ایک اور واہمہ: ووٹ پارٹی لیڈر کا؟


پاکستان اور تیسری دنیا کے ممالک کے مقتدر طبقات نے جھوٹ و جعل سازی پر مبنی مختلف اقسام کے واہمے، باتیں، سیاسی بیانیے اپنے شہریوں کے ہاں مشہور کیے ہوئے۔ جن بیانیے، واہموں کو یہ مقتدر طبقات استعمال کرتے ہوئے ان ممالک میں اپنے غیر آئینی اقتدار کو طول دینے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ مقتدر طبقات (جس میں روایتی سیاست دان، نوکر شاہی اور فوج شامل ہیں ) تیسری دنیا کے معاشروں میں اکثر بیانیوں اور باتوں کو اس طرح عام پبلک میں پروموٹ کریں گے کہ اگر ان باتوں کو حل کرنے کے لیے ان طبقات کی سرپرستی حاصل نہ کی گئی تو خدانخواستہ یہ ممالک غریب، پسماندہ یا ختم ہو جائیں گے یا کوئی دوسرا ملک ان پر حملہ کر دے گا۔ لہاذا ضروری ہے کہ کچھ بھی ہو جائے ان طبقات کے اقتدار کو چیلنج نہ کیا جائے اور ان ممالک کے شہری ان کے ساتھ کمپرومائز کر کے اپنی زندگیاں گزارے۔ حالانکہ اگر سچائی کی آنکھ سے دیکھا جائے تو پاکستان اور اس جیسے تیسری دنیا کے ممالک کے مقتدر طبقے کی غلط پالیسیوں، نالائقیوں، غلط ترجیحات کی وجہ سے ان ممالک میں دکھائی دی جانے والی ترقی کے درمیان، ان ممالک کے 70 % شہری معاشی عدم مساوات، بے روزگاری، غربت اور بھوک میں زندگی گزار نے پر مجبور۔

تیسری دنیا کے اکثر ممالک میں بادشاہت، فوجی آمریتیں ہیں۔ جبکہ کچھ ممالک میں بذریعہ انتخابات حکومتیں ضرور وجود میں آتی ہیں، لیکن حکومتی اقتدار لینے کے بعد یہی حکومتیں اور ان حکومتوں کے سیاست دان حزب اختلاف، عوام کو مشاورتی عمل اور فیصلہ سازی میں شامل نہیں کرتے۔ جس سے ان ممالک کی سیاسی پارٹیاں چند خاندانوں اور چند شخصیات کے ہاتھوں یرغمال ہوجاتی ہیں۔ جہاں سے اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان پارٹیوں کے سربراہان اپنی پارٹی ممبران، اپنے ووٹرز کو یہ پیغام دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ ان کے بغیر ان کی پارٹی نہیں چل سکتی اور نہ ہی اقتدار حاصل کر سکتی ہے۔

لحاظ پارٹی کو مسند اقتدار پر لانے کے کے لیے اسی پارٹی لیڈر کی ہر حال حمایت کی جائے۔ وہ پارٹی لیڈر سیاسی منظر نامے میں رہنے کے لیے سیاسی، انتظامی طور پر چاہے کتنی ہی فاش غلطیاں کرے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ اجتماعی نظام کو مشاورتی عمل، جمہوریت سے چلائیں گے تو اس وقت کوئی ملک ہو، کوئی سیاسی پارٹی ہو اس کا ہر رکن اتنا ہی اہم ہے جتنا پارٹی لیڈر۔ اس لیے ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پبلک میں یہ بیان کیونکر تقویت حاصل کر لیتا ہے کہ ووٹ لیڈر کا ہے؟

ووٹ پارٹی لیڈر کا ہے کا نعرہ کیوں بلند کیا جاتا ہے اور کون کرتا ہے۔ اس کو ہم پاکستان کے سیاسی منظر نامے کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ پاکستان کے میڈیا میں، سیاسی پارٹیوں لیڈروں کے اردگرد رہنے والے سیاست دان اکثر یہ کہتے ہوئے نظر آئیں گے، کہ فلاں پارٹی کا ووٹ فلاں پارٹی لیڈر کے مرہون منت ہے۔ جیسے:
پی پی پی کا ووٹ بھٹو کے نام سے ہے۔
پی ایم ایل ن کا ووٹ نواز شریف کے نام سے ہے۔
جے یو آئی کا ووٹ مولانا فضل الرحمن کے نام سے پے۔
تحریک انصاف کا ووٹ عمران خان کے نام سے ہے۔ وغیرہ

سیاسی پیچیدگیوں، جمہوری حرکیات اور انسانی نفسیات کے پہلو دیکھیں، پرکھے بغیر پاکستان کا عام آدمی، عام ووٹر بھی اس دلیل کو مانتا ہوا نظر آتا ہے کہ انتخابات میں کامیابی شاید پارٹی لیڈر کے نام سے وابستہ ہے۔ جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ پارٹی لیڈر کا نام انتخابات میں کامیابی کی ضمانت اس لیے نظر آتا ہے، کیونکہ پاکستان کی سب سیاسی پارٹیوں کے لیڈر کے اردگرد جو سیاسی کلاس نظر آتی ہے، وہ پارٹی کے نام یا پارٹی کے منشور کو سامنے لانے کے بجائے شخصیت کو پروموٹ کر کے اپنے مقتدر مفادات کا تحفظ کر رہی ہوتی ہے۔ کیونکہ اس سیاسی کلاس کا مستقبل اور اقتدار صرف اور صرف پارٹی لیڈر کی مدد کا مرہون منت ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی سیاسی پارٹیوں کی تمام لیڈرشپ، کور کمیٹیاں پارٹیوں کے اندر بغیر عام پارٹی ممبر کی مشاورت، بغیر کسی انٹرا پارٹی الیکشن کے صرف آمر پارٹی لیڈروں کے حکم پر تعینات ہوئے ہوتے ہیں۔

ان غیر جمہوری تعیناتیوں کو روایتی سیاست دان ہر وقت اپنے مطلب کے مطابق استعمال کرتے ہیں۔ یعنی کے اگر پارٹی لیڈر ان کی ہاں میں ہاں ملاتا رہے گا تو یہ لوگ پارٹی لیڈر شپ کے گن گاتے رہے گے، اور رائے عامہ میں یہ تاثر دینے کی کوشش کریں گے کہ ووٹ پارٹی لیڈر کا ہے، ہم تو اس کے بغیر جیت نہیں سکتے۔ لیکن اگر پارٹی لیڈر ان روایتی سیاست دانوں کو خوش نہیں کر پائے گا، تو پھر یہی روایتی سیاست دان چھلانگ لگا کر اس پارٹی کو چھوڑ کر پارٹی اور اسی پارٹی لیڈر شپ کے خلاف کھڑے ہو جائیں گے۔ پرانی پارٹی سے الگ ہونے کے بعد پھر وہ اپنا نیا منشور، اپنی نئی ترجیحات عوام کے سامنے رکھ کر اس پرانے پارٹی لیڈر کو انتخابات میں چیلنج کریں گے۔ اس وقت ان کا بیانیہ مکمل طور پر تبدیل ہو جائے گا، عوام کو یہ بتائے گے کہ آپ اپنا جمہوری حق استعمال کریں ہم انتخاب یا اپنی سیٹ جیت لیں گے۔ اس طرح کی مثالوں سے پاکستان کی سیاست بھری پڑی ہے۔

کہنے کا مقصد ہے، کہ اگر پاکستان کی سیاست، جمہوریت میں پارٹی لیڈر کا نام ہی انتخابات میں جیت کی ضمانت ہو تو۔ پھر پاکستان کی سب بڑی سیاسی پارٹیوں اور مشہور پارٹی لیڈروں کو ہر انتخابات میں الیکٹ ایبلز نہ لینے پڑیں۔
دوسری جماعتوں سے پولنگ دن سے پہلے اتحاد کی ضرورت نہ رہے۔
مشہور و پاپولر سیاسی پارٹی لیڈروں کو انتخابات میں ایک حلقے کی بجائے 5 حلقوں میں نہ کھڑا ہونا پڑے۔

پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں اوپر دیے گئے تجربات ثابت کرتے ہیں، کہ پاکستان کی سیاست میں، کمزور جمہوری روایات ہونے کے باوجود صرف پارٹی لیڈر کا نام انتخابات میں کامیابی نہیں دلا سکتا۔ انتخابات میں کامیابی کا دار و مدار ان نکات کی بنیاد پر ہے۔

مقامی سطح پر سیاسی کارکن کا سرگرم کردار۔
مقامی سطح پر سیاسی تنظیم کا مضبوط ہونا۔
سیاسی پارٹی کی سابقہ کارکردگی، پارٹی منشور اور پارٹی کا آسان زبان میں پیغام۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments