دعویدار صحافت کے اور خواب سیاست کے


ہمارے لیے ضروری ہے کہ صحافت کے مطلب اور مقصد کو سمجھا جائے، اگر کوئی فرد صحافت کے میدان میں قدم رکھتا ہے تو اس کو سب سے پہلے صحافتی مقاصد کو سمجھنا ہوگا اور اس کے بعد جب وہ صحافت کے میدان میں قدم رکھے تو ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ صحافت کے مقاصد پر پوری طرح اترتا ہو۔ جس میں سب سے پہلے کہ وہ عوام تک معلومات پہنچائے لیکن شرط یہ ہے کہ فراہم کردہ معلومات حقائق اور سچائی پر مبنی ہو۔ دوسرا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ وہ کبھی بھی کسی سیاسی جماعت کو اپنے دلی تمناؤں کا مرکز نہ بنائے بلکہ وہ تمام سیاسی جماعتوں کے معلومات کو عوام کے سامنے نقطہ چینی سے رکھے اور ہمیشہ حق و سچ کا متلاشی رہے۔

لیکن آج کل اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑائیں تو اکثر صحافتی پیشے کے دعویدار صحافت کے بنیادی مقاصد سے لاعلم دکھائی دیتے نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے اس قسم کے نام نہاد صحافی کبھی کسی سیاسی پارٹی کا جھنڈا لہراتے ہوئے نظر آتے ہیں تو کبھی کسی ادارے کے ترجمانی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہمارے ملک میں اس قسم کے بے شمار صحافی آپ کو دکھائی دیں گے جو صحافی کم کسی سیاسی پارٹی کا سرگرم کارکن زیادہ معلوم ہوگا۔ یاد رہے کہ اس قسم کے لوگ صحافی نہیں بلکہ صحافت کا لبادہ پہن کر سیاسی پارٹیوں کے ترجمان ہوتے ہیں۔ کیونکہ جب صحافیوں کے لباس کا رنگ بھی کسی سیاسی پارٹی کے حفاظتی دستوں کا رنگ پیش کرنے لگے تو وہ لوگ صحافی نہیں بلکہ سیاسی پارٹی کے رکن میں شمار کیے جاتے ہے۔

دراصل یہ سیاسی اور صحافتی ملاپ ہم کو سب سے زیادہ ہمارے ملک میں دکھائی دیتا ہوا نظر آتا ہے جس کی متعدد مثالیں موجود ہیں چاہے وہ عمران خان کے دھرنے ہوں یا مولانا فضل الرحمان کے دھرنے، متعدد صحافی ان دھرنوں میں ان پارٹیوں کے ترجمانی کرتے ہوئے نظر آئے جس کی وجہ سے صحافت پر سوالیہ نشان لگا۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس قسم کے نام نہاد صحافیوں کو شرم نہیں آتی جب یہ دانستہ طور پر کسی سیاسی پارٹی کے ترجمانی کرتے ہیں یا کسی سیاسی پارٹی کی تعریفیں کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہے۔ کبھی تو یہ اس حد تک گر جاتے ہے کہ اپنے قریبی دوست سیاستدانوں کی خوشنودی کے لیے ان کو سچا اور پاک ثابت کرنے کے لیے ان کے مجرمانہ کرتوت کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں اور ان کا دفاع کرتے نظر آتے ہے۔ ان میں سے تو کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کہ اشتہاری ایجنسیوں کے ایجنٹوں کی طرح ہوتے ہے جو کہ سیاستدانوں کی جھوٹی تعریفوں اور کارناموں کی تشہیر کرنے کے لیے ہر قسم کے حربے استعمال کرتے ہیں اور سیاستدانوں کی طرف سے اس قسم کے صحافیوں کو خاص الفاظ سے پکارا جاتا ہے جیسے کہ ”اپنا صحافی/اپنا آدمی“ ۔

آج سارے سیاسی پارٹیوں نے اپنے اپنے صحافی پالے ہوئے ہیں جس کی ضرورت پیش آنے پر ان ہی نام نہاد صحافیوں سے اپنے پارٹیوں کے تعریفیں کروائی جاتی ہیں اور سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے ان ہی صحافیوں کو استعمال کیا جاتا ہے مختصراً صحافیوں سے اشتہاری ایجنٹوں والا کام لیا جاتا ہیں۔

معاملات باعث حیرت تب ہوتے ہیں جب اس قسم کے نام نہاد صحافی ایک طرف کسی سیاسی پارٹی کی ترجمانی کرتے دکھائی دیتے ہیں اور دوسری طرف خود کو ایک غیر جانبدار تجزیہ کار کے طور پر پیش کرتے ہے۔

اس قسم کے حالات متعدد سوالات کو جنم دیتے ہیں کہ آیا صحافت کا پیشہ کسی صحافی کو پی ٹی آئی، نون لیگ، پی پی پی غرض کسی بھی سیاسی پارٹی کی ترجمانی کرنے کا اجازت دیتا ہے؟ کیا آج صحافت کا پیشہ اتنا کمزور ہو گیا ہے کہ ایک صحافی آسانی کے ساتھ سیاسی پارٹی کا جیالا بن جاتا ہے؟ جواب ہے نہیں۔

یاد رہے کہ جب صحافی اپنا بنیادی مقصد بھول جائے تو ایک سیاستدان آسانی کے ساتھ عوام کے سامنے جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کر سکتا ہے۔ لیکن اگر صحافی کو صحافت کے بنیادی مقاصد کا پتا ہو تو سیاستدان کا عوام کے سامنے سچائی کی روپ میں پیش کردہ جھوٹ کو آسانی کے ساتھ اس جھوٹ پے سے پردہ ہٹا کر عوام کے سامنے سچ لانے میں دیر نہیں لگاتے لیکن افسوس آج ہمیں اس قسم کے کارنامے صحافت میں بہت کم ہی دکھائی دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

آخر میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمارے نوجوان صحافیوں کو جو صحافت کے میدان میں ابھی ہی اترے ہیں کہ اس قسم کے جال میں نہ پھنسیں کیونکہ اگر آپ اس جال میں پھنس گئے تو آپ کا صحافت میں آنے کا مقصد ہی ختم ہو جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments