پطرس بخاری کا خط


پیارے اور عزیز از جان، عدیل!
سلام مسنون،

ویسے تو تم جانتے ہو کہ میں رسوم و قیود کا بالکل بھی پابند نہیں، کیونکہ میرا خیال ہے جو دماغ رسوم و قیود کا پابند ہو اس کی آزادی بلکہ دماغی آزادی سلب ہو جاتی ہے۔ قیود دماغ کبھی بھی ادب میں طرائے امتیاز کے علمبردار نہیں ہو سکتے، طرۂ امتیاز کے حامل نہیں ہو سکتے اور نہ ہی بڑا ادب پیدا کر سکتے ہیں۔ خیر تفنن بر طرف، سنا ہے اور دیکھا بھی رہا ہوں کہ آج کل گورنمنٹ کالج، لاہور میں سب کچھ تہس نہس بلکہ تہ و بالا ہو رہا ہے۔

ابن الوقتوں کی راجدھانی قائم ہو رہی ہے۔ معظم علی جیسے کردار اس درس گاہ پہ چھاجوں برس رہے ہیں۔ اگر ایسا ہو رہا ہے تو پیارے عدیل، تم بڑے تاریخی وقت میں جی رہے ہو ایسے ہی جیسے ہمارا دور تھا۔ عزیزی! آج بھی، جب جب گورنمنٹ کالج کا ذکر سنتا ہوں، یا کہیں پڑھتا ہوں تو یقین جانو میرا جسم لحد سے باہر نکلنے کو ہوتا ہے، رہی بات میری روح کی تو وہ تو اب تک گورنمنٹ کالج کی راہ داریوں میں ہی گردش کناں رہتی ہے۔ گورنمنٹ کالج اب تک میرے رگ و پہ میں خون کی مانند دوڑتا ہے۔

بجلی کی طرح کڑکتا ہے۔ کیا سنہری دن تھے جب میں گورنمنٹ کالج میں تھا! جان دل! بیشک میں بعد کو اقوام متحدہ کا ہو گیا، پردیسی زمین میں جا بسا، لیکن ہر پل گورنمنٹ کالج میں گزرے شب و روز کو یاد کیا کرتا تھا۔ اس کے باوجود واپس آنے کا دل بھی نہ کرتا تھا۔ خیر چھوڑو ان باتوں کو، تم بھی سمجھو گے کہ پطرس کہولت زدہ ہو گیا ہے، مارکیز کے بوڑھے کردار کی طرح ماضی کو یاد کر کے جینا چاہتا ہے، اسی لیے ماضی کو یاد کرتا ہے!

لیکن میں تمھیں بتاتا چلو، کہ میں اب تک جوان ہوں، شجیع ہوں، سخن فہم، سخن رس، سخن طراز اور سخن کار بھی، کچھ حد تک شکیل و سجل بھی! مجھے گورنمنٹ کالج پہ اب تک ناز ہے اور شاید تا قیامت رہے۔ تم اس کا سبب نہیں پوچھو گے؟ چلو نہ پوچھو، میں خود ہی عرض کیے دیتا ہوں! انبساط و مباہات و فخر کی بات یہ ہے کہ، گورنمنٹ کالج میں آج تک میرے خلاف محشر برپا نہیں ہوا، ذری سی، پر کاہ جتنی بھی، پھسپھسی سی تنقید کی چنگاری تک میرے خلاف نہیں اٹھی۔

مجھے یونانی دیوتا کی مانند پوجا ہی جا رہا ہے۔ اک دیو مالائی یا اساطیری کردار بن کے رہ گیا ہوں۔ دیکھو یہ شکوہ، یہ جلال، طلسم، یہ جنون اب تک دائم ہے۔ اس فخر سے بعض اوقات میں شادیٔ مرگ میں مبتلا ہوتے ہوتے رہ جاتا ہوں۔ تم بھی کہو گے کہ اس میں کیا اچنبھا ہے! جگر گوشے! اس میں سراسر اچنبھا اور استعجاب ہی تو ہے، بے شک ہم تنقید پڑھاتے تھے، قلم کی بے خود جوانی اور جولانی سے بہت سوں کے خاکے اڑاتے تھے، خاک چٹاتے تھے، معرکہ آرائیوں سے گورنمنٹ کالج کی شان بڑھاتے تھے، ادبی معاملات میں چٹکیاں لیتے تھے لیکن خود تنقید سے بہت ڈرتے تھے، اپنے خلاف کچھ بھی نہ سن سکتے تھے۔

اگر سن بھی لیتے تو کئی کئی دن تک حالت پتلی رہتی۔ بدلے کی آگ میں کباب ہوتے رہتے تھے۔ یہ باتیں اور یہ راز بھی ظالم و سفاک ن۔ م۔ راشد آشکار کر گیا، نہیں تو ہماری عظمت برابر قائم رہتی، خیر یہ بات کم ہی لوگ جانتے ہیں۔ تمھیں تو اس لیے بتا رہا ہوں کیوں کہ تم راشد آشنا جو ٹھہرے۔ یار، مگر وہ وقت بڑا یاد گار تھا! کاش، تب بھی کوئی سہیل وڑائچ ہوتا۔ لیکن شکوہ کیسا، تب سہیل وڑائچ کی کمی محمد طفیل المعروف محمد نقوش نے پطرس نمبر نکال کر پوری کر دی تھی۔

دیکھو نا اب پطرس نمبر بھی دار المطالعہ کی الماریوں میں پڑا پڑا دیمک زدہ ہو چکا ہے۔ تمھاری، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی پریس اس کی اشاعت نو کا اہتمام کیوں نہیں کرتی؟ یار یہ بے وفائی ہے۔ اپنی مقتدرہ کے گوش گزار کرو یہ بات؟ یہ مت سمجھنا کہ انتقال کے بعد بھی میرا مشہور کا شوق نہیں گیا۔ یہ تو اپنی عادت ہے پیارے!

یار جانی! یہ حقیقت ہے کہ تب گورنمنٹ کالج زندہ تھا، اس کے لوگ زندہ دل تھے، زندہ دلی کی گورنمنٹ کالج میں آمریت تھی۔ اب تو گورنمنٹ کالج مردہ ہو چکا ہے، مردہ دل لوگوں نے یہاں بسیرا کر لیا ہے۔ اب تو میری روح کا دل بھی گورنمنٹ کالج سے اوبھنے لگ گیا ہے۔ یار ہمارے زریں عہد میں، استاد نہیں، جبال علم ہوا کرتے تھے، اک کہکشاں ہوا کرتی تھی جو طلباء کے لیے جیا کرتی تھی۔ مگر اب تو گورنمنٹ کالج اک لق و دق صحرا بن چکا ہے۔

جنتی ہاو ہو ہے، اتنا ہی پھیکا ہے، بانجھ ہے۔ پیارے عدیل! آج کے گورنمنٹ کالج کے سرخوں سے بچ کے رہنا، سگ سے بھی زیادہ یہ لوگ برے اور زہر آلود ہیں، ہر وقت کاٹنے کو دوڑتے ہیں، زہر میں بجھے ہوئے تیروں سے وار کرتے ہیں، منافقانہ روش اختیار کرتے ہیں۔ شعبہ انگریزی، مجلس مباحث اور مجلس اداکاری میں بھی انھی کی اجارہ داری اور آمریت ہے۔ ہائے! شعبہ انگریزی ادب میں تو جیسے جھاڑو ہی پھر گیا ہے۔ تمھیں سچ بتاؤں، میری روح شعبہ انگریزی ادب کی طرف جانا تو کیا، رخ کرنا بھی پسند نہیں کرتی۔ کبھی گورنمنٹ کالج کا دل ہوا کرتا تھا انگریزی ادبیات کا شعبہ! اب مجھے کلی کرنا پڑے گی کیونکہ میری زباں پہ خشک اور پس مردہ شعبے کا نام آیا ہے۔ البتہ تاریخ، فلسفے اور اردو ادبیات کے شعبے میں کچھ کرنے اور کر دکھانے کی تڑپ باقی ہے۔ اب دیکھیے یہ شعبے کیا کیا کار ہائے نمایاں سر انجام دیتے ہیں۔

مجھے لگتا ہے خط کچھ زیادہ ہی طول پکڑتا جا رہا ہے، تمھیں تو پتا ہی ہے کہ میں اختصار کا، اور اختصار ہی میں گرہ کی بات کہنے کا، کتنا قائل اور پابند ہوں۔ ویسے اب تمھارے گورنمنٹ کالج، کیونکہ میرا کالج ایسا نہ تھا، میں کام کم اور مشہوری زیادہ ہوتی ہے۔ تمھارے کالج میں Populism کی روایت چپکے چپکے رواج اور راہ پا رہی ہے۔ راحت قلب و جگر، عدیل! یاد رکھو، لوگ مشہوری کم، اور کام زیادہ یاد رکھتے ہیں، اب تک ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ہوتا رہے گا۔ ہمارا تو اک ہی اصول تھا اور یہی بات ہم نے اپنے ماتحتوں کو بھی سمجھائی اور چٹائی تھی کی عہد حکمرانی میں قوانین آمریت کی طرح لاگو کرو، مگر اپنی سوچ اور فکر کو ہمیشہ لچکدار رکھو!

باقی باتیں پھر کبھی سہی۔ اگر میری باتیں تم پہ شاک گزریں تو گزرنے دینا، کیونکہ یہ کڑوا سچ ہے، جس نے مجھ ایسے نرم دل، بذلہ سنج، برق دم، طرار دماغ اور فطین انسان کو تلخ نوائی پہ اکسایا ہے۔ میٹھا میٹھا ہپ، کڑوا کڑوا تھو۔

وسلام
سید احمد شاہ بخاری
المعروف پطرس بخاری
نیویارک، امریکہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments