فردوس عاشق کی الحمدللہ اور اعظم سواتی کا قضائے الہٰی پر ایمان


حضرتِ غالبؔ تو شعری ترنگ میں کہہ گئے کہ مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں، مگر ہمیں جن حادثات کا سامنا ہے، وہ وَقت گزرنے کے ساتھ ساتھ محشربداماں بنتے جا رہے ہیں۔ گزشتہ پیر کی رات آخری پہر سندھ میں ریتی ریلوے اسٹیشن پر دو ٹرینیں ٹکرا گئیں جس سے قیامتِ صغریٰ ٹوٹ پڑی۔ بچوں، عورتوں اور مردوں کی چیخ و پکار آسماں تک جا پہنچی۔ رات کے اندھیرے میں امدادی کارروائیاں تاخیر سے شروع ہوئیں، تاہم پاک فوج کے جوان، رینجرز، پولیس اور مقامی افراد موقع پر پہنچ گئے اور بھاری مشینری کے ذریعے بوگیاں کاٹ کر لاشیں اور پھنسے ہوئے زخمی نکالے گئے۔ 65؍افراد موت کی آغوش میں چلے گئے اور ڈیڑھ سو سے زائد زخمی مختلف اسپتالوں کے اندر زِندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ ایسے میں پنجاب کی مشیرِ اطلاعات فردوس عاشق اعوان کی یہ خارا شگاف آواز گونجی ہے کہ الحمدللہ یہ سالِ رواں کا پہلا ٹرین حادثہ ہے۔ اُن کی تمام تر سیاسی ذکاوت الحمدللہ میں سمٹ آئی ہے کہ اللہ کا شکر ادا کیجیے کہ یہ تو اِس سال کا پہلا ٹرین حادثہ ہے، جبکہ اب تک کئی حادثے ہو جانے چاہئے تھے۔ لوگ اِس تبصرے پر اپنا کلیجہ تھام کے رہ گئے ہیں۔

حالات نے اِس المناک صورتِ حال میں ایک اور ستم کا اضافہ کر ڈالا۔ عمران خاں صاحب جو اقتدار میں آنے سے پہلے اِس عظیم پارلیمانی اصول کا تواتر سے ذکر کرتے آئے تھے کہ ٹرین حادثے کی صوت میں وزیرِریلوے کو مستعفی ہو جانا چاہئے، اُنہوں نے اُسی لہر میں ارشاد فرمایا کہ ٹرین حادثے پر وزیرِریلوے جناب اعظم سواتی کو مستعفی ہو جانا چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ مہذب دنیا کے کسی ملک میں اتنی جانیں ضائع ہو جاتیں اور سینکڑوں خاندان اجڑ جاتے، تو ریلوے وزیر کے ساتھ وزیرِاعظم یا صدرِمملکت بھی مستعفی ہو جاتے۔ وہاں کے عوام تو ایک جان کے تلف ہو جانے کا حساب مانگتے، معاملات کے نگہبانوں کو سخت سزا دَیتے اور اُنہیں میدانِ سیاست سے خارج کر دیتے ہیں۔ اعظم سواتی سے پہلے شیخ رشید ریلوے کی وزارت سنبھالے ہوئے تھے۔ اُن کے دور میں بھی ایک بڑا خوفناک ٹرین حادثہ ہوا تھا اور بڑی تعداد میں انسانی جانیں تلف ہوئی تھیں۔ عوام کا ریل کے سفر سے اعتماد اُٹھ گیا تھا۔ وہ اِستعفا دینے سے بچنے کے لیے دلائل کے انبار لگاتے رہے۔ موجودہ وَزیرِریلوے جناب اعظم سواتی نے بھی ایک جواب تراشا ہے کہ اگر میرے مستعفی ہونے سے تلف شدہ جانیں زندہ ہو جاتی ہیں، تو مَیں استعفا دینے کے لیے تیار ہوں۔ اِس کے ساتھ اُنہوں نے ریلوے کے کرپٹ افسروں کے خلاف اعلانِ جہاد کر دیا ہے۔ ایسا ہی اعلانِ جہاد اُنہوں نے ایک غریب شخص کی معمولی سی جائداد اَپنے فارم کے اندر شامل کر کے بآوازِ بلند کیا تھا جس پر سپریم کورٹ اُن کے خلاف حرکت میں آ گئی تھی اور اُنہیں لینے کے دینے پڑ گئے تھے۔

محترمہ فردوس عاشق اعوان الحمدللہ کہہ کر تسلی کا یہ پیغام دینا چاہتی تھیں کہ سالِ رواں میں پہلے ٹرین حادثے پر تشویش کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ تشویش اُس وقت ہوتی جب پے در پے کئی حادثے ہو چکے ہوتے۔ اُنہیں اِس گمبھیر صورتِ حال پر غور کرنا چاہئے تھا کہ تحریکِ انصاف کے دورِ حکومت میں ٹرین کے آٹھ بڑے حادثات ہو چکے ہیں اور اِس پر کسی کا احتساب ہوا نہ کوئی مستقبل کی منصوبہ بندی کی گئی۔ وزیروں اور مشیروں کا زیادہ تر وقت اپوزیشن کی کردارکشی یا عوام کو سہانے خواب دکھانے میں گزر جاتا ہے۔ یہ اِسی بدگمانی اور بےاعتباری کا کیا دھرا ہے کہ عمران حکومت نے بڑی محنت سے جو بعض کامیابیاں حاصل کی ہیں، اُن پر خوشی کا اظہار کم ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ بہت بڑی خبر تھی کہ دس برس بعد کویت نے پاکستان کے لیے ویزے کھول دیے ہیں، لیکن قومی حلقوں میں اُسے خاص اہمیت نہیں دی گئی۔ اِسی طرح اگر حکومت کا یہ دعویٰ حقیقت پر مبنی ہے کہ اُس نے شوگرملز مالکان سے کاشت کاروں کو گنے کی قیمت کی ادائیگی بروقت کرا دِی ہے، تو اِسے قومی زندگی کا نہایت خوش آئند واقعہ سمجھنا اور حکومت کی اچھی کارکردگی کی تعریف کرنی چاہئے، لیکن ہم نے اپوزیشن کی طرف سے کوئی اچھا جملہ نہیں سنا جبکہ بجٹ کے حوالے سے تندوتیز باتیں فضا میں تیر رہی ہیں۔

اعلیٰ پارلیمانی اور حکومتی روایات کی پابند قومیں بجٹ کو غیرمعمولی اہمیت دیتی ہیں اور اَپنی حکومتوں کو اُس سے روگردانی کی اجازت نہیں دیتیں۔ ہمارے ہاں بھی ایک زمانے تک بجٹ کی حیثیت ایک معتبر معاشی اور سیاسی دستاویز کی تھی۔ پارلیمان اور پریس اِس امر کی نگہداشت کرتے تھے کہ ملکی وسائل اِس طرح استعمال میں لائے جائیں جس طرح وہ بجٹ میں مختص کیے گئے ہیں۔ سیاسی اداروں اور سیاسی جماعتوں کی غفلت یا کمزوری یا بےبصیرتی کے باعث ایک سال میں تین تین بجٹ آنے لگے اور ایک مد کے وسائل دوسری مد میں کسی خوفِ احتساب کے بغیر خرچ کیے جاتے رہے۔ پھر جعلی اعدادوشمار کا بھی ایک طوفان اٹھا جس کے قوی اَثرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اِس ’کرشمہ سازی‘ نے اعتبار کے رشتے چکناچُور کر دیے ہیں کہ چند مہینوں کے اندر اِقتصادی نشوونما 1.5سے 3.9تک پہنچ گئی ہے۔ ایک عام شہری کے طور پر ہماری سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ ہمارے بجٹ کا زیادہ تر انحصار ڈائریکٹ ٹیکس پر ہونا چاہئے۔ جنرل سیلز ٹیکس کے نام پر ہمارے 90فی صد عوام ٹیکس ادا کرتے ہیں جبکہ بینکوں سے اربوں کے قرضے ہڑپ کر جانے اور مزدوروں کا خون چوسنے والے سرمایہ دار اَور صنعت کار بہت کم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اِس معاشرتی اور سیاسی ناانصافی سے کسی وقت بھی تباہ کن دھماکہ ہو سکتا ہے جو زندگی کا پورا ڈھانچہ تہہ و بالا کر سکتا ہے۔ معاشی ماہرین کے تجزیوں کے مطابق ہماری وفاقی حکومت اِس امر پر بہت شادیانے بجا رہی ہے کہ اِس بار محصولات چار ہزار اَرب سے تجاوز کر گئے ہیں، لیکن اُن میں اِن ڈائریکٹ ٹیکسوں کا حصّہ ستر فی صد کے لگ بھگ ہے جس کے باعث عوام ناقابلِ برداشت مہنگائی اور بےروزگاری کے ہاتھوں زندہ درگور ہوتے جا رہے ہیں۔ طبقاتی ناہمواریاں ہمیں تاریخ کے آتش فشاں تک لے آئی ہیں جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments