پاکستان بجٹ 2021-22: کیا مہنگائی کے ساتھ قوّت خرید میں اضافے کا حکومتی دعویٰ صحیح ہے؟

تنویر ملک - صحافی، کراچی


خاتون دال خریدتے ہوئے

پاکستان کے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے چند روز قبل یہ دعویٰ کیا ہے کہ ملک میں مہنگائی بڑھنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی قوتِ خرید بھی بڑھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کی قوت خرید بڑھنا ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات کی جانب سے عوام کی قوت خرید بڑھنے کا دعویٰ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک میں افراط زر کی شرح دس فیصد سے زیادہ کی سطح پر موجود ہے۔ سرکاری ادارے وفاقی ادارہ شماریات نے مئی میں مہنگائی کی شرح 10.9 فیصد ہونے کا اعلان کیا ہے، فنانس ڈویژن نے مئی کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 9.8 فیصد رہنے کی توقع کا اظہار کیا تھا۔

واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے رواں برس افراط زر کی شرح کا ہدف 6.5 فیصد رکھا ہے اور ماہرین کے مطابق مالی سال کے اختتام تک اس ہدف کا حصول مشکل نظر آتا ہے۔ پاکستان کے مرکزی بینک نے بھی سال کے اختتام تک مہنگائی کی شرح سات سے نو فیصد کے درمیان رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات کی جانب سے مہنگائی کی شرح بڑھنے کے ساتھ لوگوں کی قوت خرید میں اضافے کے دعوے کو معیشت پر نظر رکھنے والے ماہرین درست نہیں سمجھتے۔

اُن کے مطابق اگرچہ حکومت کی جانب سے جی ڈی پی میں اضافے کے اعداد و شمار پر سوالیہ نشان ہے لیکن اگر انھیں صحیح بھی مان لیا جائے تو اس کا فائدہ اتنی جلدی عام افراد کو منتقل نہیں ہو سکتا۔

وزیر اطلاعات نے قوت خرید میں اضافے کا دعویٰ کس بنیاد پر کیا؟

فواد

وزیر اطلاعات کی جانب سے قوت خرید میں اضافے کا دعویٰ حکومت کی جانب سے جاری کردہ فی کس آمدنی میں اضافے کے اعداد و شمار کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔

وفاقی سطح پر کام کرنے والی نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کے اعلامیے کے مطابق پاکستانیوں کی فی کس آمدنی میں گذشتہ سال کے مقابلے میں 13 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ کمیٹی کے مطابق گذشتہ سال فی کس آمدن 1361 ڈالر تھی جو اب 1543 ڈالر ہو گئی ہے۔

یعنی اگر پاکستانی روپے میں بات کی جائے تو فی کس آمدن گذشتہ سال 68403 تھی جو اب بڑھ کر 72 ہزار ہو گئی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت کے آخری مالی سال میں فی کس آمدنی 68705 روپے تھی۔

کراچی میں انسٹیٹوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) میں معیشت کے استاد صائم علی کا کہنا ہے کہ فی کس آمدنی جی ڈی پی کے سائز کو ملک کی مجموعی آبادی پر تقسیم کر کے نکالی جاتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس سال حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق 3.9 فیصد جی ڈی پی میں شرح نمو ہے جس کی وجہ سے اس کا سائز بڑھ گیا ہے جس نے فی کس آمدنی کے اعدادوشمار کو بھی بڑھا دیا ہے۔

جی ڈی پی میں اضافے سے بڑھنے والی فی کس آمدنی کیا حقیقی ہے؟

پاسکتان

حکومت کی جانب سے جی ڈی پی سائز میں اضافے کی بنیاد پر فی کس آمدنی بڑھنے کے اعداد و شمار جاری کر کے قوت خرید میں اضافے کا جو دعویٰ کیا گیا ہے اسے ماہرین معیشت درست نہیں سمجھتے۔

ماہر معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ معیشت کی اصطلاح میں اگر دیکھا جائے تو جب جی ڈی پی میں ترقی ہوتی ہے تو اسی سال لوگوں کی آمدنی میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ اسے منتقل ہونے میں دو تین سال کا عرصہ لگتا ہے۔

ڈاکٹر بنگالی نے کہا معیشت میں ترقی کی وجہ سے کمپنیوں کے مالکان کو تو چھ مہینے یا سال کے اختتام پر منافع کی صورت میں منافع ہوتا ہے لیکن ملازمین کو اس کا فوری فائدہ نہیں ہوتا۔ انھوں نے حکومتی دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے کہا جس طرح جی ڈی پی راتوں رات نہیں بڑھتی اسی طرح قوت خرید میں اضافہ بھی راتوں رات نہیں ہوتا۔

یہ بھی پڑھیے

کیا پاکستان میں مہنگائی جانچنے کا نظام صحیح ہے؟

کیا پاکستانی ٹیکسٹائل صنعت عالمی سطح پر انڈیا کی جگہ لے رہی ہے؟

کیا حکومتِ پاکستان قرض لے کر قرض اتارنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے؟

انھوں نے کہا کہ دوسال میں کووڈ کے باعث معیشت تو ویسے ہی بُری صورتحال کا شکار تھی اس لیے اب جو اضافہ ہوا ہے ان کا تقابل گذشتہ دو سالوں سے کیسے کیا جا سکتا ہے۔

ڈارسن سیکورٹیز کے معاشی تجزیہ کار یوسف سعید کے مطابق جی ڈی پی میں اضافے اور کمپنیوں کے منافع میں اضافے سے سرمایہ دار تو فائدہ اٹھاتے ہیں تاہم یہ کہنا کہ اس کے اثرات عام آدمی کو منتقل ہوئے ہیں یہ بات صحیح نہیں ہے۔

ماہر معیشت ڈاکٹر پرویز طاہر کا کہنا ہے کہ حکومت نے یہ دعویٰ ایسے وقت میں کیا ہے جب کہ حکومت نے گذشتہ سال خود اپنے ملازمین کی تنخواہ اور پنشن میں اضافہ نہیں کیا جب کہ دوسری جانب مہنگائی کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔

اسی طرح عام ورکر کی تنخواہ میں بھی کوئی اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ ڈاکٹر پرویز نے فی کس آمدنی کی بنیاد پر قوت خرید میں اضافے کو مسترد کرتے ہوئے کہا یہ دعویٰ زمینی حقیقت سے بھی مطابقت نہیں رکھتا جب کہ مہنگائی کی وجہ سے عام لوگ پریشان ہیں۔

حکومت کا دعویٰ کس طرح غیر حقیقی ہے؟

مہنگائی

ڈاکٹر بنگالی نے حکومتی دعوے کو غیر حقیقی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر موجودہ مالی سال کو دیکھا جائے تو یہ سال بھی کورونا کی نذر ہو گیا ہے۔ ‘اگرچہ حکومت معاشی ترقی کے دعوے کر رہی ہے تاہم اس وبا کی وجہ سے عام فرد شدید متاثر ہوا ہے۔ ملک میں بیروزگاری پیدا ہوئی تو دوسری جانب لوگوں کے رئیل ویجز یعنی حقیقی آمدنی بھی متاثر ہوئی۔’

ادارہ شماریات نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی سست روی کے باعث ملک میں دو کروڑ ستر لاکھ لوگ بے روزگار ہوئے، لاک ڈاون سے پہلے ملک میں ساڑھے پانچ کروڑ افراد کی ورک فورس تھی جو لاک ڈاؤن کی وجہ سے ساڑھے تین کروڑ رہ گئی ہے، تاہم معیشت میں بحالی کی وجہ سے بے روزگار ہونے والے افراد کی ایک بڑی اکثریت دوبارہ کام پر لوٹ چکی ہے اور اس وقت ان کی تعداد پانچ کروڑ بیس لاکھ تک ہے۔

ڈاکٹر بنگالی نے کہا اس کے علاوہ لوگوں کی تنخواہوں میں کٹوتی کی گئی جس کی وجہ سے ان کی قوت خرید محدود ہوئی ہے۔ اُن کے مطابق ایک خاص طبقہ کی آمدنی یقینی طور پر بڑھی ہے کہ جو پیدا کر رہا ہے یا وہ جو اسے سٹاک کر رہا ہے کیونکہ اُن کی پیداوار اب مہنگے داموں بک رہی ہے کیونکہ ملک میں افراط زر کی شرح بلندی کی جانب گامزن ہے۔

ڈاکٹر بنگالی نے کہا کہ اگر معیشت میں بہتری آئی بھی ہے تو اس کا معیشت کے اصولوں کے تحت فائدہ ایک سال کے اندر منتقل نہیں ہو سکتا۔

مہنگائی اور قوت خرید کے درمیان تعلق

آئی بی اے میں معیشت کے استاد صائم کہتے ہیں کہ جی ڈی پی کی شرح کا دو طرح سے تعین کیا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایک حقیقی جی ڈی پی ہوتی ہے جس میں ملک کے پیداواری شعبوں کی اعداد و شمار لے کر ملک کی مجموعی ترقی کا نمبر دیا جاتا ہے اس میں مہنگائی کو شامل نہیں کیا جاتا۔

دوسری قسم نومینل جی ڈی پی ہوتی ہے جس میں مہنگائی کو شامل کیا جاتا ہے کہ اگر پہلے کوئی شخص ایک سو روپے میں خرید کر رہا تھا تو اب وہ ایک سو دس روپے میں وہی چیز خرید رہا ہے یعنی وہ چیز بنانے والی کمپنی زیادہ پیسے کما رہی ہے اور اسے مزید نفع مل رہا ہے تاہم جو عام صارف خرید رہا ہے اس کی آمدنی پر اس کا بوجھ پڑ رہا ہے ۔

صائم علی نے کہا معاشرے میں کیونکہ معاشی عدم مساوات ہے اس لیے کمپنیوں کی پیداوار میں اضافے کی بنیاد پر جی ڈی پی میں گروتھ کے اعداد و شمارجاری کر دیے جاتے ہیں اور اس کی بنیاد پر فی کس آمدنی میں بھی اضافہ دکھا دیا جاتا ہے، لیکن ایک ایک ورکر کی آمدنی میں اضافہ ہوا یا نہیں اس کے بارے میں کسی کو پتا نہیں۔

فی کس آمدنی اور قوت خرید میں کیا تعلق ہے؟

مہنگائی

ملک میں رہنے والے افراد کی فی کس آمدنی میں اضافے اور حکومتی دعوے کے مطابق قوت خرید بڑھنے کے معاملے پر بات کرتے ہوئے عارف حبیب سیکورٹیز میں معاشی اُمور کی تجزیہ کار ثنا توفیق نے فی کس آمدنی اور قوت خرید کے درمیان تعلق پر بات کرتے ہوئے کہا جب ملک کی جی ڈی پی بڑھتی ہے اور اس کے نیتجے میں فی کس آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ لوگوں کی قوت خرید میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

انھوں نے کہا پاکستان ایک خرچ کرنے والی معیشت ہے کہ جہاں لوگوں کی جانب سے پیسے خرچ کر کے جب چیزیں خریدی جاتی ہیں تو اس کا اثر جی ڈی پی میں اضافے کی صورت میں نکلتا ہے۔ اگر جی ڈی پی میں اضافہ ہو رہا ہے تو اس کا مطلب لوگ زیادہ خرچ کر رہے ہیں اور ان کی طلب پوری کرنے کے لیے زیادہ چیزوں کی پیداوار ہو رہی ہے۔

حکومتی دعوے پر بات کرتے ہوئے ثنا توفیق نے کہا کہ اس دعوے میں ایسا کچھ غلط نہیں ہے کہ جس پر تنقید کی جائے۔ ان کے مطابق اگرچہ مہنگائی کی شرح بڑھی ہے لیکن چیزوں کی کھپت بھی بڑھی ہے جس کی وجہ سے زرعی، صنعتی اور خدمات کے شعبے میں زیادہ گروتھ آئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32465 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp