انوکھے دہشتگرد اور پتھاروں پر بکتا اسلحہ


اگر آپ کبھی کسی مظاہرے میں شریک ہوئے ہیں تو آپ کو پتہ ہوگا، اور اگر نہیں تو بھی آپ نے فلموں اور ڈراموں میں تو دیکھا ہی ہو گا کہ مظاہرین کے ہاتھ میں کیا کچھ ہوتا ہے : جھنڈے، ڈنڈے، پتھر، بینر، پلے کارڈز۔ بدیسی مشروبات کی بھری اور خالی بوتلیں۔ کبھی کبھی بدیسی ایجنڈا بھی، تو بسا اوقات متعدد مظاہرین آتش گیر مادوں حتی کہ آتشیں اسلحے سے بھی لیس ہوتے ہیں۔ جب کہ کچھ محتاط مظاہرین پانی اور نمک بھی ساتھ رکھ سکتے ہیں اور ایسا سامان بھی جو کہ بظاہر بے ضرر ہو لیکن بوقت ضرورت اسلحے کا کام دے جائے۔ شاید ایسا ہی کچھ ان مظاہرین کے پاس بھی ہو جو کہ بحریہ ٹاؤن کے خلاف مظاہرہ اور احتجاج کر رہے تھے۔

لیکن کیا آپ یقین کریں گے کہ اس مظاہرے کے دوران کچھ لوگوں کے ہاتھ میں دنیا کا خطرناک ترین اسلحہ بھی تھا، جسے کے پاکستانیوں کے ایک بڑی اکثریت چھونا بھی پسند نہ کرے۔ اور یہ اسلحہ پتھاروں پر کھلے عام بک رہا تھا؟

ہمیں قطعی علم نہیں کہ سندھ، صوبائی دارالحکومت کراچی، اور ملک بھر میں کتنے لوگوں کو علم ہو سکا ہو گا کہ 6 جون کو کراچی میں بحریہ ٹاؤن کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا تھا۔ شاید کسی کو بھی نہیں۔ کیوں کہ ہمارے آزاد برقی و مطبوع میڈیا کی اکثریت نے اس احتجاج کو گھاس تک نہیں ڈالی۔ کیوں نہیں ڈالی۔ ہو سکتا ہے انہیں کسی نے پیٹ بھر گھاس ڈال کھلا دی ہو۔ یوں بھی ایٹم بم بنانے سے قبل یا اس کے بعد گھاس کھانا تو بنتا ہے!

سو چونکہ میڈیا کے ایک بڑے حصے نے اس احتجاج کو نہیں دکھایا اس لیے کسی کو پتہ ہی نہیں چلا کہ کراچی شہر میں دشمن کے بچوں نے، جو کہ خیبر پختونخوا سمیت ملک بھر میں ہی بڑھتے جا رہے ہیں بحریہ ٹاؤن جیسے عظیم الشان قومی ترقیاتی منصوبے پر دھاوا بول دیا ہے اور اس کے مگرمچھ نما گیٹ کو یوں جلا دیا جیسے کے دسہرے کے دن راون کو بھسم کر دیا جاتا ہے۔ اور بقول شخصے پاکستان بھر میں کوئی قدرتی آفت آ جائے تو کسی مافوق الفطرت، ماورائی یا سپر نیچرل کردار کی طرح لوگوں کا مدد کو پہنچنے والے بحریہ ٹاؤن جیسے مددگار کا گیٹ یوں جل گیا جیسے تنکوں کا بنا ہوا ہو۔ اور ہر کسی کی مدد کرنے والے بحریہ ٹاؤٹ۔ معذرت۔ بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ سے یہ نہ ہوا کے ”گھر کے چراغ“ سے لگی آگ کو ہی بجھا سکتی؟

اگرچہ بعد ازاں میڈیا نے اس احتجاج کو ناکام گرداننے اور متنازعہ بنانے کے لیے بہت کچھ کہہ کر ڈالا لیکن کیا کوئی بھی صاحب عقل انسان اس برقی و مطبوعہ میڈیا سے یہ پوچھنے میں حق بجانب نہیں ہے کہ بھئی یہ سب کچھ دہشتگردی تھی اور دھاوا تھا تو تم، تمھارے مائک اور تمھارے کیمرے آخر کہاں گم ہو گئے تھے کہ تم کہ دھواں دھار ٹیلیفونک خطابوں، طویل ترین کنٹینری دھرنوں اور کسی کھمبے کے پاس ایک ٹانگ پر کھڑے ”دھار مار“ کتے کی بھی خبر رکھتے ہو اور بعض اوقات اسے لائیو بھی نشر فرماتے ہو، سو تم نے اتنی بڑی دہشتگردی سے وطن عزیز کے عوام کو بے خبر کیوں کر رکھا؟

ارے بھائی اگر یہ مظاہرے 12 مئی 2007 کے جناب پرویز مشرف کی عوامی طاقت والے مظاہروں سے زیادہ خونی تھے تو ”بچے نہ دیکھیں“ کی ہدایت کے ساتھ یا پھر ”بلر“ کر کے نشر فرما دیتے۔ آخر آپ نے بچوں کے ساتھ ساتھ بالغوں کو ایسی اہم اطلاعات اور مفید معلومات سے پرے کیوں کر رکھا؟ کیا کسی بہت بڑے کے کہنے پر۔ بہت بڑے مگر مچھ یا بہت بڑے سرمایہ دار جاگیردار یا بلڈر یا باڈی بلڈر کی ہدایت پر؟

افسوس ہے کہ آپ نے ملک میں ہونے والی ایک بہت بڑی دہشتگردی سے لوگوں کو بے خبر رکھا۔ یہی نہیں آپ نے لوگوں ایسے انوکھے دہشتگردوں کے نظارے سے بھی محروم رکھا جو کہ کھلے عام ایسا اسلحہ خرید رہے تھے جس کو دیکھ کر پاکستانیوں کی اکثریت کی روح تک کانپ جاتی ہے اور وہ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ ایسا اسلحہ جو کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بھی بڑے پیمانے پر بکتا ہے اور اس اسلحے کی استعمال میں بھارت دنیا بھر میں پہلے نمبر پر آتا ہے، یہاں تک بیت الخلاؤں کی قلت کا شکار بھارت اس اسلحہ کی صنعت میں دنیا بھر میں تیسرے نمبر پر بھی آتا ہے اور دنیا کی ساتویں بڑی جوہری طاقت کے عوام و خواص اس سے اس طرح سے بھاگتے ہیں جیسا کہ کوا غلیل سے۔ یہ تو اچھا ہوا کے اس ہتھیار کے کھلے عام فروخت کے ایک دو تصویریں فیس بک پر آ گئیں اور لوگوں نے دہشت انگیز نظارہ دیکھ لیا او رجس نے بھی دیکھا انگشت بدنداں رہ گیا: ”اف۔ یہ دہشتگرد تو کتابیں خرید رہے ہیں!“

یہی نہیں ایسے ہی اسلحہ کے ایک خریدار و تیار کنندہ نامور ادیب و مورخ گل حسن کلمتی صاحب پر بھی دہشتگردی کا مقدمہ دائر کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ ان کا قصور اگر کچھ ہے تو صرف بہت سا پڑھنا اور بہت سا لکھنا۔

ہو سکتا ہے کہ ہم جیسے کسی ”جانبدار“ انسان کی رائے ان کی بے گناہی کے سلسلے میں کوئی وزن نہ رکھتی ہو لیکن محترمہ نور الہدیٰ شاہ جو کہ بحریہ ٹاؤن کے خلاف دھرنے کی حامی تھیں، اور بعد میں شاید کچھ ”اسباب“ پر مظاہرین سے سخت برگشتہ بھی محسوس ہوئیں وہ بھی گل حسن کلمتی کی حمایت میں ٹویٹ کرنے پر مجبور ہو گئیں۔ ان کا اپنی ٹویٹ میں کہنا ہے کہ: ”گل حسن کلمتی سندھ کا علمی سرمایہ ہیں۔ علم کا ایسا خزانہ ہیں، جس کے ذریعے سندھ کی زمین پر موجود تمام تاریخی نشانات کی نشاندہی ہوتی ہے۔ گل حسن کلمتی نے ہی سب سے پہلے بحریہ ٹاؤن تلے مسلسل دفن ہوتی مقامی آبادی کی نشاندہی کی تھی۔“ بقول ان کے، ”گل حسن کلمتی پر دہشتگردی کی ایف آئی آر سندھ حکومت کا جرم سمجھی جائے گی۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments