پہلا ماتم، آخری ماتم


آخری ماتم

شاید چار بجے کا وقت تھا جب فریدہ باجی کا انتقال ہوا۔ کچھ پانچ بجے، مقامی سلہٹی گھرانوں سے فون آنا شروع ہو گئے اور تقریباً چھ بجے تک اس قصبے کا ہر وہ شخص جو پاکستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھتا تھا، جان چکا تھا کہ فریدہ باجی اب نہیں رہیں۔ رات گئے، ہم ان کے گھر پہنچے تو اسی ویرانی نے استقبال کیا جو بن ماؤں کے گھروں کا خاصہ ہوا کرتی ہے۔ خالی سیڑھیاں، زبان باہر نکالے کھونٹیاں، بے تعلق میز۔ مقدس آتش کدوں کی مانند، ہر وقت جلتا رہنے والا چولہا، سرد پڑ چکا تھا۔ اوپر کے کمرے میں فریدہ باجی کا کل ترکہ، تین بیٹے اور ایک شوہر، اس نئی پیدا ہونے والی صورتحال پہ حیرت اور سوگواری کی ملی جلی کیفیت کا شکار تھا۔

اعوان صاحب، آنے والے دنوں کی سفاکی سے بے خبر، اردو، انگریزی اور سرائیکی میں تعزیتی فون وصول کر رہے تھے۔ اس دوران وہ کبھی رو پڑتے، کبھی اچھے دنوں کو یاد کر کے مسکرا دیتے اور کبھی تدفین کے فیصلوں کے اسباب بیان کرنے لگتے۔ انہیں بالکل علم نہیں تھا کہ زندگی کی کون سی تنہائیاں اب ان کا راستہ تاک رہی ہیں اور ایک دردمند رفیق حیات کے جانے کے بعد ان کی زندگی احساس کی کس مفلسی سے کٹے گی۔ وہی گھر جس میں وہ اب بادشاہوں کی طرح استحقاق براجتے ہیں، ان کے فقر کی کہانی سنائے گا۔ وہ چائے کی ایک پیالی، دو لمحوں کے ساتھ اور پرانے لطیفوں پہ قہقہوں کی خیرات کو ترسیں گے۔

سامنے کے صوفے پہ بیٹھے، فریدہ باجی کے بیٹے ابھی تک اس خبر کو جذب کرنے کے عمل سے گزر رہے تھے۔ ان سے بے پناہ محبت کرنے والی ماں، ہسپتال کے یخ بستہ سردخانے میں غیر مانوس شہریتوں کے درمیان، زندگی کی حرارت تج رہی تھی۔ شناسائی کے وہ سب حوالے جو ایک فرد کے سبب، نمو پاتے ہیں، اسی کی موت سے آہستہ آہستہ پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ ماؤں کے جانے سے گھروں کے جغرافیے بدلیں نہ بدلیں، تاثیر ضرور بدل جاتی ہے۔ محرومی صرف یہاں تک محدود نہیں رہتی کہ بن مانگے کھانا نہیں ملتا اور بنا بلائے، بات نہیں ملتی، بلکہ اصل نقصان یہ ہوا کرتا ہے کہ مانگے سے بھی غیر مشروط محبت نہیں ملتی۔

مگر فریدہ باجی کون تھیں۔ کہاں سے آئیں تھیں اور اب کن منزلوں کی مسافر ہیں۔ دنیا داری کے برتاوے تو ان سوالوں کے جواب خاصے سیدھے ہیں، فریدہ باجی ملتان سے تھیں، تیس پینتیس برس پہلے اپنے شوہر کے ساتھ ملازمت کے سلسلے میں انگلستان آئیں اور پچھلے سترہ برس سے ہیسٹنگز میں مقیم تھیں۔ ہفتہ کی شام انہیں دل کا دورہ پڑا اور منگل کو خالق حقیقی سے جا ملیں مگر یہ بات ایسی ہے نہیں۔

دیس سے پردیس آتے آتے اپنا گھر، اپنی زمین اور اپنے لوگ ہی نہیں چھوٹتے بلکہ ایک مستقل سوالنامہ بھی لاشعور کا حصہ بن جاتا ہے۔ چشتیاں سے اٹھ کر راولپنڈی آباد ہونے والے بھلے شہری زندگی سے ہزار طور پہ شاد کام ہوں، چھوٹے قصبوں کی بڑی فراغتیں، ان کے دلوں میں مسلسل احساس زیاں پیدا کرتی رہتی ہیں۔

عید کی نماز کتنے بجے ہو گی، کون پاکستان جانے والا ہے، کون لوگ نئے آئے ہیں اور کن کے بچوں کو ہم عمر نہیں مل رہا، ان سب سوالوں کا بوجھ فریدہ باجی نے اکیلے اٹھا رکھا تھا۔ ماؤں کی ایک سرشت یہ بھی ہے کہ وہ ذمہ داریوں کے سونپے جانے کا انتظار نہیں کرتی۔ شاید رضا کاری کا کوئی ایسا ہی ایک لمحہ تھا جب وہ اپنی بے غرض مامتا کے ساتھ ہمارے گھر کا فرد بن گئیں۔ خدا جانے کیسے ہمارے ہر مسئلے کا حل، ان کے پاس پہلے سے موجود ہوتا اور جہاں ان کی دوا، کاری نہ ہوتی وہ دعا کا امام ضامن ساتھ باندھ دیتیں۔ یوں تو ان کے دسترخوان اور دست دعا میں ہمیشہ تنوع کی سرشاری رہی مگر فریدہ باجی چلتے پھرتے ایک آسرا ہمیشہ ہاتھ میں تھما دیا کرتی تھیں۔ ”اللہ مالک ہے، وہ خیر کرے گا“ ۔

تدفین کے لئے جمعرات کا دن مقرر ہوا۔ قبرستان کا ایک کونہ مسلمانوں کے لئے مخصوص تھا۔ اونچی نیچی ڈھلوانوں کے سبب درختوں کے سائے میں بنی اکثر قبروں کے سرہانے کھڑے ہوں تو سمندر صاف دکھائی دیتا تھا۔ کتبوں پہ بھانت بھانت کی معلومات درج تھیں، کوئی افریقہ کے کسی گمنام (یا شاید مقامی طور پہ بہت مشہور ) گاؤں میں پیدا ہوا اور دم بھر کو یہاں رکتے رکتے، اسی خاک کا رزق ہو گیا تو کوئی ترک یا کرد اپنی سرحدیں درست کرواتا کرواتا، یہاں مدفون ہوا۔ کوئی پٹنہ سے چلا تھا تو کسی کی پیدائش کا ضلع جنوبی ہندوستان کے کسی شہر کی صورت کھدا تھا۔

بلوط کے درختوں سے تھوڑا نیچے، قبر کی جگہ ملی تھی۔ ملتان سے شروع ہونے والا زندگی کی گرمجوشی سے بھرپور ایک متکلم سلسلہ، آج ہیسٹنگز کی گیلی مٹی میں خاموش ہوتا تھا۔ کیا آدمی کبھی جان پائے گا کہ اس کے سفر میں کون سا سٹیشن آخری ہے، کیا وہ جن لوگوں میں، جس شہر میں، جس بندوبست میں اپنی آخری سانسیں لیتا ہے، یہ سب اہتمام کبھی اس کی سوچ سے گزر بھی پاتا ہے یا یہ سب بس ایک اتفاق ہے۔

شاید اس قبرستان میں یہ کسی پاکستانی کی پہلی قبر تھی، شاید اس ہسپتال میں یہ ملتان کی پہلی موت تھی، شاید اس شہر میں کسی پنجابی کا یہ پہلا ماتم تھا۔ کیا ہم سے پہلے بھی اس قصبے میں کوئی اس طرح اپنے پیاروں سے محروم ہوا تھا کہ پانچ دریاؤں کے پانی بھی اس کے حزن میں شریک تھے۔ کیا اس کے ملال کو بھی کسی نے یہ کہہ کر آسرا دیا تھا۔

”اللہ مالک ہے وہ سب خیر کرے گا“

probably the only solo portrait of Edward Albert
Probably the only solo portrait of Edward Albert

پہلا ماتم

بہت سال ہوتے ہیں کہ ہیسٹنگز کے اس ساحلی قصبے کا تاریخ میں ایک تعارف، مسیحائی کے سبب بھی تھا۔ ڈاکٹر سیسل کرسٹوفرسن کے ہاتھ سے شفا پانے والوں نے ان کی بابت جو روایات بیان کر رکھی تھیں، وہ انہیں کسی بھی دیومالائی داستان کا کردار بنانے کے لئے کافی تھیں۔

مہاراجہ رنجیت سنگھ کی دس سالہ پوتی، صوفیہ دلیپ سنگھ کو ٹائفائیڈ ہوا، تو اس کی ماں، اس کے سرہانے آن بیٹھی۔ گمان غالب ہے کہ لاہور دربار کی یہ بہو، ہند سندھ کی تاریخ سے بے نیاز تھی۔ اسے شاید یہ علم بھی نہیں تھا کہ چند سو برس کے ہیر پھیر سے ہندوستان میں اولاد کے لئے آنے والا اجل کا ہرکارہ، خالی ہاتھ لوٹنے کی بجائے والدین کو لے کر ٹلتا ہے۔ بدیس میں جاگیر کے بندوبست پہ مامور لوگوں نے لکھا ہے کہ ادھر صوفیہ کی حالت سنبھلنا شروع ہوئی، ادھر ماں کی صحت بگڑنے لگی اور ستمبر 1887 کے دسویں روز پنجاب کی یہ مہارانی، پنجاب دیکھنے کی حسرت، دل میں لئے دنیا سے پردہ کر گئی۔

بن ماں کے بچے، باپ کی طرف کیا آس باندھتے کہ مہاراجہ دلیپ سنگھ، ان دنوں خود اپنے مذہب کی جڑیں کھوج رہے تھے۔ ایک تو پنجاب سے آنے والے بلاوے کوفہ صفت نہیں تھے بلکہ ان میں صدق کی گہری رمق تھی، دوسرا، مہاراجہ دلیپ سنگھ اب عمر کی چوتھی دہائی میں تھے، سو نظریے اور عقیدے میں بھونچال، تقریباً فطری تھا۔ پنجاب پلٹنے اور اپنا آبائی مذہب اختیار کرنے کی مصروفیت میں شاید یہ خبر کوئی معنی نہیں رکھتی تھی کہ جس مصری راہبہ کی محبت میں وہ کئی کئی دن مشن سکول کے چکر لگاتا رہا تھا، اس نے بالآخر دنیا ترک کر دی تھی۔

Princess Bamba Wife of Duleep Singh

ملکہ ٹوریہ کو مہارانی بمباں کے گزرنے کی خبر ملی تو اس نے بن ماں کے بچوں کا انتظام، مہاراجہ کے ایک معتمد افسر کرنل اولیفنٹ کے ہاں کر دیا۔ ماں باپ سے مستقل دوری کو بڑے بہن بھائیوں نے تو خیر برداشت کر لیا مگر ننھے ایڈورڈ البرٹ دلیپ سنگھ کے لئے یہ فراق، جان لیوا ثابت ہوا۔ 1891 میں اسے پہلی بار تپ دق تشخیص ہوئی۔ سال پلٹتے پلٹتے بیماری نے اتنا زور پکڑ لیا کہ اسے تعلیمی سلسلہ منقطع کرنا پڑا۔ مقامی علاج معالجے سے فرق نہ پڑا تو کسی نے ڈاکٹر سیسل کرسٹوفرسن کی طرف لے جانے کا مشورہ دیا۔

تین بہنوں، بیمار شاہزادے اور خدمت گاروں کا مختصر قافلہ، 1892 کے دسمبر میں ہیسٹنگز پہنچا۔ ڈاکٹر سیسل کرسٹوفر سن سے جو بن پڑا، انہوں نے کیا، لیکن ایڈورڈ کے پھیپھڑے بری طرح متاثر ہو چکے تھے۔ کچھ دن تو بہنوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر باہمی مشاورت سے بالآخر باپ کو الوداعی ملاقات کا سندیش بھیجا۔

پنجاب کے اقتدار کا بے مصرف تعاقب کرتے کرتے، اب مہاراجہ دلیپ سنگھ بھی تھک چکا تھا۔ عقیدے اور وفاداری کی تبدیلی کے باوجود، لاہور کا تخت ہنوز اس کی دسترس سے دور تھا۔ ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ انگریز کا پنجاب پہ قبضہ مستحکم ہوتا جا رہا تھا اور مہاراجہ کے حواریوں کے حوصلے ماند پڑتے جا رہے تھے۔ انگلستان کا شاہی خاندان اب بھی اس کی طرف مائل تھا مگر ہندوستان کے امور، انڈیا آفس کی ذمہ داری تھی اور وہاں وضع داریوں کو دخل نہ تھا۔ وائٹ ہال کے بابوؤں کو اس بات میں قطعی دلچسپی نہیں تھی کہ کسی زمانے میں شاہی گھرانے کی ہر اہم تقریب میں مہاراجہ دلیپ سنگھ کی شرکت یقینی ہوا کرتی تھی، انہیں البتہ پنجاب سے آنے والی ان خبروں پہ زیادہ تشویش تھی کہ مہاراجہ کے پنجاب واپس آنے سے سکھ شورش کا خطرہ دوبارہ بڑھ جائے گا۔

ان حالات میں انگلستان آنا، دلیپ سنگھ کو منظور نہیں تھا اور پنجاب جانے کی اجازت، ہندوستان سے نہیں مل رہی تھی۔ سو، اس کا زیادہ تر وقت، پیرس میں اپنے ہوٹل کے کمرے میں گزرتا جہاں وہ آتے جاتے لوگوں کو پنجاب کی زرخیزی اور برطانیہ کی زرپرستی کے قصے سناتا۔ فالج کے تازہ حملے کے بعد اب وہ اپنے بیٹوں کی معیت میں الجیریا کے صحت افزا مقام پہ زندگی کی سانپ سیڑھی سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔

ایڈورڈ کی طبیعت زیادہ بگڑی تو بہنوں نے باپ کی تیمارداری پہ مامور بھائیوں کو ملاقات کا لکھ بھیجا۔ اپریل کے تیسرے ہفتے، مہاراجہ دلیپ سنگھ، اپنے بیٹوں، فریڈرک اور وکٹر کے ہمراہ ہیسٹنگز پہنچا اور اگلے تین دن ایڈورڈ کے ساتھ گزارے۔

ان ملاقاتوں کی بابت زیادہ تفصیل تو دستیاب نہیں مگر شہزادی بمباں اور صوفیہ نے اپنی یادداشتوں میں مہاراجہ کو ایک شکست خوردہ انسان کے طور پہ بیان کیا ہے، جو ایڈورڈ کے سامنے، کمال تحمل کا مظاہرہ کرتا مگر تنہائی میسر آتے ہی دھاڑیں مار مار کر روتا تھا۔ تین دن کا عرصہ، ایک مجبور باپ کی وضاحتوں، ایک برائے نام مہاراجہ کی مصلحتوں، اور ایک بے وطن مسافر کی ہجرتوں کی تکون گول کرنے میں گزر گیا۔ دلیپ سنگھ کو واپس پلٹنا تھا اور ایڈورڈ کی حالت بھی تیزی سے بگڑ رہی تھی۔ اپنی آخری ملاقات میں مہاراجہ نے ایڈورڈ کو زندگی میں ثابت قدم رہنے کی تلقین کی اور کاغذ کا ایک ٹکڑا، اس کی مٹھی میں پکڑا کر کمرے سے چلا آیا۔

اس ملاقات کے ساتویں دن، ڈاکٹر کرسٹوفرسن کی بہترین کوششوں کے باوصف، ایڈورڈ البرٹ دلیپ سنگھ کا انتقال ہو گیا۔ پنجاب سے جڑی شاید یہ پہلی کہانی تھی جو ہیسٹنگز میں اپنے انجام کو پہنچی۔ اسی سال، اکتوبر کے اواخر میں پنجاب کا آخری مہاراجہ، پیرس کے ہوٹل میں زندگی کے بے رحم معاہدے سے یک طرفہ طور پہ دستبردار ہو گیا۔

کہتے ہیں کہ مرنے سے پہلے، ایڈورڈ، بار بار کاغذ کے اس ٹکڑے کو دیکھتا تھا جس پہ اس کے باپ نے کئی سالوں بعد فقط اس کے لئے ایک دعا اپنے ہاتھ سے لکھی تھی۔

”خداوند میرا چوپان ہے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments