لوڈ شیڈنگ کا مارا آشفتہ سر میر پوری


جی ہاں میرا تعلق میرپور سے ہے وہ شہر جس کے باسیوں نے منگلا ڈیم کی خاطر ایک بار نہیں بلکہ دو بار اپنے پیاروں کی قبروں تک کو پانی کی نذر کیا۔ آزاد کشمیر کا وہ شہر جس کی اہمیت سے ڈوگرہ دور میں بھی کوئی انکاری نہیں تھا۔ وہ شہر جہاں سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن ملکی ترقی میں دامے درمے سخنے اپنا کردار نبھا رہے ہیں۔ جب کالا باغ ڈیم کو بنجر زمین پر نہیں بنانے دیا جا رہا تھا اس وقت میرپور کے لوگوں نے اس چھوٹے سے خوبصورت شہر کی زرخیز زمین کو منگلا ڈیم اپ ریزنگ کی نذر کر دیا۔

الفاظ سخت ضرور ہیں مگر یہ ایک حقیقت ہے جس پر اہالیان میرپور نہ صرف فخر کرتے ہیں بلکہ ہر لمحہ وطن عزیز کی خاطر اپنے تن من دھن کی بازی لگانے کو تیار بیٹھے ہیں۔ بات قرض مکاؤ مہم کی ہو، یا ایٹمی دھماکوں کے بعد لگنے والی معاشی پابندیوں کی۔ اس شہر کے لوگوں نے پاکستان کے عشق میں، پاکستان کی بقاء کی خاطر وہ قرض بھی اتارے جو واجب نہ تھے۔ بقول افتخار عارف

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے۔

موجودہ وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان بار ہا اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ شوکت خانم کی فنڈ ریزنگ میں اہالیان میرپور کا تعاون بے مثال تھا۔ غرض یہ کہ جب جب وطن عزیز پر کڑا وقت آیا۔ اس شہر کے لوگوں نے حقیقی معنوں میں تن من دھن کی بازی لگا دی۔

اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے آبا و اجداد کی قبروں کو غرق ہوتے دیکھنا ایک صبر آزما لمحہ ہوتا ہے۔ محبت و خلوص سے بنے گھروں کو پانی کی نذر کرنا آسان نہیں ہوتا۔ ہجرت کبھی آسان نہیں ہوتی۔ برسوں سے ساتھ رہنے والوں سے بچھڑنا بھی ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ مگر آفرین صد آفرین اس شہر کے لوگوں کے جذبہ حب الوطنی پر کہ انہوں نے 1965 اور 2010 میں پاکستان کی بقاء کی خاطر یہ سارے دکھ جھیلے۔

اتنا کچھ قربان کرنے کے بعد ملا کیا؟ لوڈ شیڈنگ، اوور بلنگ، انتہائی کم وولٹیج۔ یقین جانیئے میں جو بجلی کا بل اسلام آباد میں اپنے گھر کا ادا کرتا ہوں۔ اس کے مقابلے میں میرپور میں میرے آبائی گھر کا بل کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔ بلکہ اضافی جارجز، اور بلنگ وغیرہ کا پلندا کہہ لیجیے۔ منگلا ڈیم کے کنارے آباد اس شہر کے مکین بجلی کو ترستے ہیں۔ غیر علانیہ اور غیر معینہ مدت لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔

اور جو چند گھنٹے بجلی آتی ہے وہ بھی انتہائی کم وولٹیج پر۔ جس سے پنکھا بمشکل چلتا ہے۔ کوئی ٹرانسفارمر خراب ہو جائے تو کہیں کہیں دن واپڈا کا سٹاف اس طرف دیکھتا تک نہیں۔ جب تک لوگ اپنی مدت آپ کے تحت ٹھیک نہ کروا لیں۔

لکھنے کو بہت کچھ ہے۔ جو لکھا وہ بھی بڑی اضطرابی اور بے چینی کی کیفیت میں۔ مگر لہو میں شامل پاکستان سے وفا مجھے پاکستان کے لٹیرے حکمرانوں سے بھی گلے شکوے رقم طراز کرنے نہیں دے رہی۔ فقط اتنا کہوں گا اس شہر کی چوتھی نسل پاکستان سے محبت میں قربانیاں دے رہی۔ خدارا کچھ خیال کیجئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments