لیے بھیک مانگتے ہیں؟

اگلے دن دفتر سے چھٹی تھی۔ دل کی مضطربی کے ہاتھوں ساری رات سو نہ پایا تھا تو بے چین ہو کر صبح ہی صبح شاہ دولہ کے دربار پر جاکر بیٹھ گیا۔ آنکھیں موند کر کافی دیر تک قوالی سنتا رہا کہ یکایک ماحول میں ایک ہلچل سی محسوس کی۔ آنکھیں کھولیں تو دربار کے صدر دروازے پر ایک لمبی چوڑی نئی ماڈل کی گاڑی کو کھڑے پایا کہ جس سے دربار کے امیر منتظم اتر کر اندر تشریف لائے۔ مخصوص گدی پر براجمان ہوتے ہی لوگوں کا ایک جمع ءغفیر دیوانہ وار جھک جھک کے منتظم کے ہاتھ پاؤں چومنے لگا جن میں مالو بھی شامل تھا۔

وہ مالو کہ جس کی ہر خواہش کی تکمیل کا مجاور ذات نہیں بلکہ وفا کے نام پر وہ وجود ٹھہرا جو اسے اپنے ساتھ جوڑے پھرتے۔ وہ بس ویسے کرتا جو ”رہنما“ کہتے۔ جس کے رہبر کی عطا کردہ مخصوص وضع قطع وقت کے بازار میں اس کی فقیری کی صورت میں سرءعام بکتی رہی۔ وہ ”عمرو عیار“ کی اس ”زنبیل“ کی مانند تھا کہ جسے اس کے مہربان کسی بھی قیمت پر کھونا نہیں چاہتے تھے۔ وہ رہبر جو خدا اور دنیا کی محبت کی اس قسم میں مبتلا تھے کہ جو خواہش کا اختتام کرنے سے سراسر قاصر تھی۔

مالو جو سؤ فراموشی میں، محؤ غم دوشی میں اپنے فکر و دلیل کی محدود رضامندی کے احساس میں لامحدود سوالوں کے ہاتھوں بے بس اور مضطرب ہو کر بازاروں، لاریوں اور سڑکوں پر دیوانہ وار کبھی زندہ کرداروں پر لپکتا تو کبھی مردہ مزاروں پر۔ وہ خدا کے نام پر انسان کا بنایا ہوا وہ پتلا تھا کہ جس کی بے رحم ڈوریں فقط تعظیم کے زور پر سنبھالی گئی تھیں۔ جسے تجسس کی اجازت تک نہ دی گئی ورنہ اس گستاخی پر بابا سائیں کی بددعا سے وہ کبھی کرامت نہ پا سکتا۔ بس خاموش! سوال کرنے کی اجازت نہیں۔

وقت پر لگا کے اڑتا رہا اور ایک روز چھٹی کو غنیمت جان کر تمام یار دوست کرکٹ کا میچ کھیلنے میں مصروف تھے کہ مزار والی مسجد سے اعلان ہوا۔ ”حضرات ایک ضروری اعلان سنیے، وقاص احمد عرف مالو وفات پا گئے ہیں جن کا نماز جنازہ ظہر کی نماز کے بعد دربار والی مسجد میں ادا کی جائے گی“ یہ خبر اہل محلہ پر ایک بجلی بن کے گری۔ سب کا غم خوار، سب کا بیلی کیونکر سب سے منہ موڑ سکتا ہے؟ کسی کو یقین نہ آیا اور ہم سب مزار کی جانب سرپٹ دوڑ پڑے۔

بوہڑ کے سائے میں رکھی ہوئی مالو کی لاش۔ اس کے سر اور داڑھی کے سفید بالوں نے اب رہبروں کی زبان پر اسے دولے شاہ کے چوہے سے دولہ سائیں کے رتبے پر پہنچا دیا تھا۔ اس کا پرسکون مردہ وجود گواہی دے ریا تھا کہ شاید آج پہلی مرتبہ اس نے اپنے رب سے اپنے لیے کچھ مانگا تھا۔ مالو مر چکا تھا۔ جنازے کے بعد اس کی تدفین دربار میں لگے اسی بوہڑ کے درخت کے نیچے کر دی گئی جہاں وہ اکثر خاموشی سے بیٹھ کر بس زمین کو دیکھے جاتا تھا۔

میں نے اس کے جنازے میں شریک لوگوں پر نظر دوڑائی تو محسوس ہوا کی مالو چلا تو نہیں گیا وہ تو میری طرح ہر اس انسان کے روپ میں آج بھی زندہ تھا جو عقیدے و رسم کے نام پر اپنے جھوٹے رہبروں کے پہنائے گئے فولادی سانچوں کو سنبھالے بیٹھے تھے۔ مالو کی قبر وہ واحد وجود تھا جس کے من کے سچے سوال چیخ چیخ کے پوچھ رہے تھے کہ کیوں خالق کی بجائے عقیدت کے نام پر وجود کے بتوں سے جڑے رہنے کو ہم خسارا نہیں کہتے؟ کیوں اپنے باپ دادا کی کھوٹی رسموں سے روگردانی کی سوچ ہی ہمیں خوف میں مبتلا کرتا دیتا ہے؟

دلیل کی بنیاد پر سچ کو جاننے اور تسلیم کرنے کے باوجود بھی ہم کیوں ان نام نہاد خداؤں سے دور نہیں ہو پاتے؟ کیوں کرامتوں کے تجسس میں ہم اتنا کھو چکے ہیں کہ حقیقت ہمیں نظارہ تو دکھائی دیتی ہے لیکن سچائی نہیں؟ کیوں عقل کی بنیاد پر دلیل کے ہوتے ہوئے بھی ہم خیال کو مسمار کرنے کی اجازت کسی دوسرے سے لینے کے انتظار میں بیٹھے ہیں؟ کیوں تغیر کی حقیقت کو مانتے سے ہمیں بھگتنے کا خوف دلایا جاتا ہے؟ صاف اور واضح حق کے ہوتے ہوئے بھی ہم کیوں اندھے، گونگے اور بہرے ہیں؟ میں دیوانہ وار اپنی مسجد کے محبوب امام صاحب کے پاس پہنچا اور کھوجنا چاہتا ہر سوال کا جواب تو آواز آئی: ”خاموش! سوال کرنا منع ہے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments