افغانستان میں ملکی مفاد بھی مدنظر رکھنا ہوگا


افغانستان سے امریکی فوجی انخلا جاری ہے لیکن اس وقت اصل پریشانی کی بات یہ ہے کہ انخلا مکمل ہونے کے بعد کیا ہوگا؟ دوسرے لفظوں میں یہ کہ کیا غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد ایک مرتبہ پھر افغان سرزمین خانہ جنگی کا شکار تو نہیں ہوگی؟ افغانستان چار دہائیوں سے تندور سے بڑھ کر دہک رہا ہے اور اس کی حدت تمام خطے کو لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ گزشتہ سال طالبان اور امریکا کے مابین قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے امن معاہدے کے بعد اس آگ کے سرد پڑنے کی امید پیدا ہوئی تھی لیکن بعد ازاں امریکا نے افغان متحارب قوتوں کے مابین کسی واضح بندوبست کی تکمیل سے قبل ہی انخلا شروع کر دیا جس کی وجہ سے افغان سرزمین ایک بار پھر خانہ جنگی کے دہانے پر کھڑی ہے۔

افغانستان کا مستقبل ایک مرتبہ پھر انتہائی غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہے۔ بین الافغان مذاکرات پچھلے کئی مہینوں سے تعطل کا شکار ہیں جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ فریقین کے درمیان پرتشدد کارروائیوں میں بے پنا اضافہ ہو گیا ہے۔ دونوں اطراف سے ایک دوسرے کو مارنے کی اطلاعات آ رہی ہیں۔ طالبان جن کی پہلے ہی ملک کے بڑے حصے پر عملداری قائم تھی، انہوں نے حالیہ دنوں کے دوران اپنی کارروائیوں میں مزید شدت پیدا کرلی ہے کہ اور بڑی تیزی سے ملک کے کئی صوبوں میں ان کی پیشقدمی جاری ہے۔

لہذا یہ بات تو طے ہے کہ افغان کسی بین الافغان معاہدے یا وسیع البنیاد عبوری حکومت پر اب پر امن انداز سے آمادہ نہیں ہوں گے۔ بین الافغان مذاکرات اب تک نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ افغان طالبان خود کو افغانستان کا حقیقی اسٹیک ہولڈر اور اشرف غنی حکومت کو کٹھ پتلی تصور کرتے تھے۔ ان کا بنیادی مطالبہ افغان سر زمین سے غیر ملکی افواج کا انخلا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ قابض افواج وہاں سے نکل کر افغانوں کو اپنا سیاسی مستقبل خود طے کرنے دیں جبکہ دوحہ مذاکرات کے بعد کچھ عرصہ تک امریکا کسی عبوری حکومت کے قیام کا عندیہ دیتا رہا لیکن صاف نظر آتا رہا کہ یہ منصوبہ قابل عمل نہیں ہوگا۔

عبوری حکومت کا تجربہ تیس سال پہلے اس وقت بھی کیا گیا تھا جب سویت افواج افغانستان سے نکل رہی تھیں۔ اس عبوری حکومت نے افغانستان کو طویل خانہ جنگی میں دھکیل دیا تھا اور اسی حکومت کی وجہ سے افغانستان میں بیرونی مداخلت کی راہیں ہموار ہوئیں۔ افغانوں کے کسی سیاسی بندوبست پر اتفاق میں ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ افغانستان میں مختلف وار لارڈز موجود ہیں جو اقتدار میں اپنے لیے زیادہ سے زیادہ حصے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ ماضی میں جب سویت فوج افغان سر زمین سے نکلیں اور عالمی طاقتوں نے بھی افغانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا تو وہاں بدترین خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی۔ جس کے اثرات افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان بلکہ پورے خطے پر پڑے اور آج تک بد امنی سے یہ خطہ پوری طرح نہیں نکل سکا۔

اب بھی خدشہ یہی ہے کہ امریکی انخلا کے بعد تمام وار لارڈز ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہوں گے۔ اہم سوال مگر یہ ہے کہ اس کے بعد افغان سر زمین کی کیا صورت حال ہوگی؟ کیا ماضی کی طرح ایک بار پھر طالبان ہی افغانستان میں بلا شرکت غیر برسر اقتدار ہوں گے؟ میرا خیال ہے کہ اس کا امکان اس بار قدرے کم ہے۔ یہ درست ہے کہ طالبان اب بھی ملک کے بڑے حصے پر قابض ہیں اور آنے والے دنوں میں وہ اپنی عملداری میں اضافہ کریں گے۔

لیکن یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ طالبان پوری افغان آبادی کی نہیں بلکہ صرف پختونوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ پختونوں کے علاوہ افغانستان میں ہزارہ، تاجک، ازبک وغیرہ بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں اور انہیں بھارت، ایران، روس اور وسط ایشیائی ریاستوں کی مدد اور حمایت حاصل ہے۔ ہزارہ برادری پچھلے چند سالوں میں تیزی سے مضبوط ہوئی ہے اور اس میں ایک بڑا مسلح گروپ تشکیل پا چکا ہے جو طالبان کے ساتھ لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ افغان فورسز پختون علاقوں کو طالبان کے قبضے میں جانے سے محفوظ نہیں رکھ سکتیں لیکن کابل پر حملے کی صورت گھمسان کی جنگ ہوگی جس کا نتیجہ بڑی خوں ریزی اور وسیع نقل مکانی کی صورت نکلے گا۔

افغانستان میں نسلی اور فرقہ وارانہ خانہ جنگی بڑھی تو اس کے سب سے زیادہ اثرات ہمارے ملک پر پڑیں گے۔ افغانستان میں قتل و غارت گری اور خانہ جنگی پاکستان کی داخلی سلامتی کے لیے اس لیے بھی تباہ کن ہے کیونکہ اس صورت ہمارے ہاں مہاجرین کا سیلاب امڈ آئے گا۔ ہماری معیشت پہلے ہی تباہی کے کنارے پر ہے۔ افغان خانہ جنگی کے باعث امن وامان کی صورتحال بگڑتی ہے اور ماضی کی طرح وہاں سے مہاجرین کے سیلاب کی آمد ہوئی تو معاشی طور پر ملک بالکل مفلوج اور دیوالیہ ہو جائے گا۔

شاید اسی لیے پاکستان کی سوچ میں حالیہ عرصے میں تبدیلی آئی ہے اور وہ اپنے دوست ممالک جیسے ترکی، سعودی عرب وغیرہ کے ساتھ مل کر افغانستان میں ایک ایسی حکومت کا خواہشمند ہے جو وسیع البنیاد ہو۔ جس میں طالبان کے ساتھ ساتھ شمالی اتحاد اور دیگر تمام اسٹیک ہولڈرز کی نمائندگی بھی شامل ہو۔ یہ سچ ہے کہ طالبان افغانستان کی سب سے بڑی قوت ہیں اور اقتدار پر سب سے زیادہ ان کا حق ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ وہ اکیلے پورے افغانستان پر حکومت نہیں کر سکتے۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ کی سوچ میں آنے والی اس تبدیلی کو روس، چین، ترکی، ایران اور عالمی طاقتوں کی بھی مکمل تائید حاصل ہے۔

مسئلہ مگر یہ ہے کہ افغانستان میں بر سر پیکار قوتوں کو اس بات پر کون اور کس طرح راضی کرے گا؟ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دیگر تمام علاقائی قوتوں سے زیادہ افغانستان میں امن ہمارے لیے ضروری ہے۔ ماضی میں پاکستان کے ریاستی ادارے افغان طالبان پر اپنا اثر و رسوخ رکھتے تھے لیکن بہت سی وجوہات کے سبب اب وہ پہلے جیسی بات نہیں رہی طالبان کو مکمل جنگ کی طرف جانے سے روکنا لہذا ہمارے ریاستی اداروں کے لیے چیلنج ہوگا۔

یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن پاکستان کو طالبان اور ان کے مخالف گروہوں کے درمیان کسی قسم کے سیاسی معاہدہ کے لیے بھرپور کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ لیکن ایک اور بات جس کا دھیان رکھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ غیر جانبداری کی پالیسی اچھی بات ہے لیکن ہمارے ملکی مفادات کا تقاضا ہے جہاں تک ہو سکے ہمیں افغان سر زمین پر اپنے مفادات کا تحفظ بھی یقینی رکھنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments