خبر تو شائع نہیں ہوسکی ، تردید البتہ حاضر ہے


منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت صدیقی نے ایک تحریری بیان میں سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ کس طرح ایک حساس ادارے کےاہل کار جن میں ادارے کے موجودہ سربراہ بھی شامل تھے،ان سے ملاقات کرکے فیصلوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتے رہے تھے۔ آج کی سماعت میں وفاقی حکومت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے ذریعے عدالت کو بتایا ہے کہ ریاست کے بعض افسروں پرشوکت صدیقی کے الزامات ’بے بنیاد اور گمراہ کن‘ ہیں۔ حیرت ہے کہ اب سیاسی اور عدالتی معاملات میں فوجی افسروں کی مداخلت سے انکار کا فریضہ بالآخر وفاقی حکومت نے سنبھالا ہے۔ اس سے پہلے یہ کام آئی ایس پی آر خود سرانجام دیتا رہا ہے۔

اس معاملہ کا یہ پہلو بھی دلچسپ اور اہم ہے کہ جو میڈیا دو روز تک ان ہوشربا انکشافات پر خاموشی اختیار کئے ہوئے تھا، اسے وفاقی حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ کو فراہم کی گئی تردید کے بعد اسے شائع کرنے اور عام لوگوں تک پہنچانے کا خیال آگیا۔ کسی بھی اہم اخبار یا میڈیا نے یہ سوچ کر تردید شائع یا نشر کرنے کو غیر ضروری نہیں سمجھا کہ جب اصل خبر ہی شائع نہیں ہوئی تو اس کی تردید شائع کرنے کا کیا فائدہ ہوگا۔ یوں تو شوکت صدیقی کے بیان میں عوام الناس کی ’دلچسپی‘ کا اتنا سامان موجود تھا کہ ساری تفصیلات ویب سائیٹس اور سوشل میڈیا کے ذریعے بچے بچے تک پہنچ چکی تھیں لیکن پھر بھی حکومتی تردید کا یہ فائدہ ضرور ہؤا کہ مین اسٹریم اخبارات نے حکومت کا انکار بھی شائع کردیا اور اس حوالے سے شوکت صدیقی کا اصل بیان اور اس کی وجہ تسمیہ سے بھی اپنے قارئین کو آگاہ کردیا۔ اس لئے سوچنا چاہئے کہ تردید کے ذریعے حکومت نے آخر کون سا مقصد حاصل کیا۔

جیسا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ ’وفاقی حکومت نے اس اپیل میں ابھی تک کوئی جواب جمع نہیں کروایا کیوں کہ عدالت عظمی ابھی یہ غور کررہی ہے کہ اپیل آئین کی شق 211 کے تحت قابل سماعت ہے بھی یا نہیں۔ تاہم ریاست کے بعض افسروں کے بارے میں مخصوص الزامات عدالت میں پڑھ کرسنائے گئے ہیں۔ اس لئے حکومت یہ واضح کرنا چاہتی ہے کہ یہ الزامات بے بنیاد اور گمراہ کن ہیں‘۔ گویا جس معاملہ میں ابھی تک یہی فیصلہ نہیں ہؤا کہ مقدمہ سنا بھی جائے گا یا نہیں اور کیا شوکت صدیقی کی اپیل آئینی تقاضے پورے بھی کرتی ہے اور جس معاملہ میں وفاقی حکومت ابھی تک فریق نہیں ہے پھر بھی عدالت میں کی جانے والی باتوں کا نوٹس لینا اور بعض الزامات کا انکار کرنا ضروری سمجھا گیا۔

اس سے اس معاملہ کی حساسیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ اس کا تعلق ملک کے طاقتور عسکری اداروں اور ملکی سیاست سے ہے۔ گزشتہ سال اکتوبر میں پاکستان جمہوری تحریک کے زیر اہتمام گوجرانوالہ میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے فوج پر اپنی حکومت ختم کروانے کا الزام لگایا تھا۔ انہوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا نام لے کر مسلم لیگ (ن) کے خلاف سیاسی سازش کرنے کا الزام عائد کیا اور مطالبہ کیا تھا کہ ملکی معاملات آئینی طریقہ کے تحت کسی اثر و رسوخ کے بغیر منعقد ہونے والے انتخابات کے ذریعے عوامی نمائیندوں کے ذریعے طے ہونے چاہئیں۔ اور سیاست میں عسکری اداروں کی مداخلت بند ہونی چاہئے۔ اس سے پہلے بھی سیاسی لیڈر ڈھکے چھپے انداز میں اسٹبلشمنٹ پر سیاسی معاملات میں مداخلت کا الزام عائد کرتے تھے لیکن یوں کھل کر فوج اور آئی ایس آئی کا نام لیتے ہوئے مداخلت کا الزام لگا کر نواز شریف نے ملکی سیاست میں ہیجان پیدا کردیا تھا۔ اسی کے نتیجہ میں پی ڈی ایم کو کمزور کرنے اور ’ووٹ کو عزت دو‘ کے منشور کو ناکام بنانے کے لئے کچھ اقدامات بھی دیکھنے میں آئے لیکن فوج یا اس کی طرف سے وفاقی حکومت نے کبھی بھی نواز شریف کے الزامات کا براہ راست جواب دینے یا ان کی تردید کرنے کی ’ضرورت‘ محسوس نہیں کی۔

شوکت صدیقی نے سپریم کورٹ کو دیے گئے بیان میں دراصل اسی مؤقف کو دہرایا تھا۔ اگرچہ اس کا فوکس عدلیہ پر دباؤ کا معاملہ تھا لیکن شوکت صدیقی کے بیان میں یہی کہا گیا تھا کہ آئی ایس آئی کے موجودہ سربراہ جب جون 2018 میں ان سے گھر آکر ملے تھے تو انہوں نے خاص طور سے پوچھا تھا کہ پاناما کیس کی اپیل آنے پر وہ کیا فیصلہ کریں گے۔ اور یہ جواب ملنے پر کہ شوکت صدیقی اس کا فیصلہ قانونی تقاضوں اور جج کے طور پر حلف کے مطابق کریں گے جنرل فیض حمید نے برجستہ کہا تھا کہ ’یوں تو ہماری دو سال کی محنت ضائع ہوجائے گی‘۔ انہی ملاقاتوں میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے بنچ بنوانے پر اثر و رسوخ کے علاوہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے حوالے سے یوں بات کی گئی تھی کہ جیسے سب معاملات ’مینیج‘ کئے جاسکتے ہیں۔ شوکت صدیقی کو بطور جج قومی مفاد میں ’تعاون‘ کی درخواست کرتے ہوئے جنرل فیض حمید کا یہ بھی کہنا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے انہیں طلب کیا تھا اور پوچھا تھا کہ ’جج صاحب کیا چاہتے ہیں‘۔ اس بیان میں یہ انکشاف بھی کیا گیا تھا کہ فوج کے سربراہ اس صورت حال سے کبیدہ خاطر تھے اور انہوں نے جنرل فیض حمید سے کہا تھا کہ ’تم سے ہائی کورٹ کا ایک جج ہینڈل نہیں ہوتا‘۔

شوکت صدیقی کا یہ بیان دراصل نواز شریف کے گوجرانوالہ والی تقریر میں اختیار کئے گئے مؤقف کی تائد کرتا ہے۔ یوں ایک سیاسی الزام کو ایک سابق جج کے مؤقف کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے سیاست سے نابلد پاکستانی بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوگا کہ دو مختلف لوگ ایک ادارے کی زور زبردستی کے بارے میں ایک سی باتیں کررہے ہیں تو ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔ شاید اسی خوف کی وجہ سے اب وفاقی حکومت کے ذریعے شوکت صدیقی کے بیان کی تردید کرنا ضروری سمجھا گیا ہے۔ اس تردید کے بعد قیاس کیا جاسکتا ہے کہ نظام میں کہیں نہ کہیں یہ پشیمانی بھی موجود ہے کہ نواز شریف کے الزامات کا براہ راست جواب نہ دے کر غلطی کی گئی تھی لیکن اب بھی اگر ویسے ہی الزامات پر کوئی تردید سامنے نہ آئی تو صورت حال مشکوک ہوجائے گی۔ اور فوج اور اس کے متعلقہ اداروں کے علاوہ اس کے ذمہ دار افسروں کی نیک نیتی پر سوالات سامنے آنے لگیں گے۔

نواز شریف کی تقریر کا جواب نہ دینے کا فیصلہ کسی مصلحت کے تحت ہی کیا گیا ہوگا۔ کیوں کہ نواز شریف تین بار ملک کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ افراد کا نام لے کر بعض حقائق بیان کرنے پر اگر ان کا سامنا کیا جاتا تو نظام کے نگہبانوں کو یہ اندیشہ بھی ضرور ہوگا کہ ضد اور اشتعال میں نواز شریف کچھ مزید ایسے حقائق سے پردہ نہ اٹھادیں جن سے فرار کا کوئی راستہ تلاش نہ کیا جاسکے۔ اس لئے خاموشی ہی میں عافیت سمجھی گئی۔ اس کی بجائے پاکستان جمہوری تحریک میں دراڑ ڈالنے، سینیٹ انتخاب میں پی ڈی ایم کی جماعتوں کو ایک دوسرے کے سامنے لانے اور چئیر مین سینیٹ کے انتخاب میں اپوزیشن کی اکثریت کے باوجود یوسف رضا گیلانی کی یقینی جیت کو شکست میں تبدیل کرکے سیاسی صورت حال کو عقلمندی سے ’مینیج‘ کرنے کا اہتمام کیا گیا۔ اسی دھچکے کی وجہ سے اپوزیشن کا اتحاد پارہ پارہ ہوگیا اور تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف زور پکڑتا احتجاج ختم ہوگیا۔ شہباز شریف کی ضمانت پررہائی اور ’مصالحت کے لئے عمرانی معاہدہ‘ کی گفتگو سے تو اب مسلم لیگ (ن) کو بھی اسی قطار میں کھڑا کرلیا گیا ہے جس کا راستہ شیخ رشید کے بقول جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر 4 سے ہوکر جاتاہے۔

تاہم سپریم کورٹ میں شوکت صدیقی کے بیان اور ’الزامات ‘ یا انکشافات کے بعد بنابنایا کھیل بگڑنے کا اندیشہ تھا۔ اس لئے اس کی تردید کرکے ’ریکارڈ درست‘ رکھنا ضروری تھا۔ یوں بھی ہائی کورٹ کے ایک ایسے سابق جج کے بیان کو مسترد کرنا آسان ہے جس کے طرز عمل کو سپریم جوڈیشل کونسل کسی ’جج کی شان کے برعکس‘ قرار دے چکی ہے۔ اور جس کے مقدمہ کی سماعت کے دوران بنچ میں شامل جج بار بار یہی نکتہ اٹھا رہے ہیں کہ ’آپ نے اندر کی باتیں تقریر میں کیوں بیان کردیں ۔ اور اداروں کے وقار کا کیوں خیال نہیں رکھا‘۔ شوکت صدیقی کو جھوٹا کہنے سے وہ اندیشہ بھی لاحق نہیں ہوگا جو کسی الزام کی تردید کرتے ہوئے نواز شریف کو دروغ گو کہنے سے ہوسکتا تھا کہ وہ کوئی مزید ’ریاستی راز‘ فاش نہ کردیں۔ شوکت صدیقی کے پا س جو راز تھے، وہ اب فاش ہوچکے ہیں ۔ بظاہر اب ان کی پٹاری خالی ہے۔ اور ان کی اپیل پر سماعت کرنے والے جج حضرات ایک طے شدہ معاملہ کی سماعت کررہے ہیں۔ بس تمت باالخیر کا اعلان ہونا باقی ہے۔ وفاقی حکومت نے اس صورت حال سے فائدہ اٹھا کر ریکارڈ درست کرنا ضروری سمجھا ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آسکے۔

اس قضیہ میں البتہ ہر پاکستانی کے دل میں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ کیا یہ نظام اسی طرح چلتا رہے گا۔ کسی جج کی دیانت کی تصدیق کے بعد اسے جھوٹا کہا جائے تاکہ بعض مقدس اداروں کے بااختیار چہروں پر شک کا سایہ دکھائی نہ دے۔ جو نوشتہ دیوار ہے اور جسے چھپانے کی بظاہر کوئی خاص کوشش و خواہش بھی دکھائی نہیں دیتی، اس سے انکار کا فائدہ کس کو ہوگا۔ کہیں انکار کے لئے دی گئی وضاحت، تصدیق کا سبب تو نہیں بن جائے گی۔ اور کیا واقعی خود ساختہ مگر غیر آئینی بیساکھیوں پر کھڑا کیا گیا نظام تردید اور انکار کے سہارے ہمیشہ چلتا رہے گا۔

میڈیا پر کنٹرول، سیاست دانوں کی آوازوں پر گرفت اور معاملات مینیج کرنے کی صلاحیت عوام کی مایوسی سے پیدا ہونے والے غم و غصہ کا سامنا نہیں کرسکے گی۔ سب کی عزت و آبرو کے لئے بہتر ہوگا کہ اس سچائی کو جلد از جلد مان لیا جائے ۔ ورنہ پاکستان کا ماضی اس حوالے سے بعض سفاک ابواب کا امین ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments