خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع میں دھرنے اور احتجاج، وجوہات کیا ہیں؟

محمد زبیر خان - صحافی


پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں گزشتہ کچھ عرصے سے بڑھتے ہوئے احتجاج کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں اور مختلف علاقوں میں ہونے والے احتجاج کئی کئی روز کے دھرنوں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔

اس وقت بنوں کے علاقے جانی خیل میں جاری احتجاج دسویں روز میں داخل ہو چکا ہے جبکہ شمالی وزیرستان میں جاری احتجاج کا 22 واں روز ہے۔ ان دھرنوں سے قبل بھی کچھ احتجاج ہوئے تھے۔

اس سے پہلے کہ یہ وجوہات جاننے کی کوشش کی جائیں کہ ان علاقوں میں احتجاج اور شہریوں میں بے چینی کیوں بڑھ رہی ہے، پہلے ایک نظر ڈالتے ہیں حالیہ واقعات پر:

جانی خیل میں احتجاج کا دسواں روز: ’برف لینے نکلے اور ان پر فائرنگ ہوگئی‘

30 مئی کی شام قبائلی رہنما ملک نصیب خان کو تین نامعلوم افراد نے اس وقت فائرنگ کر کے قتل کر دیا جب وہ اپنے حجرے کے قریب دکان سے برف لینے گئے تھے۔

پولیس کے مطابق ان کے بیٹے کی جانب سے درج کروائے گے مقدمے میں کسی کو نامزد نہیں کیا گیا۔

ملک نصیب خان کے بیٹے رفیع اللہ کے مطابق نصیب خان 30 مئی کو مہمانوں کو ٹھنڈا شربت پلانے کے لیے برف لینے گئے تھے اور حجرے کے قریب ہی موجود مقام پر تین نامعلوم افراد نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کی اور وہ موقع پر ہی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔

رفیع اللہ کے مطابق ان کے خاندان کی کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں۔

وہ کہتے ہیں ’میرے والد ترقی پسند اور امن کے داعی تھے۔ انھوں نے ہمیشہ امن قائم کرنے کے لیے خدمات انجام دی تھیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت اور پولیس میرے والد کے قاتلوں کو گرفتار کر کے منظر عام پر لائے اور علاقے میں امن قائم کرے۔

’میرے والد نے اپنی زندگی امن کی کوششوں کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ اکثر اوقات جب علاقے کے لوگ اشتعال میں ہوتے تو وہ اس وقت بھی لوگوں کو پر امن رہنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ حکومت اور عوام کے درمیاں ایک پل کا کردار ادا کیا کرتے تھے۔‘

بنوں کے سیاسی و سماجی رہنما لطیف وزیر کے مطابق ملک نصیب خان زمینداری کے پیشے سے منسلک تھے اور انھوں نے بیوہ اور آٹھ بچے سوگوار چھوڑے ہیں۔

لطیف وزیر کا کہنا تھا کہ کوئی دو، تین ماہ پہلے جب اسلام آباد لانگ مارچ کا آغاز کیا گیا تھا تو اس وقت ملک نصیب خان نے سارے انتظامات کیے تھے۔

’وہ مارچ میں سب سے آگے تھے۔ اس موقع پر جہاں کسی بھی مقام پر کوئی بدمزگی ہوتی تو وہ آگے بڑھ کر معاملات کو کنٹرول کرتے تھے۔ اس بات کو یقینی بناتے کے امن وامان برقرار رہے۔‘

لطیف وزیر کا کہنا تھا کہ اس لانگ مارچ کو پرامن رکھنے اور پھر مذاکرات کے ذریعے معاملے کو حل کرنے میں بھی ملک نصیب خان کا بہت بڑا کردار تھا۔ ’ورنہ اس وقت لوگ بہت زیادہ مشتعل تھے اور کچھ بھی ہو سکتا تھا۔‘

لطیف وزیر نے بتایا کہ ’اس لانگ مارچ میں وزیراعلیٰ محمود خان نے کچھ وعدے کیے تھے۔ ان وعدوں کی تکمیل کے لیے ملک نصیب خان ہمہ وقت انتظامیہ اور پولیس سے رابطے میں رہتے تھے۔ انھوں نے انتظامیہ سے بڑی درمندانہ اپیل کی تھی کہ وہ علاقے میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے اقدامات کرے۔‘

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ کے مشیر اطلاعات مرتضیٰ بنگش نے دعویٰ کیا تھا کہ وزیر اعلیٰ نے جانی خیل قبائل کے ساتھ جو معاہدے کیے تھے، وہ سارے پورے کر دیے گئے اور کئی لوگوں کو چھوڑ دیا گیا جبکہ باقی پر عملدرآمد جاری ہے۔

ان کے مطابق ’ہماری ابتدائی تحقیق کے مطابق یہ واقعہ ذاتی دشمنی کا نتیجہ ہے۔ اگر لواحقیقن کسی کو ملزم نامزد نہیں کر رہے ہیں تو پھر ہمیں کچھ دن دیے جائیں تاکہ ہم اس پر تفتیش کر سکیں۔‘

’میرے والد ایف سی اہلکار کے قتل پر غم زدہ تھے

نصیب خان کے بیٹے رفیع اللہ کا کہنا تھا کہ ان کے علاقے کے منیب خان جو کہ بلوچستان ایف سی میں خدمات انجام دیتے تھے، چھٹیوں پر گھر آئے اور قتل ہو گئے تھے۔

’ان کے قتل پر میرے والد بہت غم زدہ تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ منیب خان نے کسی کا کیا بگاڑا تھا کہ اس کو قتل کر دیا گیا۔‘

سیاسی و سماجی رہنما لطیف وزیر کا کہنا تھا کہ ملک نصیب خان عموماً احتجاج وغیرہ کے معاملے کو کنٹرول کرتے تھے۔

’وہ کہتے تھے کہ احتجاج ریکارڈ کروا دیں اس معاملے کو زیادہ آگے نہ بڑھائیں، اس طرح امن وامان کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے مگر منیب خان جو کہ 20 مئی کو قتل ہوئے تھے، اس پر بہت زوروشور سے احتجاج کیا تھا۔‘

رفیع اللہ کا کہنا تھا کہ ان کے والد علاقے کے کئی بے گناہ قتل ہونے والے نوجواں کے خاندانوں کی دیکھ بھال کا فریضہ بھی ادا کرتے تھے لیکن اب ’کئی خاندان ان کے قتل سے بے سہارا ہو چکے ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان میں انسانی حقوق کی پوشیدہ خلاف ورزیاں

ملک رئیس خان: قبائلی رہنما جن کے قتل کی فوج اور طالبان دونوں نے مذمت کی

’ملک کو خطرہ تھا تو گھر چھوڑا، اب واپسی ممکن نہ مدد مل رہی ہے‘

میران شاہ احتجاج کا 20واں دن: ’عدالت میں پیش کر کے ٹرائل کریں‘

شمالی وزیرستان کے علاقے ہم زونی میں چند دن پہلے سڑک کے کنارے ایک آئی ڈی دھماکہ ہوا، جس میں کسی جانی نقصاں کی اطلاع نہیں ملی تاہم مقامی لوگوں کے مطابق اس کے بعد ’علاقے کے چھ لڑکوں کو اٹھا لیا گیا‘۔

ایم این اے محسن داوڑ کے مطابق اس پر احتجاج شروع کیا گیا تو تین لڑکوں کو رہا کر دیا گیا مگر ابھی تک تین لڑکوں کو نہیں چھوڑا گیا ہے۔

محسن داوڑ کے مطابق اب مظاہرین سے بات ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ تین لڑکوں نے اقرار جرم کیا ہے جبکہ مظاہرین کہہ رہے ہیں کہ پہلے تو اس ’اقرار جرم کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ تشدد کیا گیا ہے‘، اگر انھوں نے ’اقرار جرم بھی کیا ہے تو ان کو غیر قانونی طور پر کیوں گرفتار کیا گیا۔ ان کو عدالت میں پیش کریں اور ٹرائل کیا جائے۔‘

محسن داوڑ کے مطابق میران شاہ میں عوام ان گرفتاریوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔

حکومتی ترجمان مرتضیٰ بنگش نے وزیرستان میں ہونے والے احتجاج سے متعلق سوال کا جواب نہیں دیا۔

اس سے قبل ہونے والے احتجاج

رمضان کے ماہ میں جنوبی وزیرستان میں دو افراد کی ٹارکٹ کلنگ ہوئی تھی اور اہل علاقہ نے چھ دن تک دھرنا دیا تھا جو انتظامیہ اور مظاہرین کے درمیاں معاہدے کے بعد ختم ہوا۔

چند دن قبل جنوبی وزیرستان میں زیر زمین دھماکہ خیز مواد پھٹنے سے تین کم عمر بچے ہلاک ہوئے تھے۔ اس واقعے کے خلاف دو دن تک دھرنا جاری رہا اور کامیاب مذاکرات کے بعد احتجاج ختم ہوا۔

چند دن قبل بنوں جانی خیل میں مظاہرین چار بچوں کی لاشوں کو لے کر اسلام آباد کی جانب مارچ کر رہے تھے۔ جس کے بعد وزیراعلیٰ نے بنوں پہنچ کر مظاہرین سے مذاکرات کیے اور پھر یہ احتجاج ختم ہو گیا۔

ضلع خیبر میں طورخم بارڈر کے توسیعی منصوبے پر بھی کئی دن تک احتجاج رہا تھا۔

قانون کی عملداری پر سوالیہ نشان

پشاور سے سینیئر صحافی محمود جان بابر کا کہنا ہے کہ جب قبائلی علاقہ جات کو بندوبستی علاقوں میں منتقل کیا جارہا تھا تو ان لوگوں سے وعدہ کیا گیا تھا کہ ان کے جان و مال کی حفاظت ہوگی لیکن پولیس کا نظام ابھی تک مضبوط نہیں اور لوگ ابھی بھی ٹارکٹ کلنگ کا نشانہ بنتے ہیں۔

محمود جان بابر کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں حکام نے لوگوں سے یہ کہہ کر اسلحہ لیا تھا کہ امن وامان اور حفاظت کی ذمہ داری ان کی ہوگی۔

’مگر قتل ہونے والوں کے قاتل پکڑے نہیں جاتے، آئے روز مختلف واقعات ہوتے ہے اور لوگ لاپتا ہوتے ہیں تو وہ پھر شدید احتجاج پر اتر آتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہم سے اسلحہ بھی لےلیا اور حفاظت بھی نہیں کر سکتے۔‘

محسن داوڑ کا کہنا ہے کہ بڑھتے ہوئے بین الاقوامی سیاسی حالات اور بالخصوص افغانستان کے تناظر میں بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ پھر ’ہمارے علاقوں می گریٹ گیم شروع ہو چکی ہے‘۔

’ہمیں شکایت ہے کہ یہاں پر کچھ لوگوں کو کچھ بھی کرنے کی اجازت ہے اور اکثریت عوام پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وہ کہتے ہیں کہ ’قانون کی عملدرای کو نافذ کریں۔ اگر میں اور میرے لوگوں سے کوئی قصور ہوا ہے تو ان کو اٹھا کر لاپتہ نہ کریں۔ انھیں اندھی گولی کا نشانہ نہ بنائیں بلکہ انھیں عدالتوں میں پیش کریں، ٹرائل کریں، ثبوت دیں اور اگر الزام ثابت ہو جائے تو سزا دیں۔‘

وہ کہتے ہیں ’آئے روز مختلف واقعات ہو رہے ہیں۔ جس سے شہریوں کی زندگیاں اجیرن ہو چکی ہیں مگر لگتا ہے کہ ارباب اختیار امن قائم کرنے کی خواہش نہیں رکھتے۔ علاقے میں اگر امن قائم کرنے کی خواہش ہے تو پھر اس کے لیے بلاتفریق قانون سب پر لاگو کرنا ہوگا۔‘

رفیع اللہ کا کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں پتا کہ میرے والد کے قاتلون کو منظر عام پر لایا جا سکے گا کہ نہیں مگر میں حکومت سے کہتا ہوں کہ بہت قتل و غارت ہو چکی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اب ہماری نسلیں اس قتل و غارت کا حصہ نہ بنیں۔ امن سے رہیں اور تعلیم حاصل کریں۔ اس لیے میں اپنے والد کی میت کے ہمراہ احتجاج کر رہا ہوں کہ ان کی زندگی میں امن قائم نہیں ہوسکا تو اب ان کے قتل کے بعد تو امن قائم کر دیں۔‘

لطیف وزیر کا کہنا تھا کہ جب ہم اسلام آباد کی طرف مارچ کر رہے تھے تو وزیر اعلیٰ نے ہمارے ساتھ معاہدہ کیا تھا اور تین ماہ کا وقت لیا تھا۔

’اب تین ماہ میں چند دن باقی ہیں مگر ہمیں اس حوالے سے کچھ نہیں بتایا جا رہا جس پر ہم تشویش میں مبتلا ہیں اور اب اس دفعہ ہم احتجاج سوچ سمجھ کر ہی ختم کریں گے۔‘

صحافی محمود جان باہر کا کہنا تھا کہ اس وقت ایسی اطلاعات بھی موجود ہیں کہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ’ہم نے حکومت کے وعدوں پر اپنی جن میتیوں کو دفنایا تھا ان کو دوبارہ قبر سے نکالیں گے اور ان کو لے کر سڑکوں پر نکلیں گے‘۔

بنیادی مسائل ہی حل نہیں ہو رہے

محمود جان بابر کا کہنا تھا کہ ان علاقوں کو بندوبستی علاقوں میں تبدیل کرتے وقت فنڈز کا اعلان کیا گیا تھا مگر ابھی تک ان علاقوں میں کوئی بنیادی سہولتیں مثلاً ہسپتال، پانی، تعلیمی ادارے اور کئی علاقوں میں بجلی بھی موجود نہیں۔

’ترقی کا کوئی عمل شروع نہیں ہوا۔ لوگ اب یہ سمجھ رہے ہیں کہ پرانا نظام جس میں پولیٹیکل ایجنٹ ہوتا تھا، اس نظام سے کئی گنا بہتر تھا۔ لوگ اب مطالبہ کر رہے ہیں کہ کسی بھی طرح پرانا نظام نافذ کردیا جائے۔‘

محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ لگتا ہے کہ ’یہ فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ چاہے ان علاقوں میں پولیٹیکل ایجنٹ کا نظام ہو یا موجودہ بندوبستی نظام، ہمارے لوگوں کو پسماندہ رکھنا ہے اور بچوں کو پڑھنے کے لیے تعلیمی ادارے نہیں دینے ہیں‘۔

وہ کہتے ہیں ’ہم کہتے ہیں کہ مقامی وسائل پر مقامی لوگوں کو حق دیں۔ جیسے ضلع خیبر میں طورخم بارڈر کے منصوبے پر مقامی لوگوں کو تحفظات ہیں۔ اسی طرح وزیرستان جیسے علاقے جو باغات کے لیے مشہور ہیں، وہاں پر لوگوں کو سہولتیں دیں اور وہ ملکی معیشت بھی چلائیں گے۔‘

حکومتی ترجمان مرتضیٰ بنگش کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت قبائلی علاقہ جات میں بھرپور ترقیاتی کام کررہی ہے اور کئی چھوٹے بڑے منصوبے شروع ہیں جبکہ ہسپتال اور تعلیمی ادارے بھی قائم کیے جا رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32547 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp